پاکستان کی عدالتوں میں زیر التواء مقدمات کے بیک لاگ کا مسئلہ ہمیشہ سے ایک بہت بڑا چیلنج رہا ہے یہ بیک لاگ سائلوں کو بروقت انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کو اس وقت تقریباً 57,000 مقدمات کے ایک مشکل بیک لاگ کا سامنا ہے جس کے نتیجے میں مقدمات کے حل میں تاخیر فریقین میں مایوسی اور عدالتی نظام پر عوام کا اعتماد مجروح ہوتا ہے۔چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے اس مسئلے کے حل کے لئے پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن سمیت اہم اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ اس حیران کن بیک لاگ کو کم کرنے کے لیے ایک منصوبہ تیار کیا ہے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی قیادت میں سپریم کورٹ نے اپنی آپریشنل کارکردگی اور کیس نمٹانے کی شرح میں نمایاں بہتری کا مظاہرہ کیا ہے۔ ان کے چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے سنبھالنے کے بعد پہلے تین دنوں کے دوران سماعت کے لیے مقرر کردہ 56% مقدمات کو نمٹا دیا گیا، جو بیک لاگ سے نمٹنے کے لیے ایک فعال نقطہ نظر کا اشارہ کرتا ہے۔فوری اور قابل رسائی انصاف کو یقینی بنانے کے لیے پاکستان کے ہر ضلع میں موبائل کورٹس کے قیام پر غور کرنا چاہیے۔ یہ موبائل عدالتیں دور دراز کے علاقوں میں جا کر انصاف کو لوگوں کے قریب لا سکتی ہیں، خاص طور پر ان علاقوں چترال، کالاش اور شمالی پاکستان کے دیگر علاقوں میں جہاں عدالتی خدمات تک محدود رسائی ہے۔عدالتی طریقہ کار میں تبدیلی جیسے کیس ٹریکنگ، اور دستاویزات کو ہموار کرنے کے لیے ٹیکنالوجی کو اپنایا جائے۔ ای کورٹ سسٹم کا نفاذ عدالتی عمل کو تیز کرتے ہوئے کاغذی کارروائی اور انتظامی رکاوٹوں کو نمایاں طور پر کم کر سکتا ہے۔اس بات کو یقینی بنانے کے لیے قانونی امداد کی خدمات میں اضافہ کیا جائے کہ افراد خاص طور پر پسماندہ کمیونٹیز کے لوگوں کو قانونی نمائندگی تک رسائی حاصل ہو۔ اس سے قانونی کارروائی میں سائلوں کو انصاف کی رسائی میں مدد ملے گی۔خلاصہ کلام یہ ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے سپریم کورٹ میں زیر التواء مقدمات کے بیک لاگ کو دور کرنے کے لیے جو فعال اقدامات کیے گئے ہیں وہ قابل تعریف ہیں۔(رحمت عزیز خان چترالی)