نگراں پنجاب حکومت نے العزیزیہ ریفرنس میں مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف کی سزا معطل کر دی ، نگران پنجاب کابینہ نے سرکولیشن کے ذریعے سزا معطلی کی منظوری دی ۔سیاستدانوں کے لیے ایک طرف لیول پلیئنگ فیلڈ کی بات کی جاتی ہے جبکہ دوسری طرف یکطرفہ اقدامات نظر آ رہے ہیں۔ نگران حکومت کا کام شفاف انتخابات کے سوا کچھ نہیں، نگران حکومت کو افسران کے تبادلوں کے اختیارات بھی نہیں ہوتے مگر موجودہ نگران سیٹ اپ میں اتنے بڑے فیصلے ہو رہے ہیں کہ جن کا اختیار شاید منتخب حکومت کو بھی نہ ہو۔ وزیر اطلاعات پنجاب عامر میر کا کہنا ہے کہ آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے پنجاب نے سزا معطل کی جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان نے گزشتہ روز کیس کی سماعت کے دوران نگران حکومت کی ضرورت پر سوال اٹھادئیے ، چیف جسٹس کے ریمارکس کا ایک ایک لفظ قیمتی ہے، ان کا کہنا تھا کہ نگران حکومت کا ایک مقصد شفاف انتخابات یقینی بنانا ہوتا ہے لیکن آئین نے شفاف انتخابات کی ذمہ داری ایک اور ادارے کو دی ہے،جب یہ ذمہ داری الیکشن کمیشن کی ہے تو نگران حکومت کی ضرورت کیا ہے۔ چیف جسٹس نے بجا اور درست کہا کہ ضیاء الحق نے آر سی او کے ذریعے نگران حکومت کی شق ڈالی لیکن جب محمد خان جونیجو کی حکومت ختم کی گئی تو نگران حکومت نہیں بنائی گئی۔ نواز شریف کو جس طرح واپس لایا گیا ہے اور جو سہولتیں ان کو مہیا کی جا رہی ہیں اس سے لیول پلیئنگ فیلڈ والی بات بے معنی ہو کر رہ گئی ہے، مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے کہا ہے کہ اکیس اکتوبر لاہور میں نواز شریف کے جلسے سے ہماری انتخابی مہم شروع ہو گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا مخالف فریق کو یہ موقع دیا گیا ہے؟ سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کا احتساب عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کے دوران یہ کہنا غلط نہیں کہ پیپلز پارٹی کو لیول پلیئنگ فیلڈ کبھی نہیں ملی۔ پاکستان میں حکومتیں بنوانے اور انہیں تڑوانے کی پریکٹس سے ملک و قوم کو نقصان اور بدنامی کے سوا کچھ نہیں ملا۔ کہنے کو تو کہہ دیا جاتا ہے کہ عمران خان کو جو لائے تھے انہوں نے نکال دیا تو اس میں کیا مضائقہ ہے جبکہ لانے اور نکالنے کی پریکٹس ہی نہیں ہونی چاہئے، پاکستان اگر جمہوری ملک ہے تو اسے حقیقی معنوں میں جمہوری ملک بنایا جائے۔ پاکستان میں اقتدار کے کھیل نے بہت زخم دئیے ہیں، پاکستان دو لخت ہوا ،اس کے بعد بہت سے معاملات سے اجتناب کی ضرورت تھی مگر وہی عمل آج بھی جاری ہے، کبھی پارٹی بنائی جاتی ہے اور پھر ختم جاتی ہے، کسی کو ڈیل کے ذریعے لایا جاتا ہے اور نکال دیا جاتا ہے اور پھر ایک اور ڈیل کا ڈول ڈالا جاتا ہے، اس پریکٹس سے پاکستان کے غریب عوام غربت ، مہنگائی اور بیروزگاری کی چکی میں بری طرح کچلے جا رہے ہیں ، بتایا جائے کہ عوام کا کیا قصور ہے؟۔ نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ کیا لیول پلیئنگ فیلڈ صرف ایک مخصوص جماعت کو جتوانے کا نام ہے اور 2018ء کی لیول پلیئنگ فیلڈ یاد ہے جب جنوبی پنجاب محاذ بنا تھا، پھر اس کا نتیجہ کیا نکلا۔ اس معاملے میں نگران وزیر اعظم کو کھل کر بات کرنی چاہئے کہ جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کس نے بنوایا اوربعد میں تحریک انصاف میں کس نے ضم کرایا؟ وسیب کے لوگوں سے گزشتہ پچھتر سال سے مسلسل دھوکہ ہوتا آ رہا ہے، اس کا ذمہ دار کون ہے؟ 2013ء کے الیکشن میں مسلم لیگ (ن) نے اپنے منشور میں وسیب سے دو صوبوں کا وعدہ کیا تمام اسمبلیوں میں دو تہائی اکثریت کے باجوود ایک صوبہ بھی نہ بنایا، 2018ء کے الیکشن میں عمران خان نے سو دن میں صوبہ بنانے کا تحریری معاہدہ کیا مگر ساڑھے تین سال میں صوبہ تو کیا صوبہ کمیشن بھی نہ بنایا، اس دوران پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کی طرف سے کہا جاتا رہا کہ تحریک انصاف اسمبلی میں صوبے کا بل لائے ہم حمایت کرینگے مگر عمران خان بر سراقتدار آنے کے باوجود بھی یہ نہ کر سکے، اپوزیشن سے مسلسل لڑائی جھگڑے کا ماحول رکھا ۔ اگر عمران خان صوبے کا بل لاتے اور صوبہ بن جاتا تو آج ان کی جماعت کو یہ دن نہ دیکھنا پڑتے۔ میں نے لیہ میں ملاقات کے دوران عمران خان کو صوبہ کا وعدہ یاد دلایا تو انہوں نے کہا تھا کہ ہمیں یاد ہے ہم ضرور بنائیں گے، تحریک انصاف کا خیال تھا کہ ہم صوبہ بنا کر تخت لاہور (ن) لیگ کو ایک دن کے لیے بھی نہیں دینا چاہتے ۔ اقتدار کے آخری دنوں میں صوبہ بنائیں گے جبکہ یہ معمولی سی قربانی تھی کہ صوبہ بنانے کے بعد وسیب کا اقتدار تحریک انصاف اور پنجاب کا (ن) لیگ کے جانا تھا ۔ تھوڑے ہی عرصے بعد جب عمران خان کو نکالا گیا تو سب کچھ (ن) لیگ کو مل گیا اور آج بھی سیاہ و سفید کا مالک (ن) لیگ کو بنایا جا رہا ہے تو عمران خان دانشمندی سے کام لیتے ہوئے تو اس بات پر غور کریں کہ صوبے کی وعدہ خلافی کا وسیب کے کروڑوں لوگوں کو کتنا نقصان دیا اور خود ان کی اپنی جماعت کا کیا حشر ہوا ہے۔ سیاست میں تدبر و حکمت عملی کی ضرورت ہوتی ہے، ضد اور ہٹ دھرمی کی بجائے سوچ میں اعتدال اور رویہ میں لچک کا ہونا جمہوریت کا حسن ہوتا ہے، انتشار ، لڑائی جھگڑا ، تشدد اور گالم گلوچ کی سیاست سے کسی اور کا نہیں خود اپنا نقصان ہوتا ہے، میر کارواں کے لیے نگاہ بلند ، سخن دلنواز اور جاں پرسوز ہونا ضروری ہوتا ہے۔ آج سیاسی صورت حال یکسر تبدیل ہے، نواز شریف کو موقع مل رہا ہے تو ان کی سوچ لاہور تک محدود نہیں رہنی چاہئے، ملک و قوم کی بہتری کے لیے بڑے فیصلے کرنے چاہئیں ، جو کام عمران خان نہیں کر سکے ، (ن) لیگ کو اپنے وعدے کے مطابق صوبے کے بارے میں پیشرفت کر کے وفاق پاکستان کے توازن کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے اور سینیٹ میں 62 فیصد آبادی کے صوبے کا جو استحصال ہو رہا ہے اُسے بچانا چاہئے، داخلی اور خارجہ پالیسی پاکستان کے مفادات کے تابع ہونی چاہئے تاکہ ملک میں سیاسی بحرانوں کا خاتمہ ہو سکے اور ملک کے 24 کروڑ عوام ذہنی اذیت سے چھٹکارہ پا سکیں۔