حالیہ عرصے میں کسی بین الاقوامی فورم پر اگر پاکستانی سفارت کاری کو کوئی بہت بڑی کامیابی ملی ہے، تو وہ مصر کے شہر شرم الشیخ میں ہونے والی اقوام متحدہ کی ماحولیاتی تبدیلی کی کانفرنس یعنی ’ کاپ 27 ‘میںگروپ 77یعنی ترقی پذیر ممالک کی قیادت کرتے ہوئے،ایک تاریخی معاہدے پر اتفاق رائے کراونا ہے۔ جس کے تحت ماحولیاتی تبدیلی سے’’ نقصان اور تباہی‘‘ کی تلافی کیلئے ایک فنڈ قائم کیا گیا، تاکہ ان ممالک کی مدد کی جائے جنہیں ماحولیات کی تبدیلی کی وجہ سے نقصان اٹھانا پڑ ا ہو۔اس فنڈ کو قائم کرنے کیلئے چھوٹے جزیروں اور دیگر کمزور ممالک کی حکومتیں کئی دہائیوں سے مطالبہ کرتی آرہی تھیں۔ کانفرنس میں شرکت کرنے والے کئی مندوبین، جس میں بھارت کے نمائندے بھی شامل ہیں ،نے راقم کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ حالیہ سیلاب کی تباہ کاریوں کی وجہ سے پاکستانی وفد پوری تیاری کے ساتھ آیا تھا اور ان کی وجہ سے ہی مغربی ممالک ترغیب و لالچ دینے کے باوجود گروپ77ممالک کی صفوں میں دراڑیں پیدا نہیں کرسکے۔ پاکستان نے آخر وقت تک ترقی پذیر ممالک کے اس گروپ کو لیڈ کیا اور اس فنڈ کے قیام کیلئے اتفاق رائے پیدا کروانے میں کامیابی حاصل کی۔ اس گروپ میں گو کہ اب 134ممالک ہیں، مگر ابھی بھی اسکو گروپ77کے نام سے جاتا ہے کیونکہ 1964 میں اس کی بنیاد کے وقت اس میں 77ممالک شامل ہوگئے تھے۔ مغربی ممالک اس فنڈکو تو ایجنڈامیں ہی شامل کرنے کے روادار نہیں تھے۔ جب 6نومبر کو شرم الشیخ میں اس کانفرنس کا آغاز ہوا تو پہلے دو دن تو ایجنڈہ کو ہی طے کرنے میںلگ گئے۔ 48گھنٹوں تک چلنے والی بات چیت جو دن رات صبح پانچ بجے تک بغیر کسی بریک کے جاری رہی کی وجہ سے بالآخر ’’نقصان اور تباہیـ ‘‘ کی تلافی کے فنڈ کو ایجنڈامیں شامل کیا گیا۔ بعد میں 18 نومبر کو جب اعلامیہ ترتیب دیا جا رہا تھا تو اس کو شامل کرنے پر خاصی لے دے ہوگئی۔ امریکی صدر کے مشیر جان کیری نے تو یہاں تک کہا کہ اکثر ممالک تو اسوقت کساد بازاری کا شکار ہیں۔ ان کہنا تھا کہ فی الحال یہ فنڈ ایجنڈا میں آگیا ہے، اسلئے آئندہ کسی دوسری کانفرنس میں مناسب وقت پر اسکو اعلامیہ میں شامل کیا جائے۔ ہرجیت سنگھ، جو گلوبل پولیٹیکل اسٹریٹجی، کلائمیٹ ایکشن نیٹ ورک انٹرنیشنل کے سربراہ ہیں، نے ان کو کانفرنس کی میز پر ہی بتایا کہ جس طرح بینکوں کو بیل آؤٹ کرنے، کوویڈ وبا کا مقابلہ کرنے اور اب حال ہی میں روس یوکرین جنگ لڑنے کیلئے مغربی ممالک نے جس طرح خزانے کھول دیے ہیں، اسکا مطلب یہی ہے کہ پیسہ ان ممالک کیلئے کوئی مسئلہ نہیں ہے، بلکہ ترجیحات ایشو ہیں۔ ان کے مطابق امریکہ نے ہمیشہ غریب ممالک جو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے دوچار ہیں کی طرف جانے والے پیسے کو روک دیا ہے۔ ماضی میں ان مغربی ممالک نے بائیو ایندھن، یعنی کوئلہ کے استعمال کو کم کرنے کے وعدے کئے تھے، مگر اب یوکرین جنگ کے نام پر اور انرجی اسکیورٹی کے نام پر دوبارہ کوئلہ کی کانکنی کیلئے سرمایہ فراہم کر رہے ہیں۔ اس کانفرنس میں امید تھی کہ کوئلہ کے علاوہ اب گیس کے استعمال پر بھی قدغن لگانے پر کوئی اتفا ق رائے پیدا کیا جائیگا۔ مگر مغربی ممالک نے اسکو ناکام بنادیا۔ ہرجیت کا کہنا ہے کہ کانفرنس میں عالمی درجہ حرارت میں 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ سے کم اضافے کو محدود کرنے کے لیے بھی کوئی اتفاق رائے نہیں ہو سکا ۔مگر ان کا کہنا ہے کہ فنڈ کے قیام کیلئے ترقی پذیر ممالک کے اتحاد کو قائم رکھنے کیلئے پاکستانی سفارت کاری نے خاصی مدد کی ۔ اس سے پہلے کی کانفرنسوں میں مغربی ممالک اس طرح کے اتحاد کو لالچ و ترغیب دیکراعلامیہ سے قبل ہی توڑ دیتے تھے۔ اسکے علاوہ یورپی یونین کا اصرارتھا کہ چھوٹے جزیرے والے ممالک اور 46انتہائی کم ترقی والے یعنی ایل ڈی سی ممالک کو ہی ماحولیاتی تبدیلی سے غیر محفوظ مان کر یہ فنڈ ان کیلئے ہی مختص کیا جائے۔ مگر مذاکرات کے دوران بھارت اور پاکستان نے مل کر اس فنڈ کو ملک کی جی ڈی پی کے ساتھ منسلک کرنے کی سختی کے ساتھ مخالفت کی۔ خیر یہ فنڈ تو قائم ہو گیا ہے، مگر اس کیلئے رقوم کون ادا کریگا اور کس کو اسکو حصہ دیا جائیگا اور یہ فنڈ کہا ں رکھا جائیگا، ابھی تک اس بارے میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔ مغربی ممالک اس فنڈ کو گرین کلائمیٹ فنڈ کے تحت رکھنے پر بھی زور دے رہے تھے۔ مگر اس کی مزاحمت کی گئی،کیونکہ یہ فنڈ کئی شرائط کے تحت ہی ممالک کو فراہم کیا جاتا ہے۔ ماحولیات کے حوالے سے بھارت کی ایک مؤخر تھنک ٹینک سنٹر فار سائنس اینڈ انوائرنمنٹ (CSE) کی ڈائریکٹر جنرل سنیتا نارائن کے مطابق چونکہ اس فنڈ کی تفصیلات طے نہیں کی گئی، اس لئے اس کو کل دوبارہ کھولا جا سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک وقت میں صرف ایک قدم اٹھانا عالمی ماحولیات کیلئے تباہ کن ثابت ہورہا ہے اس لئے اس کانفرنس کو دیگر امور کو بھی نپٹانا چاہئے تھا۔ ایک اور مذاکرات کار رچا شرما، جو بھارت کی وزارت ماحولیات میں ایڈیشنل سکریٹری بھی ہیں ، کا کہنا ہے کہ ہاں ذمہ داری اور معاوضے کے الفاظ حتمی دستاویز میں موجود نہیں تو ہیں، مگر یہ بالکل واضح ہے کہ جو لوگ غیر متناسب کاربن بجٹ کا استعمال کرتے ہیں، ان کو ہی اس فنڈکیلئے رقوم فراہم کرنی پڑے گی۔ ان کے وفد نے اس بات پر زور دیا کہ توانائی کے عالمی بحرانوں کو صرف موجودہ روس یوکرین جنگ سے پیدا شدہ جغرافیائی سیاسی تناظر میں نہیں رکھا جانا چاہیے بلکہ اس بات کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ دنیا کے بڑے حصے مسلسل توانائی کے بحران کی حالت میں رہتے ہیں۔ جس درد کو آجکل یورپ محسوس کرتا ہے، انرجی کے حوالے سے افریقہ ، ایشیا اور معتدد دیگر ممالک کے عوام تو یہ کئی صدیوں سے اسکے ساتھ جی رہے ہیں۔ بھارت کے سابق خارجہ سکریٹری اور وزیر اعظم کے خصوصی ایلچی برائے جوہری امور اور موسمیاتی تبدیلی شیام سرن کا کہنا ہے کہ 2030 تک قابل تجدید توانائی میں سالانہ تقریباً 4 ٹریلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے تاکہ 2050 تک خالص صفر تک اخراج پہنچ سکے۔مزید برآں، کم کاربن معیشت کی عالمی تبدیلی کے لیے کم از کم 4-6 ٹریلین سالانہ کی سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی۔ ترقی پذیر ممالک کو قومی سطح پر طے شدہ وعدوں کو پورا کرنے کے قابل بنانے کے لیے 2030 سے پہلے 5.8 ٹریلین ڈالر کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ماضی کی کانفرنسوں میں طے پایا گیا تھا کہ ترقی یافتہ ممالک 2005سے 2015تک بائیو ایندھن سے توانائی کی منتقلی میں مدد دینے کے لیے سالانہ 100 بلین ڈالر فراہم کرنے کریں گے۔ مگر یہ بس خواب ہی رہا۔ اب اگر یہ ممالک اس قدر قلیل رقم نہیں دے پائے، تو ٹریلین ڈالر کی رقم ہر سال کون دیگا۔ خیر پاکستانی سفارت کاری کی وجہ سے عالمی طور پر تلافی کے فنڈنگ کا ایک مسئلہ فی الحال تو حل ہوگیا، مگر ان کو اسی شدو مد کے ساتھ اپنے ہی خطے میںبھارت کے ساتھ دریائے سندھ اور اسکی معاون ندیوں کو پانی فراہم کرنے والے کشمیر اور لداخ کے پہاڑوں میں موجود گلیشیرزکے تیزی کے ساتھ پگل کر ختم ہونے کے ایشوز پر بھی اسی طرح کا کوئی قدم اٹھانا ہوگا۔ پاکستان کا مرکزی دریا سندھ، تبت سے نکل کر لداخ اور پھر گلگت کے راستے پاکستان میں داخل ہوجاتا ہے۔ اس کی ایک شاخ کرگل کے پاس الگ ہوکر سونہ مرگ کے راستے وادی کشمیر کے ایک حصے کو سیراب کرکے گاندربل میں دریائے جہلم میں ضم ہو جاتی ہے۔ پاکستان کی تین چوتھائی آبادی سندھ تاس میں آباد ہے اور اسکی 80فیصد خوراک کی ضروریات سندھ اور اسکی معاون ندیوں خاص طور پر جہلم اور چناب پر منحصر ہے۔ ان دریاوں کو فیڈ کرنے والے گلیشیروں کو سب سے زیادہ خطرہ پہاڑی علاقوں میں بلا روک و ٹوک آمد و رفت اور مذہبی یاتراوئں کو سیاست اور معیشت سے جوڑنے سے ہے۔ بھارتی حکومت نے حالانکہ ملک کے بیشتردریائوں اورندیوں کے منبع یعنی گنگا کے گلیشیرو ں کی حفاظت کے لئے متعدد اقدامات کئے ہیں لیکن وادی کشمیر اور پاکستان کو پانی فراہم کرنے والے سند ھ طاس گلیشیر کی تباہی پر وہ اس طرح کے اقدامات کرتے ہوئے نہیںنظر آتی ہے۔ بھارت میں گلیشیرز کا ڈیٹا حاصل کرنا بھی خاصا مشکل ہے، کیونکہ یہ سرحدی علاقوں میں آتے ہیں اور وزارت دفاع و فوج ان علاقوں کے سروے کی اجازت نہیں دیتی ہے۔ فوجی کشیدگی یا سرحدی تنازعات ، قومی سلامتی کیلئے خطرات تو ہیں، مگر ماحولیاتی تبدیلیوں سے اس سے بھی شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ یہ خطرہ کسی ایٹمی جنگ سے کم نہیں ہے۔