اس ملک کے عوام کو کاغذوں کے پلندے کھلائو ۔ مفاہمت کی یادداشتیں ‘معاہدوں کی فائلیں ‘ اٹھارھویں ‘ انیسویں ‘ بیسویں اور ہزاروں ترامیم کے مسودے ان کو دستر خانوں پر سجائو ‘ ان کو اتحادیوں کی سیاست کھلائو ‘ انہیں الزامات اور ٹاک شوز کا جوشاندہ پلائو ۔اسمبلی کی مدت پوری کرنے کی خوشی میں پانچ برسوں میں ایوان میں ہونے والے خطابات کی کتابیں ان کو چٹائو ۔اپنی اپنی سیاسی اور جماعتی وابستگی کے حق میں دیے جانے والے دلائل کی سی ڈیز عوام کو لا دو ۔ پانچ برسوں کی کل کمائی اس عوام کے لیے ہے جسے صرف ’’ ووٹ‘‘ دینے کے لیے رکھا گیا ہے ۔ ہر سیاست کار جو ایوانوں سے ریٹائر ہو کر نکل رہا ہے ۔مفاہمت ‘ صوبوں کی خود مختاری اور دستور میں ترامیم عوام کو دے کر جا رہا ہے ۔ مہنگائی کم ہوئی نہ دہشت گردی کا خاتمہ ہوا ‘ ٹارگٹ کلنگ ختم ہوئی نہ معیشت بہتر ہوئی ‘ سرمایہ کاری آئی نہ روٹی کی قیمت کم ہوئی ‘ نہ غیر ملکی قرضے کم ہوئے ‘ لوڈ شیڈنگ کا عذاب گیا نہ ریلوے اور پی آئی اے بہتر ہوئے ‘ روٹی کپڑا اور مکان ‘ گولی کفن اور قبر بن گیا ۔ بس کاغذوں کے پلندے کے پلندے باقی رہے عوام کے لیے…!! پانچ برس مزید گزر گئے ‘ لیکن اس عوام کے دن نہیں پھرے ‘ روشنی کی کرن دور دور تک پھوٹتی دکھائی نہیں دیتی ۔ کراچی سے خیبر تک عوام پہلے سے زیادہ جبر کا شکار ‘ مہنگائی کے پہاڑ تلے سسک رہے ہیں ۔ ڈاکہ زنی ‘ لوٹ مار ‘ دہشت گردی اور کرپشن زوروں پر ہے ۔ غریب آدمی کا سانس لینا مشکل تھا اب جینا محال ہوا ۔ عزت اور عظمت والا حسب سابق وہی ہے جس کی جیب میں سکے کھنکتے ہیں ‘ قوت اختیار و دبدبے والا اب بھی وہی ہے جس کوغنڈہ گردی میں کمال حاصل ہے ‘ تھانے کچہری اور ہسپتال میں اب بھی اسی کا چلن ہے جس کے ہاتھ میں ڈنڈا اور پشت پر سیاسی قوت ہے سڑکوں پر لاشیں اسی طرح گرتی ہیں جس طرح پہلے گرتی تھیں ۔ دہشت اور خوف کا اب بھی وہی چلن ہے جو برسوں پہلے عام تھا ‘ ستم کے کوڑے اب بھی طمطراق سے لہراتے ہیں ‘ چوریاں ‘ لوٹ مار اور قبضے اب بھی جاری ہیں ‘ رشوت‘ چور بازاری اور جگا شاہی کا راج اب بھی قائم ہے ۔ شاہراہوں اور راہگزاروں پر موت پہلے سے زیادہ ارزاں ہے ‘ اندھیارے طول پکڑتے اور روشنی دم توڑتی جا رہی ہے لیکن حکمران طبقہ بضد ہے کہ انہوں نے اس پانچ برس میں ملک میں امن و آشتی کا علم گاڑا‘ کرپشن اور غنڈہ گردی کو اکھاڑ پھینکا ‘ میرٹ اور انصاف کا چلن عام کیا ‘ وحشت خوف اور جعلی دبدبے کے بطن سے امن کا سویرا طلوع کیا ۔اور … عوام کو تنگ دستی بد حالی ‘ غربت اور مفلسی کی دلدل سے نکال کر سرخرو کر دیا ۔اب کوئی غریب غریب اور کوئی امیر امیر نہیں ۔ یہ پانچ سالہ دور کم ظرف آیا اور گزر گیا ۔ اس دور نے کاغذوں کے پلندے عوام کو دیے اس دور نے عوام کے گھر کا چولہا جو سلگ رہا تھا ٹھنڈا کر دیا ۔ اس کے لیے غیرت سے جینے اور دنیا کے سامنے گردن بلند کرنے کا موقع ضرور تھا لیکن کشکول گدائی پھیلا کر بلند سر کو جھکا دیا گیا اور اس پر حد ستم یہ ہے کہ لوگوں کو اس بات پر جعلی پراپیگنڈے کے زور پر مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ حکمرانوں کی ہاں میں ہاں ملائیں ‘ وہ دودھ کو کالا کہیں ۔ ہمیں یاد آیا کہ بھلے وقتوں میں ایک صاحب کو شوق چرایا کہ وہ صاحب کرامت بن جائیں ‘ چنانچہ پوچھتے پچھاتے دور ایک جنگل میں پہنچے ایک سادھو کو وہاں دھونی رمائے پایا دست بستہ عرض گزار ہوئے کہ بندہ پر تقصیردور دیس سے کرامت سیکھنے کی غرض سے آیا ہے ۔ سادھو نے اس کو یہ کام کرنے سے روکنے کی کوشش تو ضرور کی لیکن وہ باز نہ آیا آخر میں سادھو نے اسے بتایا کہ اس کام میں اپنی مرضی کو مارنا پڑتا ہے ‘ سب سے پہلے انا مارنے کا کورس ایک سال کے دوران مکمل کرنا ہوگا ۔ وہ صاحب اس پر تیار ہو گئے ۔ فقیر بابا نے اسے بتایا کہ ایک برس تک تمہیں یہ خیال کرنا ہوگا کہ تم بھینس ہو ‘ اپنے من میں اس بات کو پختہ کر لو ۔ چنانچہ ایک سال تک وہ صاحب دل ہی دل میں خیال کرتے رہے کہ وہ بھینس ہیں۔ ایک برس بیت گیا ‘ امتحان کا وقت آیا سادھو بابا لوہے کا ایک گول کڑا لے کر کھڑے ہو گئے ‘ شاگرد سے کہا اس کڑے کے اندر سے چھلانگ لگائو ‘ انہوںنے جمپ کیا اور کڑے سے گزر کر دوسری طرف جا نکلے ‘ سادھو بابا نے ان کی ناکامی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ایک برس مزید یہ سبق یاد کرو‘ سیکھنے کا شوق جنون میں ڈھل چکا تھا ۔ چنانچہ یوں ایک برس ’’ میں بھینس ہوں ‘ میں بھینس ہوں ‘‘ پکارتے رہے ۔سال گزر گیا ایک مرتبہ پھر امتحان کا وقت آیا۔ سادھو بابا نے کڑا نکالا اور شاگرد سے کہا اس کڑے سے چھلانگ لگائو ۔ وہ اچھلا اور دوسری طرف نکل گیا ۔سادھو نے اس کی ناکامی کا اعلان کرتے ہوئے واپس کورس پر بھیج دیا ‘ المختصر کہ کئی برس اس مشق میں گزر گئے ۔ایک سال ایسا آ ہی گیا جب سادھو نے کڑا اٹھایا اور شاگرد سے کہا اس کڑے سے گزر جائو ‘ تب شاگرد نے حیرت سے اس کڑے کو دیکھا ‘ خوف کی ایک لہر اس کے جسم میں دوڑی کبھی سادھو بابا کو دیکھتا کبھی کڑے کو ‘ آنکھیں پتھرا گئیں ‘ سادھو نے حوصلہ بڑھایا اور کہا لگائو چھلانگ دیکھتے کیا ہو ۔ کپکپاتے لہجے میں کہنے لگا ۔ ’’ سادھو بابا میرے اتنے بڑے بڑے سینگ ہیں میں اس کڑے سے کیسے گزر سکتی ہوں ۔‘‘ ’’ جائو تم پاس ہو ‘‘ انا مارنے کے پہلے کورس میں کامیاب ہو کر وہ صاحب لوٹ آئے ‘ اس کے خیال کے ساتھ کہ اب وہ بڑے بڑے سینگوں والی بھینس بن چکے ہیں۔ ہمارے سادھو بھی عوام کی انا مار کر انہیں بھینس بنانے کی مشق کر رہے ہیں اب مرضی عوام کی کہ کب وہ کڑے سے گزرنے سے انکارکر دیںکہ ان کے بڑے بڑے ’’ سینگ ‘‘ انا مار کر نکل آئیں ۔ان ووٹرز( عوام ) کی انا مار دو ‘ انہیں کاغذکے پلندے کے مسودے معاہدوں کی شقیں اور ٹاک شوز کی سی ڈیز کھلا ئو ‘ ان کی انا اور مرضی مار دو تا کہ یہ بھینس بن جائیں ۔