24 جنوری کو ملک کی عظیم علمی وادبی شخصیت رخصت ہوئی۔ پروفیسر رفیع الدین ہاشمی ماہر اقبالیات ،ماہر اردو ادب تھے۔ وہ ایک عظیم محقق اور اقبال شناس تھے۔ساری زندگی انہوں نے اقبال شناسی میں تحقیق اور تدوین کرتے ہوئے گزاری۔ پروفیسر صاحب کی وفات کی خبر آئی تو سوشل میڈیا پر ان کے شاگردوں کی طرف سے بھی یاد آوری کا ایک سلسلہ شروع ہوا۔ انہوں نے بڑی محبت سے اپنے استاد محترم کو یاد کیا۔وہ صحیح معنوں میں استاد الاساتذہ تھے کہ ان کے شاگردوں میں بھی اردو ادب کے بڑے قابل اساتذہ اور اقبال شناس شامل ہیں۔ میری پروفیسر صاحب سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی، ہاں ان کے کام اور ان کے نام سے ہمیشہ شناسائی رہی ایسے بڑے لوگ اپنے کام کے ذریعے سب تک پہنچ جاتے ہیں، پھر ان کی شخصیت ان کے کام میں ڈھل جاتی ہے۔ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کو دیکھ کر لگتا کہ وہ علم و ادب کے منظر نامے کا آخری درویش تھے ۔منحنی جسامت ،ظاہری چکاچوند سے بے نیاز سادہ لباس، سر پر جناح کیپ پہنے ہوئے وہ مسلم تہذیبی شناخت کا مجسمہ تھے۔وہ اہل علم کے اس قبیلے سے تعلق رکھتے تھے جو صحیح معنوں میں علم میں خود کو غرق کر لیتے ہیں۔ان کی شخصیت کی کئی جہتیں ہیں۔ وہ اورینٹل کالج میں اردو ادب کے استاد رہے اور اورینٹل کالج کے سابق پرنسپل کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ دانائے راز علامہ محمد اقبال سے ان کا خصوصی لگاؤ تھا۔ تمام عمر انہوں نے علامہ محمد اقبال کی مختلف شعری جہتوں پر تحقیق وتدوین میں گزار دئیے۔ وہ ایک ممتاز اقبال شناس تھے۔ الخدمت فاؤنڈیشن کے میڈیا مینجر شعیب ہاشمی نے سوشل میڈیا کی پوسٹ میں بتایا کہ پروفیسر رفیع الدین ان کے سگے پھوپھا تھے۔ میری دلچسپی اس میں بڑھی کہ جانا جائے کہ ایک ممتاز محقق ، معلم اور ادیب اپنی ذاتی زندگی میں کیسے تھے ،ان کی زندگی کے معمولات کس طرح کے تھے؟ اس کالم کا بیشتر حصہ شعیب ہاشمی سے حاصل کی گئی معلومات پر مشتمل ہے۔ انہوں نے بتایا کہ " ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صاحب کے حوالے سے بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ وہ عمر کے ابتدائی برسوں میں ہی ٹی بی کا شکار ہوگئے تھے۔ اس بیماری نے ان کے ایک پھیپھڑے کو ناکارہ بنا دیا تھا سو انہوں نے پوری زندگی ایک پھیپھڑے کے ساتھ گزاری۔زندگی بھر انہیں اور بھی کئی طرح کے عوارض نے گھیرے رکھا۔25 برس کی یادوں کی بات کروں تو انہیں ان برسوں میں سات بار انتہائی بیماری میں مبتلا دیکھا۔ایک دوبار تو ڈاکٹرز بھی ان کی زندگی سے مایوس نظر آئے لیکن پھر اللہ تعالی نے انہیں زندگی دی اور وہ بیماری سے شفایاب ہوئے۔یوں ہمارے سامنے تو پروفیسر صاحب کی زندگی ایک معجزہ ہی محسوس ہوتی ہے۔ بیماری کے دوران بھی وہ ہر ممکن کوشش کرتے کہ جہاں تک ہوسکے اپنا علمی ادبی اور تحقیقی کام جاری رکھیں۔عام لوگوں کی طرح انہیں بیماری میں ہائے ہائے کرتے یا بیماری کے حوالے سے پریشان ہوتے کبھی نہیں دیکھا۔اس کی وجہ ان کا اللہ تعالی پر توکل تھا۔ وہ اپنی ذاتی زندگی کے معاملات میں بھی ایک صاحب ایمان مومن تھے۔