صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے الیکشن کے سلسلے میں چیف الیکشن کمیشن راجہ سلطان کو خط لکھا ہے، جس میں تجویز دی گئی ہے کہ عام انتخابات 6 نومبر کو ہونے چاہئیں۔ انہوں نے لکھا کہ صدر مملکت نے 9 اگست کو وزیر اعظم کے مشورے پر قومی اسمبلی کو تحلیل کیا۔ آئین کے آرٹیکل 495کے تحت صدر کا اختیار ہے کہ اسمبلی میں عام انتخابات کے انعقاد کیلئے تاریخ مقرر کرے۔ دوسری طرف نگران وزیر قانون و انصاف احمد عرفان اسلم کی صدارت ہونیوالے اجلاس میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کی تاریخ صدر نہیں بلکہ الیکشن کمیشن کا اختیار ہے۔ پاکستان میں جاری سیاسی کشمکش کے دوران سب آئین کی بات کرتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ آئین پر کوئی عملدرآمد نہیں کرتا۔ پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلی کی تحلیل کے بعد نہ صرف یہ کہ 90 دن کے اندر الیکشن نہ ہوئے بلکہ اس سلسلے میں عدالت کے حکم پر بھی عملدرآمد نہ کیا گیا۔ پاکستان میں غیر جمہوری ادوار کی تاریخ بہت طویل ہے۔ پاکستان میں بہت عرصہ مارشل لاء رہا اور پھر جمہوریت قائم ہوئی ۔ اب بھی ملک میں ڈیمو کریسیہے۔ جمہوری اقدار کو خود سیاستدان بھی پامال کرتے آرہے ہیں، حقیقی معنوں میں دیکھا جائے تو سیاسی جماعتوں کے اندر بھی ایک طرح کی آمریت قائم ہے۔ جمہوریت میں پارٹی سربراہ سمیت سب جوابدہ ہوتے ہیں، مگر یہاں پارٹی سربراہ کو ڈکٹیٹر اور بادشاہ بنایا گیا ہے کہ اُس کی مرضی کے بغیر پتا بھی نہیں ہل سکتا۔ آج جہاں جمہوریت خطرات کا شکار ہے وہاں 15 ستمبر جمہوریت کا عالمی دن منایا گیا۔ پوری دنیا میں یہ دن منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کی ابتداء 2008ء میں ہوئی۔ اقوام متحدہ جنرل اسمبلی نے 2007ء میں اپنے 62 ویں سیشن کے ایجنڈا آئٹم نمبر 12 کی قرارداد نمبر 62/7 کے ذریعے ہر سال یہ دن منانے کی قرارداد منظور کی۔ اس دن کو منانے کا مقصد بین الاقوامی سطح پر نئی جمہوریتوں کی حمایت کرنا اور ملکوں میں حکومتی سطح پر جمہوریت کے فروغ کے اقدامات کرنا ہے۔ اب ہم جمہوریت کی طرف آتے ہیں یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ نام کی جمہوری قوتیں بالواسطہ طور پر میڈیا کو نقصان دینے کی کوشش کرتی آرہی ہیں۔ بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان کی اساس جمہوریت کو قرار دیا تھا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ریاست مدینہ کا شورائی نظام بھی جمہوریت کی ایک شکل ہی تھی کہ مشاورت کے بعد اکثریت کی بنیاد پر فیصلے ہوتے ہیں، بانی پاکستان اپنی سوچ اور اپنے وژن کے مطابق پاکستان کو مضبوط جمہوری ملک بنانا چاہتے تھے یہ بھی حقیقت ہے کہ قیام پاکستان سے ایک سال قبل 1946ء میں ہونے والے مرکزی اسمبلی کے الیکشن میں مسلم لیگ کو مسلم علاقوں میں بھرپور کامیابی حاصل ہوئی۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے اسے مسلمانوں کی جمہوری کامیابی قرار دیا اور 11جنوری 1946ء کو کامیابی کا جشن منایا گیا۔