ٹریفک پولیس سڑکوں پرٹریفک کو رواں دواں رکھنے کے لیے بنائی گئی تھی لیکن یہ ریونیو اکٹھا کرنے اور شہریوں کے گریبان پکڑنے اور انکو سلاخوں کے پیچھے دھکیلنے پر لگ چکی ہے۔ ٹارگٹ پورا کرنے کیلئے ہر بارویں فرد کا چالان کاٹ دیتے ہیں۔چالان کی حد تک بھی ٹھیک تھا لیکن حالیہ آئی جی کے احکامات پر ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر ایف آئی آرز کرنے کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ سینکڑوں کی تعداد میں ایف آئی آرز درج کی جاچکی ہیں۔ٹریفک پولیس نے ایف آئی آر کو مذاق سمجھ لیا ہے کہ معمولی خلاف ورزی پر شہریوں پر ایف آئی آر درج کی جارہی ہے۔پنجاب پولیس میں جب سے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان ایس ایچ او آئے ہیں بلاوجہ ایف آئی آر کے اندراج میں قابل تعریف حد تک کمی آئی ہے۔نوجوان ایس ایچ او تسلی سے بات سن کر بہت سے معاملات میں وہی صلح کروادیتے ہیں جسے بہت سراہا جارہا ہے کیونکہ انکو پتا ہے کہ ایف آئی آر کے اندراج سے شہریوں کو کس طرح خواری کاٹنا پڑتی ہے۔لیکن ٹریفک وارڈن نے یہ کام ہی پکڑ لیا کہ معمولی سی خلاف ورزی پر پرچے دیے جارہے ہیں۔دنیا میں کہیں بھی ایسا نہیں ہوتا کہ معمولی خلاف ورزی پر ایف آئی آر کی جاتی ہو ،جب بغیر لائسنس یا رانگ وے گاڑی چلانے پر جرمانہ کیا جاسکتا ہے تو پھر زبردستی ایف آئی آر دے کر گاڑی اور معزز شہری کو کیوں حوالات میں بند کیا جارہا ہے۔چاہے بعد میں بریت ہو جاتی ہے لیکن ہزاروںشہریوں اور طالب علموں کا کرمینل ریکارڈ بناکر ان کا کیریئر تباہ کر کے انہیں جرائم کے راستے پر دھکیلنا ملک دشمنی نہیں تو اور کیا ہے ؟اس طرح کی کارروائیوں سے شہریوں کے دل میں پولیس کے خلاف جو نفرت پیدا ہورہی ہے وہ زندگی بھرمحکمہ پولیس کا تعاقب کرتی رہے گی۔ ایک طرف ٹریفک پولیس عام شہریوں کے خلاف ظالمانہ کاروائیوں میں پیش پیش ہے تو دوسری طرف مبینہ طور پر غیر قانونی پارکنگ کی سرپرستی کررہی ہے،سنگل لائن پارکنگ میں ڈبل اور ٹرپل لائن پارکنگ چلائی جارہی ہے جبکہ فری پارکنگ ایریا سے ٹریفک پولیس اہلکار گاڑیاں لفٹ کررہے ہوتے ہیں۔ ٹریفک پولیس خاص طور پرلاہور کے وارڈن آئے روز کسی نہ کسی سے دست و گریبان نظر آتے ہیں جبکہ پبلک ٹرانسپورٹرز کو ڈرائیونگ لائسنس، فٹنس سرٹیفیکیٹ اور روٹ پرمٹ چیک کرنا تو درکنار زائد کرایہ وصولی کی بھی کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔وین،منی مزدا یا بس غرض کوئی بھی پبلک سواری ہو’’اوورلوڈنگ‘‘تو جزو لازم بن چکا ہے، ہائی ایس ٹویوٹا والے چودہ سیٹر وین میں بائیس افراد سوار کرنے کا ہنر بخوبی جانتے ہیں ۔فرنٹ سیٹ پر تین افراد کی’’اوور لوڈنگ‘‘کرنے سے ڈرائیور پوری مہارت سے گاڑی کو کنٹرول نہیں کر پاتا جو حادثات کا سبب بن رہا ہے ۔ ٹریفک پولیس کی کرپشن اور من مانیوں کی لمبی داستان پھر کبھی سہی لیکن سیکیورٹی کے لحاظ سے غفلت، لاپرواہی یا مبینہ سرپرستی کہہ لیں، مشاہدہ کرکے دیکھ لیں کہ پبلک ٹرانسپورٹ میں کسی ایک رکشہ کی بھی نمبر پلیٹ اوریجنل اور نمونہ کے مطابق نہیں ہے جبکہ بیشتر کی نمبر پلیٹ چسپاں ہی نہیں ہوتیں یا انتہائی مبہم۔