عید کی چھٹیاں گائوں میں گزارتا ہوں‘اپنے پیاروں کے ساتھ عید منانے کا لطف ہی اور ہے ‘گائوں کی صاف شفاف فضا اور زندہ دل لوگوں کے ساتھ وقت بتانا کسی بھی نعمت سے کم نہیں۔عید کے لیے گائوں پہنچا تو افطاریوں کا سلسلہ شروع ہو گیا‘رمضان ختم ہوا تو عید کی دعوتیں شروع ہو گئیں اوریوں ایک مختصر وقفے کے بعد کالم بھیج رہا ہوں۔عید کے دوران بھی سیاسی گہما گہمی عروج پر رہی‘ایک طرف پی ڈی ایم مذاکرات کی حمایت کر رہی تھی اور دوسری جانب پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اس بات پر بضد تھے کہ عمران خان سے مذاکرات نہیں کریں گے۔ نون لیگ نے بھی لچک دکھائی‘عمران خان نے بھی اپنی انا کو پس پشت ڈالتے ہوئے اپنا رویہ تبدیل کیا اور ٹیبل ٹاک پر متفق ہوئے۔مریم نواز اور مولانا فضل الرحمن کا مذاکرات سے انکار کرنا سمجھ سے باہر ہے‘وہ اپنا سیاسی قد کاٹھ دیکھتے ہوئے یہ ضرور سوچیں کہ پاکستانی سیاست میں ان کا کردار کیسا رہا‘کیا منفی سیاست اور جنگ وجدل سے اپنی حیثیت منوائی جا سکتی ہے۔سیاست دانوں کے پاس بہرحال مذاکرات کا آپشن موجود رہتا ہے اور اگر سیاست دان مذاکرات نہیں کرتے تو تیسری قوت اپنا راستہ بنا لیتی ہے جس سے جلدی چھٹکارا ممکن نہیں ہوتا۔اس ساری صورت حال میں سپریم کورٹ کا کردار انتہائی مثبت رہا‘الیکشن میں تاخیر کے حربے اور حیلے بہانے کرنے والوں کو توہینِ عدالت پر نااہل کیا جا سکتا تھا‘آپ خود سوچیں کہ اعلیٰ عدلیہ حکم دے کہ ساری کابینہ نااہل ہے اور الیکشن کروائے جائیں تو کیا ہوگا۔عدالت نے انتہائی مثبت رویہ رکھتے ہوئے سیاست دانوں سے بار بار گزارش کی بلکہ منتیں کیں کہ آپ مل بیٹھیں اور کسی ایک تاریخ پر متفق ہو جائیں تاکہ ملکِ پاکستان کو سیاسی اور آئینی بحران سے بچایا جا سکے۔ فوج اور دیگر سیکیورٹی ادارے بھی اس بات پر رضا مند دکھائی دے رہے ہیں کہ ملکی بحران سے بچائو کا واحد راستہ عام انتخابات ہیں اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب سیاست دان گالم گلوچ اور الزام تراشی کی بجائے ٹیبل ٹاک پر متفق ہوں۔پاکستان معاشی طور پر جس دوراہے پر کھڑا ہے‘اب مذاکرات ہی اسے منزل کا راستہ دکھا سکتے ہیں۔گزشتہ روز ہونے والی ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس بھی اس بات کی غماز ہے کہ ملک کو موجودہ سیاسی و آئینی بحرانوں سے نکالنے کے لیے مل بیٹھنا ہوگا‘اتفاق میں برکت ہے اور یہ برکت اسی صورت قائم رہ سکتی ہے جب ہم شفاف رویہ اپنائیں۔جماعت اسلامی کا رویہ بھی انتہائی مثبت رہا اور مولانا سراج الحق کی کوششیں رنگ لا رہی ہیں۔انھوں نے تمام جماعتوں کے سربراہان سے ملاقات کر کے اس بات پر رضا مند کرنے کی کوشش کی کہ ہمیں اپنا تکبر‘غصہ اور انا صرف اور صرف پاکستان کی خاطر چھوڑ دینا چاہیے‘ہمیں نظریہ ضرورت کے تحت نہیں بلکہ ملکی مفاد کیی خاطر سوچنا ہوگا‘سیاسی فضا اسی صورت میں بارونق رہ سکتی ہے جب ہم سب اپنے رویے میں تبدیلی لائیں اور لچک کا مظاہرہ کریں۔ عید کی چھٹیوں میں بھی جہاں ہم اپنے پیاروں کے ساتھ عید انجوائے کر رہے تھے‘وہاں اس بات کی فکر بھی لاحق تھی کہ وطن عزیز کا کیا بنے گا۔خبریں اور میڈیا ٹاک مسلسل پریشان کر رہی تھیں‘وی لاگز بھی بنائے اور سیاسی صورت حال پر تبصرے بھی سنے اور دعائیں بھی کرتے رہے۔اسی دوران ہمارے ایک سینئر صحافی دوست نے ایک نیا پنڈورا باکس کھول دیا‘ان کے بقول سابق آرمی چیف جنرل باجوہ پچیس کے قریب صحافیوں سے دو ملاقاتیں کیں‘ایک ملاقات جی ایچ کیو اور دوسری آئی ایس آئی کے دفتر میں ہوئی تھی‘ان ملاقاتوں کو خفیہ رکھا گیا اور میڈیا پرسنز سے کہا گیا تھا کہ آپ اس ملاقات کی بنیاد پر تجزیہ دے سکتے ہیں مگر اس خفیہ ملاقات کو من و عن ڈسکس نہیں کیا جا سکتا۔ اس صحافی کے بقول جنرل باجوہ چاہتے تھے کہ ہمیں بھارت سے مذاکرات کرنے چاہیئں اور وقتی طور پر کشمیر کے معاملے کو ایک طرف کر دینا چاہیے‘مذاکرات سے ہی دونوں ملکوں کے سفارتی تعلقات بہتر ہو سکتے ہیں۔ یہاں کچھ صحافیوں نے سوال بھی اٹھایا کہ ہم ستر سال سے کشمیر کا چورن بیچ رہے ہیں‘اب ایک دم سب کیسے چھوڑ دیں اور پانچ اگست 2019ء کے بھارتی فیصلے کو کیسے تسلیم کر لیں۔ مودی کے اس متعصب فیصلے کے بعد عمران خان نے یہی اعلان کیا تھا کہ ہم اس وقت تک مذاکرات میں نہیں جائیں گے جب تک مودی اپنا پانچ اگست کا فیصلہ واپس نہیں لے گا‘اب جب وزیر اعظم اتنا بڑا علان کر چکے ہیں تو ایسے میں کشمیر کے معاملے پر خاموش ہونا مثبت تاثر نہیں دے گا۔اکتوبر2019ء میں ہونے والی اس ملاقات میں اور بھی کئی اہم معاملات زیربحث لائے گئے تھے مگر بنیادی موضوع مودی کا دورہ پاکستان اور مسئلہ کشمیر و مذاکرات تھا۔سینئر صحافی کے بقول مودی کا دورہ پاکستان فائنل تھا جب کہ اندرونی ذرائع بتاتے ہیں کہ یہ دورہ فائنل نہیں تھا بلکہ پائپ لائن میں تھا۔دونوں طرف کی ایجنسیوں نے بیک ڈور رابطے شروع کر دیے تھے مگر مذاکرات کے بغیر یہ دورہ نہیں ہونا تھا۔ان ملاقاتوں میں اٹھائے جانے والے سوالات کتنے اہم تھے اور ان سوالات پر کن صحافیوں نے اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا‘یہ ایک الگ بحث ہے مگر اس ملاقات کو جنرل باجوہ کی ریٹائرمنٹ کے بعد سامنے لانا سمجھ سے باہر ہے۔ہمارے محب وطن صحافیوں کو اسی وقت ان مسائل پر بات کرنی چاہیے تھی تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجاتا۔ اگرچہ آہستہ آہستہ ان دونوں ملاقاتوں کی تفصیل پبلک ہو رہی ہے اور جو صحافی ان ملاقاتوں میں موجود تھے‘وہ بہت کچھ بتا رہے ہیں مگر میں ذاتی طور پر بھی مذاکرات کے حق میں ہوں‘مذاکرات اسی صورت کامیاب ہو سکتے ہیں جو بھارتی رویے میں بھی تبدیلی آئی‘تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے‘یکطرفہ تعلقات دیرپا نہیں ہوتے لہٰذا دونوں طرف کے سیاسی اور عسکری حکام کو امن کی خاطر مثبت فیصلے کرنے ہوں گے‘یہی دونوں خطوں کے لیے بہتر ہوگا ورنہ انا اور تکبر ان پرامن خطوں کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑے کرے گا اور ہم تبصرے کرتے رہ جائیں گے۔