ایک سیاسی گروہ ، انصاف کے سیکٹر میں اُس کے طرفدار اور میڈیا میں اُس کے حواری کئی برسوں سے ہمیں یہی بتاتے چلے آئے ہیں کہ جنرل ریٹائرڈفیض حمید نے ہی فیض آباد دھرنے کے ذریعے اس وقت کی حکومت کو کمزور کئے جانے ، عدالتوں پر اثر انداز ہوکر پہلے اسے گرانے اور بعد ازاں باپ بیٹی کو سزا ئیںدلوانے میں کلیدی کردارکیا تھا۔آج ہم جس مقام پر کھڑے ہیں، یقینا دورِ حاضر کی معتوب جماعت کواس افسوس ناک صورتِ حال سے یکسر بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ لیکن ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ قومی اداروں کے ساتھ مخاصمت کی ایک نئی جہت اس وقت سامنے آئی جب حاضر سروس جرنیلوں کے نام عوامی جلسوں میں پکارے جانے کا آغاز ہوا۔’ووٹ کو عزت دو‘ کی جدوجہد کو ہم جیسے ضرورمیاں صاحب کاایک اصولی موقف قرار دیتے، اگر اپنے خلاف ہونے والی ’سازش ‘ کے مبینہ کلیدی کردار کو مدت ملازمت میں توسیع دیئے جانے کے لئے زیرِ زمین طے پانے والے معاہدے کا وہ خود ہی مرکزی محرک نہ بن جاتے۔ بدقسمتی سے مگر اہم معاملات میںمیرٹ کی پاسداری، آزادقومی اداروں کے قیام اور جمہوری اقدار کے فروغ کی بجائے اقتدار پر خاندانی گرفت کو مضبوط بنانا ہی الیٹ گروہوںکی ترجیح رہی ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ حساس اداروں کے سربراہان کے نام سرِ عام لے کر انہیں دھمکیاں دیئے جانے کی حکمتِ عملی کا رگر ثابت ہوئی۔ تاہم دبائو برقرار رکھنے کے لئے بظاہر سوچی سمجھی حکمتِ عملی اکتوبر 2021ء میںاہم عہدیداروں کی تبدیلیوں کے بعد بھی جاری رہی۔ پریس کانفرنسوں اور جلسوں میں جنرل فیض کے علاوہ چند حاضر سروس معزز ججز کو بھی ’پانچ لوگ‘ کہہ کر تضحیک کا نشانہ بنائے جانے کا سلسلہ جاری رہا۔ اعلیٰ عدلیہ کی’ناانصافیوں ‘ کا ذکر چلتا تو وہیں دو معزز منصفوں کوچُن کر عزیمت، ایمان داری اور بے خوفی کا استعارہ قرار دیاجاتا۔ ایک کی بر طرفی کی وجہ باپ بیٹی کے خلاف مقدمات میں عدم تعاون تو دوسرے معزز جج صاحب کے خلاف دائر ہونے والے ریفرنس کا سبب فیض آباددھرنا کیس میںان کے جرأت مندانہ فیصلے کو قرار دیا جاتا۔ ہر دو کے لئے براہِ راست یا بالواسطہ طور پر جنرل فیض حمید کو ہی ذمہ دارٹھہرایا جاتا۔عالمی اسٹیبلشمنٹ کے مقامی کارندے کہ جنہیں ہم ’دیسی لبرلز‘ کے نام سے بھی جانتے ہیں، شریف فیملی کی مظلومیت پر مبنی بیانئے کے پھریرے لہرانے والوں میں پیش پیش رہتے۔ اس بیچ، دیوار کے پاردیکھنے کی صلاحیت اور اقتدار کی راہداریوں تک رسائی رکھنے والے تجزیہ کار ہی نہیں، ہم جیسے کم آمیز قلم گھسیٹنے والے بھی لکھتے رہے کہ اداروں میں ’اچھے اور بُرے کی تفریق‘ ایک خطرناک روش ہے کہ جو بالآخر قومی اداروں میں بھیانک تقسیم کا سبب بنے گی۔ آنے والے دنوں میں ہم نے دیکھا کہ جب انصاف کے سیکٹر میں ایک دھڑاآئین اور قانون کی مسلسل پامالی پر تُلی حکومت کا ہم نوا ہو کرعدلیہ میں دوسرے گروہ کو بے دست و پا کرنے کا سبب بنا تو قوم نے کیسے اس کی قیمت چکائی۔کیسے اعلیٰ عدلیہ کی جگ ہنسائی اس وقت اپنے عروج پر پہنچی جب ملک کی اعلیٰ ترین عدالت انتخابات کے انعقاد سمیت اپنے دیگر احکامات پر عمل درآمد کروانے میں صاف بے بس دکھائی دینے لگی۔کیسے سپریم کورٹ کے دروازے پر ملکی تاریخ میں پہلا عدلیہ مخالف جلسہ منعقد ہوا جہاں چیف جسٹس کو نام لے کر انہیں للکارا گیا۔قومی اداروں کی شکست و ریخت، زوال اوربے توقیری کے جس مقام پر ہم آج کھڑے ہیں یہ ُاسی بیانئے کا ثمر ہے کہ جس کا زہریلا بیج سال 2016ء میں بو کر برسوں اُس کی آبیاری کی گئی۔ یہ وہی سال 2016 ء ہے کہ جس کے حوالے سے ہم گذشتہ کچھ مہینوں کے اندر ن لیگ کے دانشوروں کے منہ سے ’پراجیکٹ ری سیٹ۔2016‘ کی اصطلاح سنتے چلے آئے ہیں ۔ یہ وہی ’ری سیٹ‘ہے کہ جس کے مبینہ خدو خال کو ہم نے پہلے’لیول پلیئنگ فیلڈ‘ کے مطالبے اوربعد ازاں اس یکطرفہ صورتحال میںمتشکل ہوتے دیکھا کہ جس کے اندر ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کو بے دست وپا تو دوسری کو ریاستی سرپرستی میں کھلا میدان ملا۔اسی صورتحال کے اندرحالیہ انتخابات کا انعقاد ہوا اور انہی انتخابات کے نتائج آج کھڑے ہمارا منہ چڑارہے ہیں ۔ تین رکنی کمیشن، سپریم کورٹ کے فیض آباد دھرناکیس کے فیصلے کی روشنی میں قائم ہوا تھا۔ اِس کمیشن نے کہ جس کے ٹی او آرز تک سپریم کورٹ کی جانب سے دیئے گئے تھے ، عام کئے جانے والے بیانئے کے بر عکس فیض آباد دھرنے کی’ مس ہینڈلنگ‘ کے لئے اس وقت کی سویلین لیڈرشپ، بالخصوص حکومتِ پنجاب کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے ۔حقائق کی روشنی میں کمیشن نے یہ بھی طے کیا ہے کہ جنرل فیض حمید سمیت ان کے ادارے نے حکومتی احکامات کے تحت ہی مظاہرین سے مذاکرات کئے اور آئین و قانون کی متعین حدود میں رہتے ہوئے معاہدے سمیت تمام معاملات طے کئے۔عین متوقع ردِ عمل کے طور پر وفاقی وزیرِ دفاع نے رپورٹ کو مسترد کر دیا ہے۔ اگر کہا جائے کہ کمیشن کی اس رپورٹ نے گذشتہ آٹھ برسوں پر محیط وہ بیانیہ کہ جس کی بنیادوں پربتدریج موجودہ حکومتی بندوبست استوارہوا ، جڑوںسے اکھاڑ پھینکا ہے تو وزیرِ دفاع سمیت دیگر حکومتی زعماء کی بے اطمینانی یقینا قابلِ فہم دکھائی دینے لگتی ہے ۔ اندازہ یہی ہے کہ معاملہ اب ایک بار پھر سپریم کورٹ کے سامنے جائے گا۔عزت مآب چیف جسٹس فیض آباد دھرنے پر اپنی رائے رکھتے ہیں۔دیکھتے ہیں انکوائری کمیشن کی رپورٹ آنے کے بعد بھی اپنی ہی رائے پراصرار کیا جاتا ہے، حکومت اور اس کے حمائیتوں کے مطالبے کے مطابق مزیدکسی انکوائری کمیشن کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے، یا کہ پھر اسی کمیشن کی تجاویز کی روشنی میں معاملے کو کسی منطقی انجام تک پہنچایا جا تا ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ حکمران جماعت کے اندر موجود مخصوص عناصر ایک بار پھر’اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانئے ‘ سے گرد و غبارجھاڑ کراسے نئے سرے سے مارکیٹ کرنے کے لئے پر تول رہے ہیں۔حکومت میں ہوتے ہوئے ان کا یہ طرزِ عمل یقینا مستقبل کی پیش بندی ہے۔ ملک مگر ہمہ وقت شدید سیاسی ، معاشی اور سلامتی کے چیلنجز سے دوچار ہے۔اندریں حالات فیض آباد دھرنے سمیت تما م متنازعہ معاملات کے باب میںاسٹیبلشمنٹ پرمزید کیچڑ اچھالنے کی سہولت اب کسی کو دستیاب نہیں ہونی چاہیئے۔تاہم یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ ادارے بھی اپنی ترجیحات کا تعین ازسرِ نو کریں۔اسٹیبلشمنٹ محض چند افراد، ٹینکوں اور طیاروں کا نام نہیں۔ یہ لاکھوں شہیدوں اور غازیو ں کی لازوال قربانیوں کاامین ادارہ ہے کہ گزشتہ بیس برسوں سے جومسلسل جانوں کے نذرانے پیش کر رہا ہے ۔ گو مگو کے دھندلکے کے اندر اب کسی کو اس امر کی اجازت نہیں دی جانی چاہیئے کہ وہ جب چاہے اسٹیبلشمنٹ کا کندھا استعمال کرے اورجب جی میں آئے اقتدار کو اپنی خاندانی میراث سمجھتے ہوئے ’اینٹی اسٹیبلشمنٹ‘ بیانئے کو سیاسی ہتھیاربنا لے۔