اسی طرح ٹویوٹا ہائی ایس،وین،بس،ٹرک سمیت پبلک ٹرانسپورٹ والے غیرنمونہ نمبر پلیٹ یا بغیر نمبر پلیٹ ہی دندناتے پھر رہے ہوتے ہیں۔غیرنمونہ یا بغیر نمبر پلیٹ ہونے کی وجہ سے نا صرف یہ لوگ کھلم کھلا ’’ون وے‘‘ کی خلاف ورزی کرتے ہیں بلکہ اشارے پر رکنے کی بھی زحمت نہیں کرتے اور حادثات کا باعث بن رہے ہیں۔ متعدد شکایات اور حادثات کے باوجود اوور سپیڈ اور فاسٹ لین کا غیر قانونی استعمال پبلک ٹرانسپورٹرکی روٹین بن چکا ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ ڈرائیور ان تمام قانون شکنیوں کے ساتھ دندناتے پھر رہے ہوتے ہیں۔کمرشل گاڑیوں کے ڈرائیور گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھنے کے بعدایکسیلیٹر پر پائوں آتے ہی اس ’’زمینی سواری‘‘ کو ہوا میں اڑانے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں،ا یہی’’اوووسپیڈ‘‘ حادثات کا اہم پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے۔یہ سب تکلیف دہ مناظر ہر روزہماری آنکھوں کے سامنے آتے ہیں۔سرعام یہ ظلم و ستم ہورہا ہے لیکن ٹریفک پولیس یہ سب دیکھنے والی بینائی سے قاصر نظر آتی ہے ۔ سید بدرسعید نے اپنی ایک تحریر میں انکشاف کیا تھا کہ پولیس کے سینئر افسران کی ویڈ یو لنک میٹنگ میں آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے شکوہ کیا کہ کچھ افسران میرے ویژن کے مطابق سوشل میڈیا کا درست استعمال نہیں کر رہے ، جسے ان کی سوشل میڈیا پالیسی سے اختلاف ہے وہ اپنا عہدہ چھوڑ دے۔اس انکشاف نے سرپکڑنے پر مجبور کردیا کہ آئی جی پنجاب کی ترجیحات کیا ہیں۔ ان کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ پنجاب میں جرائم کی شرح میں تشویسناک حد تک اضافہ ہوچکا ہے۔ اگر کرائم کنٹرول ہوگا تو یقینا لوگ خود پولیس کی تعریف کریں گے لیکن اگر آپ جرائم کنٹرول کرنے کی بجائے سارا زور سوشل میڈیا پروجیکشن پر لگادیں گے تو پھر عوام کا اللہ ہی حافظ ہے۔ایک دو نہیں درجنوں افسران اور سینکڑوں پولیس افسران پیٹھ پیچھے مذاق اڑاتے ہیں اور ان کی پولیسنگ ڈاکٹرائین پر شرمسار ہیں۔ یہ کیا کہ آپ کی ساری توجہ اینکربننے پر لگ جائے اور فوٹو سیشن، ٹک ٹاک ،فیس بک اور ٹویٹرویڈیوزکے لیے استعمال کرنے لگ جائیں۔آج کل نیا کام شروع ہے کہ پولیس افسران اور اہلکار اپنی فیملی اور بچوں کو ساتھ لیکر تصاویر بنوا کر سوشل میڈیا پر اپلوڈ کریں۔سرعام گالیاں دینے والے کانسٹیبل شاہدجٹ کو ہیرو بناکرپیش کیا گیا جبکہ ٹک ٹاکرز کو پولیس سووینئر سے نوازا جارہا ہے۔پولیس کا کام ٹک ٹاک سٹار بننے کے بجائے کرائم کنٹرول کرنا ہے۔پولیس والے جو پہلے مجرموں کا پیچھا کرتے تھے اب سوشل میڈیا کے لیے ویڈیو بنانے میں ہلکان ہورہے ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا عوام ٹیکس اس لیے ادا کرتی ہے کہ اس ٹیکس کے پیسوں سے ذاتی پروجیکشن کی جائے؟