اس کے بعد صوبائی الیکشن ہوئے مسلم لیگ نے کل 495 مسلم نشستوں میں سے 428نشستیں حاصل کیں۔ بنگال میں سب سے زیادہ کامیابی حاصل ہوئی۔ قائد اعظم کی زندگی نے وفا نہ کی، اُن کی وفات کے ساتھ ہی جمہوریت کے خلاف سازشیں شروع ہو گئیں۔1954ء میں مشرقی بنگال کے انتخابات ابتری کی صورت میں سامنے آئے، ان انتخابات میں مسلم لیگ کے علاوہ کسی دوسری جماعت نے احتجاجاً حصہ نہ لیا۔ اس موقع پر خونی فسادات بھی ہوئے 1956ء میں آئین تیار ہوا مگر 7اکتوبر 1958ء کو مارشل لاء نافذ کر دیا گیا۔ ایوب خان نے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت میں 27 اکتوبر 1958ء کو آئین منسوخ کر دیا اور 1959ء کوبنیادی جمہوریت کی صورت میں نیا نظام متعارف کروایا۔ عوام کے احتجاج پر 25 مارچ 1969ء کو ایوب خان نے اختیارات کمانڈر اینڈ چیف جنرل یحییٰ خان کے سپرد کر دئیے۔ یحییٰ خان نے 7دسمبر1970ء کو بالغ رائے دہی کے بنیاد پر عام انتخابات کرائے، عوامی لیگ کو بھرپور کامیابی حاصل ہوئی مگر نتیجہ تسلیم نہ کیا گیا جس کی بناء پر فسادات ہوئے اور ملک دولخت ہو گیا۔ بقیہ ملک کا اقتدار ذوالفقار علی بھٹو کو ملا انہوں نے 1973ء کا آئین دیا۔ اس کے بعد 1984ء کو ریفرنڈم ہوا اور اس کے بعد مشرف کا غیر جمہوری دور بھی آیا اور اس دوران جمہوریت کے نام پر سیاست کرنے والے سیاستدانوں کے غیر جمہوری رویے جمہوریت کی تباہی کا باعث بنے۔ اس موقع پرجمہوری قوتیںاور میڈیا اپنا بھرپور کردار ادا کرنے سے قاصر رہا۔ غریب طبقات خصوصاً پسماندہ علاقوں کے غریبوں کی بات کوئی سننے کو تیار نہیں۔ عوام میں شعور کی بیداری ہی میڈیا کے مضبوط کردار کی عکاس ہے لیکن استحصالی جمہوریت کے فروغ میں میڈیا کا کردار ہمیشہ فعال رہا۔ قانون ساز اداروں میں عام آدمی کو فائدہ پہنچانے کیلئے میڈیا کا کردار صفر ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ میڈیا سے بھی محروم اور پسماندہ طبقات خصوصاً پسماندہ وسیب کو بہت شکایات ہیں اور ایک کہاوت مشہور ہے کہ بڑے شہروں میں معمولی سے واقعہ پر میڈیا طوفان اٹھا دیتا ہے اور وسیب میں قیامت بھی گزر جائے تو میڈیا کے کانوں میں جوں تک نہیں رینگتی۔ جیسا کہ موجودہ حکمرانوں نے سو دن میں صوبہ بنانے کا وعدہ کیا۔ تین سال گزر گئے چوتھا سال شروع ہے مگر میڈیا خاموش ہے۔ اس لیے کہ یہ محروم وسیب کا مسئلہ ہے۔ وسیب کی شناخت سمیت انسانی حقوق کی پامالی قدم قدم پر جاری ہے۔ کوئی مدد کرنے کو تیار نہیں ہے۔ میڈیا کو اپنے رویے پر غور کرنا ہو گا اور خود بھی جمہوری انداز فکر اختیار کرنے ہوں گے ورنہ لوگوں کا جہاں حکومت سے اعتماد اٹھ گیا ہے۔ حقیقی جمہوریت کیلئے جمہوری اقدار کی سربلندی ضروری ہونے کے ساتھ جمہور کو بھی اُس کا حق دینا ضروری ہے۔ پسماندہ علاقوں کی ترقی اور محروم طبقات کو انصاف مہیا کرنا جمہوریت کی حقیقی روح ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ سب سیاسی جماعتیں اپنی اپنی حدود میں رہ کر کام کریں اور ملک کے اندر جمہوریت کی جڑیں اس قدر مضبوط کی جائیں کہ کوئی آندھی یا طوفان اُس کو نقصان نہ دے سکے۔