مذہبی عقیدتوں اور ارادتوں کے حاملین، اپنے پیشوایانِ مذہب و ملّت کے حوالے سے بہت حساس ہوتے ہیں، گزشتہ دنوں، ایک کالم نگار نے مسالک و مکاتب کے بارے میں لکھا، تومحاکمے اور محاسبے کی توفیق ارزاں ہوئی،جس میں ڈیڑھ صدی قبل ان مسالک کے آغاز و ابتدء کی تاریخ کا تذکرہ کرتے ہوئے،دیوبند کی تحریک اور بریلی کی تشکیل کے حوالے سے محض اشارے دیئے گئے، قارئین نے اس میں کافی دلچسپی ظاہر کی تاہم یہ نازک موضوعات ہیں۔ ان صفحات میں، ان پر بہت زیادہ لکھنا، خطرے سے خالی نہیں ہوتا، ترازو کا توازن اگر معمولی سا بگڑگیا تو لینے کے دینے والی بات لازم---کالم نگار نے حوالہ دیا تھاکہ ’’نیشنل سیکیورٹی پالیسی کے سیکشن فور میں باقاعدہ درج ہے کہ کوئی فرقہ وارانہ تقسیم حکومتی سطح پر قابلِ قبول نہیں ہوسکتی ‘‘۔ اس وقت، نیشنل سیکیورٹی پالیسی آف پاکستان 2022 -2026کی62 صفحات پر مشتمل مکمل دستاویز میرے سامنے ہے. اس میں اور بالخصوص اس کے سیکشن فور میں ایسی کوئی بات سِرے سے درج ہی نہیں۔البتہ اس کے سیکشن 6 میں"Extremism & Sectarianism"کی بابت وہ ساری باتیں تحریر ہیں جو محکمہ اوقاف و مذہبی امورپنجاب کا چارٹر اور بنیادی منشورہے، جس کے لیے محکمہ نے متحدہ علماء بورڈ جیسے گراں قدر ادارے تشکیل دے رکھے ہیں۔ مسالک اور مکاتبِ فکر تو دنیا کے تمام ادیان اور مذاہب میں موجود ہیں، ان کے وجود سے انکار ممکن نہیں۔ عیسائیت اور یہودیت میں بھی فرقے موجود ہیں۔ اسی طرح دینِ اسلام میں بھی ہیں۔ وفاقی سطح پر اسلامی نظریاتی کونسل، مرکزی رویت ہلال کمیٹی پاکستان، نیشنل علماء و مشائخ کونسل، اسی طرح صوبائی سطح پر رویت ہلال کمیٹی پنجاب، متحدہ علماء بورڈ پنجاب، پنجاب قرآن بورڈ، اتحاد بین المسلمین کمیٹی پنجاب سمیت جملہ اداروں میں ایک بہترین توازن کے ساتھ تمام مسلمہ مکاتبِ فکر، جن میں بریلوی، دیوبندی، شیعہ اور اہل حدیث شامل ہیں، کو سرکاری اور حکومتی سطح پر نمائندگی دی جاتی ہے۔یہاں مسالک اور فرقوں کی وکالت مقصود نہیں، لیکن یہ امر واقع ہے اور ان کی حیثیت اور حقیقت سے انکار ممکن نہیں۔ ریاست کا کام فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور ان مسالک کے درمیان بہترین توازن اور ورکنگ ریلیشن شپ کا قیام ہے۔جو بحمدللہ، اس وقت صوبائی اور قومی سطح پر بدرجہ اْولیٰ موجود ہے جو کہ فیٹف ایکشن پلان کے کامیاب عملدرآمد کا ذریعہ بنا۔اس سلسلے میں مولانا اشرف علی تھانوی کا قولِ زرّیں خطے کے لوگوں کے لیے ہمیشہ راہنمائی اور وشنی کا باعث رہا کہ " اپنے مسلک کو چھوڑو نہ اور دوسروں کے مسلک کو چھیڑونہ"۔صائب فکر کی حامل دینی قیادتیں اسی راہنما اصول پر ہمیشہ گامزن رہیں۔ مسالک اور مکاتبِ فکر کی روایت صدیوں پہ محیط ہے۔ جہاں تک انتہاپسندی اور فرقہ واریت کا تعلق ہے تو اسکی بیخ کنی انہی صائب فکر دینی قوتوں کے رہین ِ منت ہے، جس کی عمدہ اور تازہ مثال حالیہ " پیغامِ پاکستان" کی وہ عظیم دستاویز ہے، جس پر تمام مسالک کی پانچ سو سے زائد دینی شخصیات، عمائدین و علماء کا اتفاق ہے، جس پر انہوں نے دستخط کر کے خطّے سے فرقہ واریت اور تکفیریت کی جڑ کاٹ دی ہے۔ یقینا برصغیر کی غالب اکثریت حنفی المذہب اور صوفیانہ مشرب کی حامل ہے جبکہ اس کے ساتھ خطے میں اہلحدیث اور اہل تشیع بھی محدود سطح پر موجود ہیں۔ فقہ حنفی کے ماننے والوں میں تقریباڈیڑھ صدی قبل اہلِ سنت بریلوی جن کے سرخیل مولانا احمد رضا خاں بریلوی، جن کے وصال(1921ئ) کو، اب ایک صدی سے زائد ہونے کو ہے،سے بھی پہلے اس طبقے کی فکری آبیاری مولانا فضل حق خیر آبادی اور ان کے والد مولانا فضل امام خیر آبادی، جن کے پاس دہلی میں صدر الصدور جیسے منصب بھی رہے، نے فرمائی۔جبکہ دارالعلوم دیوبند کے بانی مولانا محمد قاسم نانوتوی،جنہوں نے 1867ء میں دارالعلوم دیوبند کی بنیاد رکھی۔ یہ دونوں مسالک تحریکِ پاکستان اور قیامِ پاکستان کے وقت بھی موجود تھے، 1953ء کی تحریک ختم نبوت ہو یا 1974ء کی، تحریک نظام مصطفی ہو، یا کوئی اور قومی و دینی مسئلہ، ان مسلمہ مسالک کے وجود اور ان کی خدمات معروف اور معتبر ہیں۔ اگر کوئی ان مکاتب فکر کو محض اوقاف یا کسی خاص حکومت کی تخلیق یا تشکیل سمجھ رہا ہے تو یہ اس کی کم علمی، جہالت اور نادانی ہے۔ خطے کے اندر ان چار مکاتب اور مسالک کو ہر عہد او رہر دور، بالخصوص گزشتہ ایک صدی، میں مسلمانوں کے مسلمہ عقائد کے امین اور علمبردارکے طور پر معتبر جانا گیا۔ کالم کی محدود سطریں بہت زیادہ تفصیل کی حامل نہیں ہوسکتیں۔ انہیں مکاتب کو 1979ء میں وفاقی حکومت کے قائم کردہ ہالے پوتہ کمیشن برائے دینی تعلیم میں تسلیم کیا گیا جس کے مطابق پاکستان میں دینی مدارس سسٹم کو ان کے مکاتب فکر کے حوالے سے ڈگری ایوارڈنگ حیثیت دی گئی۔ اہل ِ سنت بریلوی کے لیے تنظیم المدارس اہل سنت جبکہ وفاق المدارس العربیہ (دیوبندی) وفاق المدارس السلفیہ (اہلحدیث) اور وفاق المدارس الشیعہ(اہلِ تشیع) کے مدرسہ نیٹ ورک اور امتحانی بورڈز کے مسلمہ اداروں کے طور پر تسلیم ہوئے۔ ان وفاقوں کی طرف سے جاری کردہ ڈگریاں " شہادۃ العالمیہ فی العلوم العربیہ و الا سلامیہ " ہائر ایجوکیشن کمیشن کے نوٹیفکیشن کے مطابق ایم اے عربی اور ایم اے اسلامیات کے برابر تسلیم ہوئیں۔ یہ فضلا اپنے اپنے مکاتب اور مسالک کی بنیادی فکر کی روشنی میں دین متین کی تبلیغ کے امین اور علمبردار اور اپنے دینی اداروں اور مساجد و مدارس میں فرائض کی بجاآوری کے استحقاق کے حامل ہوئے۔ یہ فرقہ واریت نہیں ہے بلکہ مسالک اور مکاتب فکر کو ان کے وضع کردہ دائرہ فکر و عمل میں رکھتے ہوئے اپنے اپنے عقائد کے مطابق اپنے دینی ا عتقادات و مسلمات کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے ان کے فطری حق کا اعتراف و اظہار ہے۔ اسی طرح ساٹھ سال پہلے وقف پراپرٹی آرڈیننس کے مطابق 1960 میں جب محکمہ اوقاف معرض وجود میں آیاتو مزارات کے علاوہ437مساجد بھی اِس کی تحویل میں آئیں۔ کسی بھی مسجد کو سرکاری تحویل میں لینے کا ایک باقاعدہ طریقہ کار وضع ہوا، ایک باقاعدہ سروے عمل میں آتا، جس کے لیے ایک " سروے فارم" بھی حکومت کا منظور شدہ ہے۔ جس میں " مسلک"کا کالم، گزشتہ ساٹھ سال سے موجود ہے۔ اس کے مطابق جب بھی کوئی مسجد سرکاری تحویل میں لی جاتی ہے تو اسی وقت قرائن و شواہد کی روشنی میں اس کا مسلک بھی ضبط تحریر کرلیا جاتا اور پھر اسی کے مطابق اس کا عملہ تعینات ہوتاہے۔ ایسا کرنا "Sectarianism"نہیں ہے بلکہ اس سے محفوظ رہنے کا ذریعہ ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتو پھر کیا آپ جانتے ہیں کہ کسی شیعہ مسجد میں، کسی سْنی عملہ کی تعیناتی کے کیا نتائج برآمد ہونگے…؟اور کسی اہلحدیث امام کے کسی حنفی مسجد میں تقرر سے کیا ہنگامہ برپاہو۔ بہر حال مولانا محمد خاں لغاری صاحب نے باور کرایاتھاکہ آپ نے دارالعلوم دیوبند کا سال تاسیس اور اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خاںؒ فاضلِ بریلی کا سنِ وصال تحریر فرمایا ہے لیکن اس دبستانِ علمی کے مدارالمہام مولانا فضل حق خیر آبادی اور اْن کے والد مولانا فضل امام خیرآبادی کا سالِ وصال، شاید بسببِ تعجیل، تحریر ہونے سے رہ گیا جو کہ ہماری تاریخی روایت اور قدامت کے ابلاغ واظہار کے لیے ضروری ہے۔ مجھے لغاری صاحب کی بات سے مہمیز میسر آئی، اور یوں اعلیٰ حضرت فاضلِ بریلی کے وصال 1921ء سے تقریباً سوا سو سال قبل، اتر پردیش کے ضلع سیتا پورکے قدیم قصبہ"خیر آباد" کے معروف اور مردم خیز قریے سے روشنی حاصل کرنے کا موقع میسر آیا جو مقتدر اور نامور صوفیاء ، اولیاء اور علما ء کا مسکن تھا، جسکو "خیر البلاد" اور شیرازِ ہند بھی لکھااور کہا گیا۔ اسی قصبہ میں برصغیر کے امامِ منطق وفلسفہ شہرہ آفاق شاعر و ادیب اٹھارہ سو ستاون کی جنگِ آزادی کے ہیرو علامہ محمد فضلِ حق خیر آبادی حنفی،ماتریدی، چشتی، 1797ء میں پیدا ہوئے۔ آپؒ کا خاندان، اپنی علمی جلالت اور دینی پیشوائیت کے اعتبارسے یگانہ عصر فضل میں سے تھے۔ دہلی میں ان کی قائم کردہ درسگاہ معقولات کی ایسی یونیورسٹی تھی، جس کی مثال شاید ہی ہندوستان میں کہیں اور میسر ہو۔