جب سے اسرائیل نام کی ناجائز ریاست قائم کی گئی ہے پورا مشرق وسطیٰ بد امنی اور خانہ جنگی کا شکار ہے۔ چند ممالک کو چھوڑ کر کہیں بھی سکون ، سلامتی اور ترقی نہیں ہے۔ امریکا کا دہرا کردار ایک مرتبہ پھر سب کے سامنے ہے کہ اس نے کھل کر اسرائیل کے حملوں کی حمایت کی۔ اسرائیل نے بے گناہ بچوں اور خواتین پر حملے کر کے انہیں شہید کر دیا ، سکولوں پر بمباری کی گئی، اسپتال، پانی کی ٹنکی، رہائشی مکانات اور میڈیا کے دفاتر پر حملے کئے گئے ، یعنی واضح طور پر انسانی حقوق کے خلاف جرائم کا ارتکاب کیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود خود کو انسانی حقوق کے علمبردار کہلانے والے امریکا اور یورپین ممالک نے اسرائیل کی حمایت کی۔ آخر یہ کیسی انسانیت ہے؟انسانی حقوق کا یہ کون سا پیمانہ ہے؟ کیا معصوم بچوں کا قتل امریکا اور یورپ کی نظر میں جرم اور دہشت گردی نہیں ہے؟ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بھاری اکثریت سے غزہ میں فوری طور پر انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کی قرارداد منظور کرتے ہوئے محصور غزہ تک امدادکی رسائی اور اس کے شہریوں کے تحفظ کا مطالبہ کیا ہے۔ عرب ریاستوں کی طرف سے تیار کردہ قرارداد کا مسودہ اگرچہ قانون کے نفاذ کا پابند نہیں ہے تاہم یہ سیاسی وزن ضرور رکھتا ہے، قرارداد کے حق میں 120 ووٹ ڈالے گئے ، 14 بشمول اسرائیل اور امریکہ نے قرارداد کیخلاف ووٹ دیاجبکہ 45 غیر حاضر رہے ۔قرارداد کی منظوری کے لیے دو تہائی اکثریت درکار تھی جس میں غیر حاضری شمار نہیں ہوتی۔ اقوام متحدہ نے 2015ء میں رپورٹ جاری کی تھی کہ اگر معیشت کا یہی حال رہا تو اگلے پانچ سال میں غزہ رہنے کے قابل نہیں رہے گامگر ان تمام گزرے برسوں میں بے روز گاری، غربت اور دیگر سماجی مسائل سے لڑتے غزہ کے شہری اسرائیلی جارحیت کا مسلسل بہادری سے مقابلہ کرتے آئے ہیں اور اب اسرائیلی افواج کے سفاک اور وحشیانہ حملے برداشت کر رہے ہیں۔ پہلے غزہ اور مصر کے درمیان رفح کراسنگ پر فضائی حملہ اور نارتھ میں جبالیہ ریفیوجی کیمپ پر حالیہ بمباری تمام بین الاقوامی جنگی قوانین کی کھلی خلاف ورزیاںہیں، اسرائیلی جنگی جرائم اپنے عروج پر ہیں ۔ جنیوا کنونشن کے مطابق کسی بھی آبادی کو اجتماعی سزا نہیں دی جاسکتی اور کسی بھی جنگ کے دوران خواتین،بچوں اور عمارات کو نقصان نہیں پہنچایا جا سکتا،مگر اسرائیل اپنی طاقت کے زعم میں اپنے توسیعی منصوبے کو تیزی سے آگے بڑھا نے اور فلسطینیوں کی نسل کشی میں مصروف ہے ، اسرائیلی آرمی کے ترجمان کا حالیہ بیان کہ ’’ہم غزہ پر سینکڑوں ٹن بم گرا رہے ہیں، توجہ تباہی پر ہے، درستگی پر نہیں‘‘ اسرائیل کے عزائم پوری طرح واضح کرنے کے لیے کافی ہے اور بظاہر دنیا میں امن کے ٹھیکے دار اس عمل میں سہولت کاری کا کام سر انجام دے رہے ہیں۔ فلسطین دنیا کے قدیم ترین ملکوں میں سے ایک ہے، مختلف قوموں نے مختلف اوقات میں یہاں حکمرانی کی ہے۔ انبیاء کرام کا مسکن اور مرکز بھی یہ سر زمین رہی ہے۔ یہودی، عیسائی اور مسلمان تینوں کا مذہبی لگاؤ بھی اس خطے سے ہے۔ عیسائیوں کی حکومت رہی اور مسلمانوں نے بھی طویل عرصے تک یہاں حکومت کی، مسلمانوں نے اپنے دور اقتدار کے دوران دوسرے مذاہب کے شہریوں کو بھی رہنے اور جینے کا مکمل حق دیا کسی کو جلا وطنی پر مجبور نہیں کیا، کسی کو بے وطن نہیں کیا لیکن بیسویں صدی میں یہاں کے حقیقی شہریوں اور باشندوں سے ان کا وطن چھین کر باہر سے آئے لوگوں کو بسا دیا گیا۔برطانیہ اور دیگر عالمی طاقتوں نے فلسطینیوں اور عربوں کے گھروں میں جرمنی، آسٹریلیا، فرانس، اندلس اور دیگر خطوں سے آئے لوگوں کو آباد کردیا اور 14مئی 1948 ء کو اسرائیل نام کی ریاست قائم کر کے یہاں برسوں سے آباد عربوں کو بے گھر کردیا، اقوام متحدہ نے بھی اسے تسلیم کر لیا اور عالمی طاقتوں کے سہارے اسرائیل اپنا رقبہ وسیع کرتا رہا ہے۔1948 میں اسرائیل کا رقبہ پچاس فیصد سے بھی کم تھا اور اب فلسطین کی 87 فیصد اراضی پر اسرائیل کا قبضہ ہوچکا ہے ۔ آئے دن یہودی آباد کاری کا سلسلہ جاری ہے، ویسٹ بینک، مقبوضہ بیت المقدس اور غزہ کو بھی اسرائیل اپنا حصہ بنانا چاہتا ہے اور مکمل طور پر فلسطین کا خاتمہ اس کی پلاننگ کا حصہ ہے۔ اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کے حقوق اور عوام پر غاصبانہ قبضے اور ظلم و بربریت کو روکے بغیر امن ممکن نہیں ، خلیج کے خطے میں غزہ ، اسرائیل جنگ سے حالات خراب سے خراب تر ہوتے جا رہے ہیں ، ہر نئی ساعت جنگ کے مزید طول کی راہ ہموار کر رہی ہے۔ اسرائیلی فورسز نے غزہ پر زمینی اور فضائی حملے کیے جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر شہادتوں اور تباہی کا خدشہ ظاہر ہے جبکہ مواصلاتی نظام مکمل تباہ ہونے سے غزہ کا دنیا بھر سے رابطہ مکمل کٹ چکا ہے۔ عرب میڈیا کے مطابق غزہ میں 100 سے زائد فضائی طیارے بمباری کررہے ہیں جبکہ ٹینک اور توپوں کے ذریعے بھی بمباری کی جارہی ہے، جس کی وجہ سے ہر طرف تباہی اور آگ لگی نظر آرہی ہے۔غزہ پراسرائیلی ظلم اور بربریت سے مزید 300 فلسطینی شہید ہوگئے ہیں، اقوام متحدہ کی ریلیف ایجنسی کے 53 اہلکاروں سمیت شہدا کی مجموعی تعداد ساڑھے 7 ہزار کے قریب پہنچ گئی ہے، اقوام متحدہ کی ریلیف ایجنسی کے 15 اہلکار صرف ایک ہی روز میں مارے جا چکے ہیں جب کہ اب تک مجموعی طور پر 21 ہزار سے زائد فلسطینی اسرائیلی حملوں میں زخمی ہوچکے ہیں۔ فلسطینی وزیراعظم محمد اشتیے نے خبردار کیا ہے کہ اگر اسرائیل سمجھتا ہے کہ وہ مزاحمتی تحریک حماس کو ختم کر دے گا تو ایسا نہیں ہوگا، عرب ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حماس فلسطینی سیاست کا اہم حصہ ہے، اس کے حکومت کے ساتھ ڈائیلاگ جاری ہیں۔اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کی جانب سے عالمی فریقوں سے غزہ میں اسرائیلی جارحیت بند کرانے کا مطالبہ کیا گیا ہے، او آئی سی کے سیکرٹری جنرل حسین ابراہیم طہٰ نے عالمی اداروں اور شخصیات کو اسرائیلی جارحیت پر خطوط لکھے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ کوئی تنہا امن لاسکتا ہے نہ جنگ لڑسکتا ، فلسطینیوں کو ظلم سے بچانے کے لیے مسلم ممالک کو متحد ہونا ہوگا۔