ڈاکٹر نیاز احمد اختر کو مارگلہ کے دامن میں قائم قائد اعظم یونیورسٹی کا نیا وائس چانسلر تعینات کیا گیا ہے۔ ستائیس فروری سے دو طلبہ گروہوں میں تصادم کے بعد سے یونیورسٹی غیر معینہ مدت کے لیے بند ہے ۔ یونیورسٹی کھلنے کا دارومدار اکیس رکنی تحقیقاتی کمیٹی کی سفارشات پر عملدرآمد سے مشروط ہے۔ ان سفارشات میں طلبا تنظیموں میں آئے روز کے تصادم کی روک تھام کے علاوہ اساتذہ کے لئے سالوں سے سردرد بنا بی ایس پروگرام کا خاتمہ بھی ہے۔ یہ پروگرام شروع توکردیا گیا تھا اور اس سے طلبا کی تعداد تین گنا بڑھ بھی گئی لیکن تدریسی کام کا بوجھ موجودہ فیکلٹی کے کندھوں پر آن پڑا۔ اس پر مستزاد یہ کہ انہیں کلاسز کے علاوہ انتظامی معاملات بھی دیکھنے پڑتے ہیں۔ قائداعظم یونیورسٹی میں پچھلے مہینے جانا ہوا تو اس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ اساتذہ ہیجانی کیفیت سے دوچار ہیں۔ جسکی تصدیق اس بات سے بھی ہوئی کہ وہ بعض دفعہ طلبا سے وہ سلوک بھی کر جاتے ہیں جو نہ کبھی ہم نے دیکھا نہ سنا۔ بی ایس کے طلبا تو ایک طرف ایم فل والے بھی بہت کچھ بھگت رہے ہیں۔ جہاں اساتذہ پریشان حال ہیں وہاں طلبہ خوف اور بے یقینی کی کیفیت سے دوچار ہیں۔ قائداعظم یونیورسٹی، جسے منی پاکستان بھی کہا جاتا ہے ، یہاں ثقافتی رنگا رنگی سے پیدا ہونے والے مسائل کو طلبا اور اساتذہ کے مثالی باہمی ربط کی بنا پر حل کیا جاتا تھا ، اب یہ ربط ٹوٹ چکا ہے۔ اس کی مثال تازہ ترین حالیہ واقع ہے۔ دو طلبہ گروہوں میں بیس فروری کو تصادم ہوا۔ ہفتہ خیرو عافیت سے گزرا ۔ کیمپس پر امن رہا، تدریسی عمل بلا کسی روک ٹوک کے جاری رہا۔ ستائیس فروری کو انہیں گروہوں کے درمیان دوبارہ جھگڑا ہوا۔ اٹھائیس فروری کو کلاسییں ہوئیں ،شاید ہفتوں بلکہ مہنیوں لڑائی بھی نہ ہوتی۔ لیکن اب انتظامیہ ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھی تھی، اسے کچھ کرنا تھا تو اس نے وہ کردیا جو ایک تعلیمی ادارے کی انتظامیہ کو زیب نہیں دیتا۔ کیوں ، یہ تحقیق طلب نقطہ ہے۔ یونیورسٹی کو غیر معینہ مدت کے لیے بند کرنے کے علاوہ ہاسٹلز کو خالی کرانے کا فیصلہ کرلیا گیا۔ رات کے وقت پولیس نے ہاسٹلوں پر دھاوا بولا اور گیہوں کے ساتھ ساتھ گھن بھی پس گیا۔ طلبہ کو مارپیٹ کر ہاسٹلز سے بھگا دیا گیا۔ طالبات کو بسوں میں بھر کر بس اڈوں اور ریلوے اسٹیشن پر پہنچایا گیا ۔ اس وقت تدریسی عمل رکا ہوا ہے، طلبا در بدر پھر رہے ہیں اور یونیورسٹی کھولنے کی دہائیاں دے رہے ہیں لیکن یہ یونیورسٹی اب اس وقت نہیں کھلے گی جب اکیس رکنی تحقیقاتی کمیٹی کی سفارشات پر عملدرآمد نہیں ہوجا تا۔ انتظامیہ کی درخواست پر سی ڈی ای نے باب القائد کے ساتھ موجود کھوکے اور ڈھابے بھی مسمار کرادیے ہیں ۔ جوکام دہائیوں میں نہیں ہوسکا ، وہ کام کرلیا گیا ہے۔ اس عمل کے نتیجے میں سی ڈی اے کی پچیس کنال اراضی واگزار ہوگئی ہے۔ دوسری طرف تحقیقاتی کمیٹی کی سفارشات منظر عام پر آچکی ہیں جنکا بغور مطالعہ کیا جائے تو اس سے اس کمیٹی میں شامل لوگوں کی ذہنی کیفیت کا بخوب اندازہ ہوتا ہے۔ طلبا کی ہاسٹل الاٹمنٹس ختم کر نے اور ہر سمسٹر میں نئے سرے سے الاٹمنٹ کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ اناسی طلبہ کی رجسٹریشن ختم اور کچھ سینئر طلبہ کی ڈگریاں منسوخ کردی گئی ہیں۔ بائیو میٹرک سسٹم اورسکیورٹی کیمروں کی تنصیب اور پولیس چوکیا ں بنانے کا کہا گیا ہے۔ ایک ایسی سفارش اس کمیٹی نے کی ہے جو ہم سمجھتے ہیں کہ اگر مان لی جائے تو قائداعظم یونیورسٹی کے متعدد مسائل حل ہوجائیں گے۔ اساتذہ کو ذہنی سکون میسر ہوگا ، یونیورسٹی بار بار بند نہیں ہوگی اور طلبہ پر سے خوف و ہراس کی فضا بھی ہٹ جائیگی۔ اکیس رکنی تحقیقاتی کمیٹی نے کہا ہے یونیورسٹی سے بی ایس کلاسیں ختم کردی جائیں۔ یعنی یہاں پر صرف ایم ایس اور پی ایچ ڈی پروگرام ہیہوں تاکہ یونیورسٹی کی اصل مینڈیٹ ، یعنی تحقیق و ریسرچ پر توجہ ، بحال ہوسکے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سب تجاویز کو ایک طرف رکھ کر صرف بی ایس پروگرام والی تجویز پر توجہ دی جائے کیونکہ یہی وہ وجہ ہے جس کی وجہ سے طلبا کے درمیان جھگڑوں کی وجہ سے یونیورسٹی بند ہوتی ہے۔ وائس چانسلر کی تعیناتی میں غیر معمولی تاخیر سے مسائل ضرور الجھے ہیں لیکن اتنے نہیں جتنا کہ فیکلٹی کے تدریسی بوجھ کی وجہ سے۔ اگر یہ سب تھا تب اساتذہ کو انتظامی امور ہرگز نہیں سونپنے تھے۔ تھکے ماندے اور ذہنی انتشار کے مارے لوگوں کو سکون کی ضرورت ہوتی ہے نہ کہ انکی ذمہ داریوں میں اضافے کی۔ نتیجہ دیکھ لیں، اب ہر طرف سکون ہی سکون ہے۔ اس سکون کی کیا قیمت چکانا پڑے گی ، اسکے بارے میں قائم مقام وائس چانسلر شائستہ سہیل فکر مند ہوں نہ ہوں ڈاکٹر راجہ قیصر احمد ، جنہیں رجسٹرار کے فرائض منصبی سونپے گئے تھے، اور ان کے ہاتھوں بہت سارے ناخوشگوار کام کرائے گئے ہیں ، معاملات کو ڈگر پر لانے کے لیے ضرور فکر مند ہونگے۔ پچھلے وائس چانسلر صاحبان کا ایک دیرینہ مسئلہ یونیورسٹی کی زمین پر پنجہ گاڑے مافیا سے بھی چھٹکارا تھا۔ لیکن اب معاملات جتنے بگڑے ہوئے ہیں موجودہ وائس چانسلر کے پاس شاید ہی اس امر پر توجہ دینے کا وقت ہو۔ سردست مسئلہ یونیورسٹی کھولنے کا ہے۔ یونیورسٹی کو کب کھولنا ہے اور اسکے معاملات کس پرانی نہج پر چلانا ہیں یا نئی شروعات کرنا ہے، یہ معاملہ اب نئے وائس چانسلر نے دیکھنا ہے۔ لیکن یہ یونیورسٹی اب صرف کھلنی نہیں ہے۔ بہت کچھ بحال بھی ہونا ہے۔ جہاں طلبا کی عزتِ نفس مجروح ہوئی ہے ، وہاں پیشہ تدریس کا تقدس بھی پامال ہوا ہے۔ جہاں تک امن و امان کا تعلق ہے تو اس کا دارومدار بھی مذکورہ مسائل کے حل سے ہی نکلتا ہے۔ مطلب بار بار کنویں کو خالی کرنے سے کنواں پاک نہیں ہوگا !