مکرمی ! حکومتی سطح پر کئی ایسے قوانین بنائے گئے ہیں اور بنائے جار ہے ہیں جنہیں خواتین کے حقوق کے قوانین کہا جاتا ہے۔ مگر افسوس کہ وہ قوانین ابھی تک صرف کاغذوں اور فائلوںتک محدود ہیں اور ان پر مکمل عمل درآمد نہ ہونے کے باعث آج بھی خواتین اپنے حقوق کی خاطر دربدر کی ٹھوکریں کھاتی پھر رہی ہیں۔کہنے کو تو یہی کہا جاتاہے کہ عورت قابل ِاحترام ہے، مرد اور عورت ایک گاڑی کے دو پہیے ہیں مگر عملی طور پر آج بھی عورت کو پاؤں کی جوتی اور ناقص العقل سمجھا جاتاہے۔ ریاست کے بنیادی ستو ن پارلیمنٹ میں بھی خواتین کو نمائندگی کے مواقع دیئے گئے۔ مگروہ بھی خواتین کے بنیادی حقوق کے تحفظ اور صنفی انصاف کیلئے کوئی خاطرخواہ کردار ادا نہ کر سکیں۔ اپنے بنیادی حقوق اورصنفی انصاف کے بارے میں شعور بیداری وآگاہی کی اصل حقدار دور دراز کی دیہاتی عورت ہے جو آج بھی کولہو کے بیل کی طرح اور غلامانہ زندگی گزار رہی ہے۔اور یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ دنیا میں کوئی بھی معاشرہ خواتین کو صنفی انصاف اور ان کے بنیادی حقوق دیئے بغیر مہذب نہیں کہلا سکتا۔ ان حوا کی بیٹیوں کے حقوق کا استحصال کرنے کی بجائے روّیوں میں مثبت تبدیلی لانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔عورتوں پر تشدد کرنا مردانگی نہیں بلکہ ایک مکروہ فعل ہے۔ تشدد کی شکار عورتوں کی مدد کریں اور مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچائیں۔صنفی مساوات کے لئے ہم سب کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ ( اللہ ڈتہ انجم۔دھنوٹ)