جب تک میرے نانا حیات تھے تو ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی ان سے اپنے لیے دعا کا کہتے تھے۔ میں جب بھی اپنے نانا سے ملنے جہانیاں جاتا تو انہیں بتا کر جاتا۔ وہ ایک رقعہ نانا کے نام لکھ دیتے جس پر یہ لکھا ہوتا کہ میرے لیے دعا فرما دیں۔ وہ اپنی زندگی کے معمولات میں بہت منظم تھے پوری زندگی سحرخیز رہے۔ فجر کی نماز ادا کرتے چونکہ قرآن پاک کے حافظ تھے۔ روزانہ قرآن پاک کو دہراتے تھے۔ دوپہر کو قیلولہ کرنے کی عادت پر بہت پابندی سے کاربند رہتے۔ہم نے انہیں دیکھا کہ وہ وقت کی بہت قدر کرنے والے تھے۔ تقریبات میں جانے سے اکثر گریز کرتے کہ بہت سا قیمتی وقت ضائع ہو جاتا ہے۔انہوں نے دنیا کے کئی ملکوں کے سفر کیے اور سفر کے دوران بھی کوئی نہ کوئی کام کرتے رہتے۔ کبھی خطوں کے جواب دے رہے ہیں یا کوئی کتاب پڑھ رہے ہیں۔ وہ وقت کے ہر لمحے سے رس کشید کرتے تھے۔ وہ چونکہ ماہر اقبالیات تھے تو نو نومبر اور اکیس اپریل کے دن اکثر میڈیا پر انہیں پروگرام میں شرکت کی دعوت دی جاتی مگر وہ اس سے بھی معذرت کر لیتے۔ میں کبھی ان سے کہتا آپ کو اقبالؔ کے حوالے سے تو تقریب میں شرکت کرنی چاہیے تھی تو جواب دیتے اگر کوئی اقبالؔ کے حوالے سے مکمل تیاری کے ساتھ سوال کرے تو میں ضرور جا ؤں گا مگر لایعنی سوالوں کے لیے میں اپنا وقت کیا ضائع کروں۔ ( ہمارے مین سٹریم میڈیا کی سطحیت کا عالم یہ ہے کہ یہاں خال ہی کوئی علم والا ملے گا سو ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی جیسے لوگ اس ماحول میں خود کو اجنبی سمجھتے تھے تو یہ ہماری بدقسمتی ہے ) انہیں کبھی کسی کے ساتھ فالتو گفتگو میں شریک نہیں دیکھا۔ فطری طور پر وہ کم آمیز تھے۔ آپ انہیں انٹرورٹ کہہ سکتے ہیںلیکن اقبالیات کے حوالے سے اور علم و ادب کے حوالے سے اگر کوئی ان کی مدد کا طلبگار ہوتا اور وہ اس میں خالص لگن دیکھ لیتے تو پھر ہر طرح سے اس کا ہاتھ تھام لیتے۔ وہ اپنے خاندان میں نوجوانوں کی رہنمائی کرنے والے عظیم بزرگ تھے۔ مجھ سمیت خاندان کے کئی بچوں نے ان کے پاس رہ کر بہت کچھ سیکھا "۔ علم انسان کو کیسے ممتاز اور دنیا سے بے نیاز کرتا ہے۔ یہ حقیقت انہیں دیکھ سمجھ میں آتی۔ان کی زندگی کے اس سارے منظرنامے میں ظاہری نمائش ظاہری صلے اور ستائش کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ وہ حقیقی معنوں میں اقبالؔ کے فکری اور علمی فرزند تھے۔ انہوں نے اپنی تمام عمر اقبالؔ پڑھنے اور اقبالیات دوسروں کو سمجھانے اور پڑھانے میں گزار دی۔ جس شخص کے شب و روز اقبالؔ کی علمی ،روحانی معیت میں گزرتے ہوں وہ خود کس درجے کی روحانی اور علمی شخصیت تھے، ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کو دیکھ کر اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔وہ صلے کے تخت وتاج اور ستائش کے لشکر و سپاہ سے دور اپنی خودی اور علم کی بارگاہ میں مرد قلندر کی سی زندگی گزارتے رہے اور جب دنیا سے گئے تو محسوس ہوا اقبالؔ کا مرد درویش ہم دنیا والوں سے رخصت ہوا ہے۔ پروردگار ان کے مرقد پر رحمتیں نازل کرے۔