عمران خاں پہ اللہ رحم کرے۔ پے درپے اپنے لیے وہ مشکلات پیدا کرتے جا رہے ہیں۔ اپنے لیے اور ملک کے لیے بھی۔ سب سے بڑھ کر ناقص مشیروں کے طفیل۔ لاہور سے راولپنڈی کے لیے آدھا سفر طے ہو چکا تو سامنے سڑک کھدی دیکھی تاکہ مظاہرین کو اسلام آباد جانے سے روکا جا سکے۔ لاہور واپسی کا ارادہ کیا۔ پھر خیال آیا کہ شاید دیہاتی راستوں سے گزرنا ممکن ہو۔ موٹر وے پولیس سے رابطہ کیا تو حیران کن خوش خلقی سے وہ پیش آئے۔ نہ صرف رہنمائی کی بلکہ گشت کرنے والی گاڑیوں نے لالہ موسیٰ تک ساتھ نبھایا۔ سڑک کو کھودنے کی ضرورت کیا تھی۔ یہاں بھی کنٹینر کھڑے کیے جا سکتے۔ تحقیق سے معلوم ہوا کہ موٹروے پولیس کے مقامی افسر روکتے رہے مگر وزیرِ آباد کے ڈپٹی کمشنر اور ڈی پی او نے فیصلہ کر ڈالا۔ظاہر ہے کہ اعلیٰ حکام سے ہدایات لی ہوں گی یا ممکن ہے، اوپر والوں نے حکم صادر کیا ہو۔ کر ہی ڈالا تھا تو تین دن کی ’’جنگ بندی‘‘پر گڑھے کو پاٹ دینا چاہئیے تھا۔ ضرورت پڑنے پر دوبارہ کھودا جا سکتا۔ ہیجان ہے، ہمارے قومی مزاج میں ہیجان بہت۔ ایک انتہا یا دوسری انتہا۔ مہم جوئی یا پھر خوف زدگی۔ جب بھی ہیجان سے ہم اوپر اٹھتے ہیں، کامیابی قدم چومتی ہے۔پاکستان کا ایٹمی پروگرام اس کی تاریخی مثال ہے اور پرسوں کا کرکٹ میچ بھی۔ ریاست کی رٹ برائے نام رہ گئی۔ غور و فکر اور منصوبہ بندی کی بجائے زورِ بیان کے مظاہرے۔ ہر روز نئے شگوفے، ہر روز نئے اعلانات۔ حکومت اور اپوزیشن کی ساری توانائی ایک دوسرے کی کردار کشی میں کھپ جاتی ہے۔ کام کرنے کے لیے کچھ باقی نہیں بچتا، وقت نہ توانائی۔ پاکستان کے ایک مرحوم لیڈر کے بارے میں گلبدین حکمت یار نے کہا تھا: جو بات بیوی کو بتانے کی نہیں ہوتی، وہ جلسہ عام میں کہہ دیتے ہیں۔ اپنی ساری قوت گفتار میں برباد کردیتے ہیں۔ کام کس وقت کریں؟ چند ماہ پہلے شیخ رشید کچھ اور کہہ رہے تھے۔ پچھلے ہفتے تاثر دیا کہ معاملات طے پا گئے۔ مظاہرین کے رہنماؤں نے فوراً ہی تردید کر دی کہ فقط بات چیت کا آغاز ہے، فیصلہ نہیں۔ اس کے بعد سے آنجناب یہ ارشاد فرما رہے ہیں کہ کالعدم تنظیم درحقیقت کالعدم نہیں۔ الیکشن لڑنے کی اسے اجازت ہے۔ مطالبات ان کے مان لیے جائیں گے اور قیدی رہا کر دیے جائیں گے۔چند ماہ پہلے یہ فرمایا تھا کہ پابندی لگا دی اور برقرار رہے گی۔ کابینہ کی اجازت سے سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کیا جائے گا تاکہ یہ پابندی مستقل ہو جائے۔ اب انہیں یاد آیا ہے کہ کالعدم تنظیم تیسری بڑی سیاسی قوت ہے۔ اسے ٹالا نہیں جا سکتا۔ ہمہ وقت سرکاری ترجمان غیر ذمہ داری پہ کیوں تلے رہتے ہیں۔ خواجہ میر دردؔ نے کہا تھا دردؔ تو جو کرے ہے جی کا زیاں فائدہ اس زیان میں کچھ ہے؟ اس چیخ و پکار سے کیا حاصل۔ بات آخر کو کھل جاتی ہے اور ردّعمل پیدا کرتی ہے۔ پیر صبغت اللہ شاہ راشدی اور مفتی منیب الرحمٰن سمیت سندھ کے ممتاز علماء اور مشائخ نے مطالبہ کیا ہے کہ پچھلے تحریری معاہدوں سے پھر جانے والے وزرا نور الحق قادری اور شیخ رشید کو برطرف کیا جائے۔ ظاہر ہے کہ وزرا نے قوم کو تاریکی میں رکھنے کی کوشش کی۔ طفل تسلیاں دینے والے دوسروں کو نہیں، خود کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ وزیرِ اعظم پی ٹی آئی کے لیڈرانِ کرام کو غیر ضروری گفتگو سے گریز کی ہدایت کیوں نہیں دیتے۔ ایک دن کی خاموشی بھی شیخ رشید کو گوارا نہیں۔ پھنس جاتے ہیں تو تاویل کرنے لگتے ہیں۔ پرسوں پرلے روزکی پریس کانفرنس میں چار پانچ مرتبہ اخبار نویسوں سے انہوں نے کہا کہ ان سے صرف وزارتِ داخلہ کے باب میں سوالات کیے جائیں۔ ایک آدھ نہیں، پوری پارٹی کا عالم یہی ہے۔ اپنے غیر ذمہ دارانہ بیانات کی وجہ سے دو بار فیاض الحسن چوہان وزارتِ اطلاعات سے محروم ہوئے اور دو ہی بار ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان۔ ایک آدھ نہیں، حکمراں جماعت کے بہت سے لیڈروں کا یہی اندازِ کار ہے۔ مردان میں پی ٹی آئی کے ایم پی اے طفیل انجم نے ارشاد کیا ہے کہ مہنگائی اللہ کی طرف سے ہے۔ قیمتوں کا تعین فرشتے کرتے ہیں۔ ہر چیز کے نرخ مقرر کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ ہر روز ایک فرشتہ مقرر کرتا ہے۔کیا کہنے، کیا کہنے! ایک کے بعد دوسرا بحران اور ہر بحران میں سرکار ٹامک ٹوئیاں مارتی ہے۔اپوزیشن کا حال بھی مختلف نہیں۔بلوچستان کے وزیرِ اعلیٰ جام کمال مستعفی ہو چکے تو حضرت مولانا عبد الغفور حیدری نے فرمایا:اقتدار حاصل کرنا اور حکومت گرانا اپوزیشن کا کام ہے۔سبحان اللہ، سبحان اللہ۔ گویا اقتدار ہی مقصود اور منتہا و منزل ہے۔ سرکاری جماعت میں شکست و ریخت پیہم جاری رہتی ہے۔ گروہ بندی اور باہمی جھگڑے۔ ایک ذمہ دار ذریعے نے بتایا کہ پنجاب پی ٹی آئی میں دھڑے بندی سے وزیرِ اعظم پریشان ہیں۔اٹک، فیصل آباد، راولپنڈی، جہلم، سرگودھا، وہاڑی، لیہ، خانیوال اور بہاولپور سے تعلق رکھنے والے چالیس پچاس ارکان وزیرِ اعلیٰ سے ناخوش ہیں۔ حیرت انگیز طور پروزیرِ تعلیم مراد راس بھی ان میں شامل ہیں۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ ترقیاتی فنڈز سے وہ محروم ہیں۔ ذاتی پسند نا پسند سے وزیرِ اعلیٰ اوپر نہیں اٹھتے۔ یہ تو معلوم ہے کہ اقتصادی حالات اچھے نہیں۔ پنجاب کے ترقیاتی بجٹ کا بڑا حصہ میانوالی اور تونسہ کے لیے مخصوص ہے۔ با ایں ہمہ جو وسائل موجود ہیں، وہ سلیقہ مندی سے کیوں تقسیم نہیں کیے جاتے۔ حلیف بھی اس پہ نالاں ہیں۔سپیکر چوہدری پرویز الٰہی وزیرِ آباد میں امراضِ قلب کے ہسپتال کے لیے مختص رقوم فراہم کرنے کی یاددہانی کراتے رہے۔ عثمان بزدار سنی ان سنی کرتے رہے۔ سالِ گزشتہ کے بجٹ اجلاس سے قبل سپیکر نے وزیرِ اعلیٰ کو پیغام بھیجا کہ رقوم فراہم نہ کی گئیں تو بجٹ منظور نہیں ہو گا۔ 1122پر بھی اب کی بار یہی ہوا، پرویز الٰہی جسے اولاد کی طرح عزیز رکھتے ہیں۔ سپیکر نے مطالبہ کیا کہ قائم کردہ نئے مراکز کے لیے فنڈز جاری کر دیے جائیں ورنہ بجٹ کی منظوری میں ان سے اعانت کی امید نہ رکھی جائے۔ جہانگیر ترین گروپ سے پی ٹی آئی کے ناراض گروہ کا رابطہ ہے، اگرچہ بالواسطہ۔ دس بارہ دن پہلے عمران خاں لاہور گئے تو عثمان بزدار سے کہا: اگر کوئی گڑ بڑ ہو ئی تو اس کے ذمہ دار آپ ہوں گے۔ کتنے چیف سیکرٹری اور کتنے آئی جی اس آدمی پہ قربان کیے جا چکے، کاروبار ِ حکومت کی ابجد سے بھی جو آشنا نہیں۔آشنا ہو ہی نہیں سکتا۔ وہ اس کی صلاحیت ہی نہیں رکھتا۔ہر شخص کو قدرت کوئی خاص صلاحیت عطا کرتی ہے۔ عثمان بزدار سیاست اور حکومت کے لیے پیدا نہیں کیے گئے۔بگاڑ سکتے ہیں، وہ سنوار نہیں سکتے۔ کامیابی یا ناکامی،آدمی خود اس کا ذمہ دارہوتا ہے؛اگرچہ اکثر دوسروں کو قصوروار کہتا ہے۔ عمران خاں پہ اللہ رحم کرے۔ پے درپے اپنے لیے وہ مشکلات پیدا کرتے جا رہے ہیں۔ اپنے لیے اور ملک کے لیے بھی۔ سب سے بڑھ کر ناقص مشیروں کے طفیل۔