معزز قارئین!۔ کل (16 اکتوبر کو ) پاکستانی قوم نے ،اندرون اور بیرون ملک ، پاکستان کے پہلے وزیراعظم اور قائداعظمؒ کے بعد ’’پاکستان مسلم لیگ کے صدر ‘‘ قائدِ ملتؔ لیاقت علی خانؒ کی 67 ویں برسی عقیدت و احترام سے منائی۔ قائدِ ملّت ؒ 16 اکتوبر 1951ء کو راولپنڈی کے کمپنی باغ ( اب لیاقت باغ) میں مسلم لیگ کے جلسۂ عام سے خطاب کر رہے تھے کہ ، جب ڈیوٹی پر موجود سب انسپکٹر پولیس سیدؔا کبر نے دو گولیاں چلا کر اُنہیں شہید کردِیا تھا۔ نزع کے وقت قائدِ ملت‘ؒنے دو مرتبہ کلمہ طیبّہ کا ورد کِیا اور پھر ڈُوبتی ہُوئی آواز میں کہا کہ ’’ خُدا پاکستان کی حفاظت کرے!‘‘ جلسہ گاہ میں موجود 15 ہزار سے زیادہ حاضرین نے وہ منظر دیکھا۔

 جلسہ گاہ میں موجود راولپنڈی کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس نجف ؔخان نے پولیس اہلکاروں کو حکم دِیا کہ ’’گولی چلانے والے ( قاتل) کو فوراً مار ڈالو!‘‘ ۔ پھر سید ؔ اکبر، پولیس اہلکاروں کی گولیوں کا نشانہ بن کر وہیں ڈھیر ہوگیا۔ اگر قاتل سید اکبر کو گولیاں مار کر ہلاک کرنے کے بجائے ، اُسے زندہ گرفتار کرلِیا جاتا تو ، قائدِ ملتؒ کے قتل کی سازش کرنے والے وطن دشمن لوگوں کو ضرور گرفتار کِیا جاسکتا تھا؟۔ عجیب بات ہے کہ بعد ازاں ’’ ایس ۔ پی‘‘ نجف خان کو ترقی دے کر ڈی۔ آئی ۔ جی پولیس بنا دِیا گیا تھا ۔  

قائدِ ملّتؔ ؒ کی شہادت کے اگلے روز17 اکتوبر 1951ء کو وزارتِ خارجہ پاکستان کی طرف سے جاری کردہ ایک پریس نوٹ میں کہا گیا تھا کہ ’’ سیدؔ اکبر ، افغانستان کا باشندہ ہے اور کچھ مدت سے ایبٹ آباد میں مقیم تھا۔ تلاشی کے بعد اُس کی جیب سے دو ہزار چالیس روپے برآمد ہُوئے ہیں اور ایبٹ آباد میں اُس کے گھر کی تلاشی پر ، دس ہزار روپے برآمد ہونے پر یقین کِیا جاتا ہے کہ ، قائدِ ملّتؔ ؒ کے قتل کے لئے سیدؔ اکبر کو خریدا گیا تھا‘‘۔ 

معزز قارئین!۔ ’’ قائدِ ملّت کی شہادت کا تذکرہ کرتے ہُوئے ، مَیں نے اپنے 19 اپریل 2013ء کے کالم میں سکندرِ اعظم کے والد ، مقدونیہ کے بادشاہ فیلقوس (Philip ii) کے قتل کی مثال دِی تھی۔ہُوا یوں کہ ’’ 336 قبل از مسیح میں، بادشاہ فیلقوس کی بیٹی کی شادی تھی۔ شادی کی تقریب میں ،اہلِ دربار جمع تھے کہ، مقدونیہ کی اشرافیہ کے ایک نوجوان نے، فیلقوس پر، اچانک حملہ کرکے، اْسے قتل کر دیا۔ موقع پر موجود، شاہی فوج کے محافظوں نے، فوراً ہی بادشاہ کے قاتل کو ہلاک کر دیا تھا۔ بعض تاریخ دانوں کا خیال ہے کہ، فیلقوس کو اْس کی ملکہ "Olympias"نے قتل کرایا تھا کیونکہ، فیلقوس نے، اپنی دوسری بیوی "Cleopatra" کے بیٹے کو اپنا ولی عہد نامزد کر دیا تھا۔ سکندرِ اعظم نے، اپنے باپ کے قتل کی سازش میں۔ (مبّینہ طور پر) ملوث اپنی ماں کو، سزا نہیں دی اور نہ ہی کسی عدالت سے دِلوائی!‘‘۔ 

قائد ملّت ؒ وزیرِاعظم لیاقت علی خان کے قتل کی سازش کرنے پر، بعض مسلم لیگی لیڈروں نے (اْس وقت کے ) وزیرِاعلیٰ پنجاب میاں ممتاز دولتانہ پر (جلسوں اور اخباری بیانات میں) الزام لگایا تھا، لیکن اْن لیڈروں میں سے، کسی نے بھی تھانے میں جا کر، دولتانہ صاحب کے خلاف ایف۔ آئی۔ آر۔ درج نہیں کرائی۔ اہم بات یہ کہ ’’جب بھارت نے پاکستان کی سرحدوں پر اپنی فوجیں جمع کردیںتو، 27 جولائی 1951ء کو پاکستانی عوام کا "Morale" بلند کرنے کے لئے قائد مِلّتؒ نے ایک بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہُوئے بھارت کی طرف منہ کر کے ، فضا میں اپنا مُکاّ لہرایا اور کہا کہ ’’ بھائیو!۔ کہ یہ پانچ انگلیاں جب تک علیحدہ ہوں اُس کی قوت کم ہوتی ہے لیکن ، جب یہ مل کر مُکاّ بن جائیں تو مکاّر دشمنوں کا مُنہ توڑ سکتا ہے! ‘‘۔ 

معزز قارئین!۔ قائد ملّتؒ  مسلسل تین منٹ تک اپنا تاریخی مُکاّ تان کر رکھا جو، بہادری کے پیکر کی حیثیت سے ایک علامت بن گیا۔مَیں مختلف ادوار میں فوجی آمروں کی خواہش / ہدایت پر مسلم لیگ کے نام سے بنائی گئی درجنوں سیاسی جماعتوں سے توقع نہیں کرتا کہ وہ ، قائد ِ ملّتؒ کی پیروی کرتے ہُوئے ، بھارت کو مکّار دشمن قرار دیتے ہُوئے ، اُس کی طرف ، فضا میں مُکّا لہرائیں اور اُس پر مسئلہ کشمیر حل کرنے پر زور دیں؟ ۔ مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کے ’’ روحانی فرزند‘‘ آصف علی زرداری صاحب نے 9 ستمبر 2008ء کو صدارت کا منصب سنبھالتے ہی خُود کلامی ؔ کے انداز میں کہا تھا کہ ’’ کیوں نہ ہم 30 سال کے لئے مسئلہ کشمیر کو "Freeze" (منجمد) کردیں؟‘‘۔ 

صدر زرداری نے ،اپنے اِس مقصد کی تکمیل کے لئے ، تحریکِ پاکستان کے مخالف کانگریسی مولویوں کی باقیات فضل اُلرحمن صاحب کو ،(وفاقی وزیر کی مراعات کے ساتھ ) کشمیر کمیٹی کا چیئرمین مقرر کِیا۔ اُن کے بعد ’’ پاکستان مسلم لیگ ‘‘ (ن) کے صدر کی حیثیت سے ، قائداعظمؒ کی کُرسی پر بیٹھنے والے وزیراعظم نواز شریف نے بھی، فضل اُلرحمن صاحب ہی کو کشمیر کمیٹی کا چیئرمین بنائے رکھا۔ صِرف اتنا ہی نہیں بلکہ ، 25 دسمبر 2015ء کو قائداعظمؒ کی سالگرہ اور ( خُود اپنی سالگرہ کے موقع پر ) جاتی اُمراء میں وزیراعظم نواز شریف کی نواسی ( مریم نواز کی بیٹی ) مہر اُلنساء کی رسم حنا کی تقریب میں (اپنے لائو لشکر سمیت ) بھارتی وزیراعظم شری نریندر مودی وہاں مہمانِ خصوصی کے طور پر پہنچ گئے۔ وزیراعظم نواز شریف نے اُنہیں اپنی والدہ صاحبہ سے ملوایا۔

 الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کی خبروں کے مطابق ۔ اُن کی والدۂ صاحبہ ، شمیم اختر (المعروف آپی جی) نے دونوں وزرائے اعظم سے کہا کہ ’’ مل کر رہو گے تو ، خُوش رہو گے! ‘‘۔ اِس پر مودی جی نے بھی سعادت مندی سے کہا تھا کہ ’’ ماتا جی!۔ ہم اکٹھے ہی ہیں !‘‘۔ وزیراعظم نواز شریف نے مودی جی کو اپنے دونوں بیٹوں حسن نواز ، حسین نواز اور بھائی شہباز شریف سے بھی ملوایا تھا ۔ اِس پر میرے 27 دسمبر 2015ء کے کالم کے لئے میرے دوست ’’ شاعرِ سیاست‘‘ نے کہا تھا کہ …

 دْکھ بانٹے کچھ غریبوں کے ، پڑھ لی نماز بھی!

مہر اْلنساء کی ، رسمِ حِنا کا جواز بھی!

شردھا سے پیش کردِیا ، حسن ؔاور حسین ؔکو!

مصروفِ کاراْن کا چچا ، شاہباز ؔبھی!

مَیں برتھ ڈے پہ قائداعظمؒ کی کیا کہوں؟

مودی ؔنواز نکلا، محمد نواز ؔبھی!

…O…

معزز قارئین!۔ نااہل ہونے کے بعد ، وزیراعظم نواز شریف کے "His Master's Voice" وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے 13 اکتوبر2017ء کو وزیراعظم آفس کی ایک دیوار پر نصب (فضل اُلرحمن صاحب کے والد ) مفتی محمود صاحب کی "Four Colour Plaque" ( دھات، چینی، وغیرہ کی لوح ) کی نقاب کُشائی کرتے ہُوئے مفتی محمود صاحب کی دینی ، قومی اور سیاسی خدمات کے اعتراف میں یادگاری ڈاک ٹکٹ جاری کرنے کا بھی اعلان کِیا۔ حالانکہ قیام پاکستان کے بعد مفتی محمود (مرحوم) کا یہ بیان "On Record" ہے کہ ’’ خُدا کا شُکر ہے کہ ہم ، پاکستان بنانے کے گُناہ میں شامل نہیں تھے ‘‘۔ بعد ازاں 4 ستمبر 2018ء کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر کی حیثیت سے قائداعظمؒ کی کُرسی پر بیٹھنے والے میاں نواز شریف بھی فضل اُلرحمن صاحب کو صدرِ پاکستان منتخب کرانے میں ناکام ہوگئے۔ 

میری اطلاعات کے مطابق16 اکتوبر 2018ء کو سب سے بڑی تقریب ’’مفسرِ نظریۂ پاکستان ‘‘ جناب ِ مجید نظامی کے بسائے ہُوئے ’’ ڈیرے‘‘ (ایوانِ کارکنانِ تحریک پاکستان) لاہور میں منعقد ہُوئی۔ دوسری تقریب اسلام آباد میںچیئرمین’’ پاکستان کلچرل فورم‘‘ برادرِ عزیز ظفر بختاوری کے زیر اہتمام ، ایک تقریب سکاٹ لینڈ کے شہر ، گلاؔسگو میں ’’نظریہ ٔ پاکستان فورم ‘‘ برطانیہ کے چیئرمین ’’ بابائے امن‘‘ ملک غلام ربانی کے زیر اہتمام ۔ گلاسگو کی مرکزی جامع مسجد "Central Mosque" میں قائدِ ملّتؒ کے ایصالِ ثواب کے لئے قرآن خوانی بھی کی گئی۔ معزز قارئین!۔ 16 اکتوبر 1951ء کو مَیں 15 سال کا تھا۔ میری عُمر کے پاکستانیوں کے دِلوں میں ،پاکستان مسلم لیگ کے صدر کی حیثیت سے ، قائد ِ ملّت ؒ لیاقت علی خان کی یاد آج بھی تازہ ہے اور مَیں تو ،آج بھی تصّور میں قائدِ ملّت ؒ کو ،مکاّر دشمن بھارت کی طرف ، فضا میں مُکّا لہراتے ہُوئے دیکھ رہا ہُوں! ۔