آج کل ہمارے علاقے میں رات دس بجے گیس چلی جاتی ہے، صبح چھ بجے تک پھر چولہا جلنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔کالج روڈ لاہورکی اس سوسائٹی میں چھ سال سے مقیم ہیں، کبھی ایسا نہیں ہوا۔ شدید سردی میں بھی گیس کی لوڈ شیڈنگ نہیں ہوئی تھی۔ پھر ایک بہت ہی بابرکت، لائق فائق، تجربہ کار افراد پر مشتمل حکومت ایسی آئی، جس نے ہر چیز الٹ پلٹ کر دی۔ممکن ہے انہوں نے چیزیں بہتر کی ہوں مگر ہماری کم فہمی کہ اسے تباہی اور بربادی سمجھ رہے ہیں۔ بہرحال وجہ جو بھی ہے، چھ سال بعد پہلی بار اس جبری گیس لوڈشیڈنگ کا شکار بنے ۔ ممکن ہے لاہور بھر میں ایسا ہی ہو۔قوم پر مصائب ایسے آ پڑے ہیں کہ بہت سی چیزوں کا شکوہ ہی نہیںکیا جاتا۔ صحافتی مصروفیت کچھ اس انداز کی ہیں کہ رات کو گیارہ بارہ بجے ہی پہنچ پاتا ہوتا ہے۔ کبھی مزید تاخیر بھی ہوجاتی ہے۔ آج کل اپنی کوئی تصویر یا کھانے پینے کے حوالے سے تحریر سوشل میڈیا پر پوسٹ کرو تو ایسے بہت سے مخلص بہی خواہ نمودار ہوجاتے ہیں،جنہیں مجھ سے زیادہ بڑھ کر میری صحت کی پروا ہے اور ان کا ہمیشہ یہی مشورہ ہوتا ہے کہ سر پلیز وزن کم کریں۔یہ پیارے لوگ نہیں جانتے کہ وزن کم بخت بڑھ تو جاتا ہے، مگر اسے کم کرنا پہاڑ سے دودھ کی نہر نکالنے کے مترادف ہے۔ (میری صحت کی فکر کرنے والے یہ دردمند احباب اگر جان کی امان دیں تو بتا دوں )اکثر مجھے کھانا بھی رات گئے کھانا پڑتا ہے۔ کچھ عرصے سے سوچ رہے ہیں کہ گیس سلنڈر میں ایل پی جی بھروا کر رکھ لی جائے تاکہ سالن روٹی گرم کرنے کا کام تو آ سکے۔ وقت نہ ملنے کے باعث یہ نہیں ہوپایا۔ خیر ہماری اہلیہ محترمہ نے تلاش بسیار کے بعد ایک عدد ٹفن برآمد کر لیا ۔ یہ کلاسیکل قسم کا ٹفن ہے، جس میں تین ڈبے ہیں اور وہ ایک بڑے سے تھرموس ٹائپ باکس میں رکھے جاتے ہیں۔ کسی زمانے میں اسے لیا تھا، یہ سوچ کر کہ آفس لنچ لے جایا کروں گا۔ اس ٹفن میںچند گھنٹوں تک روٹی گرم رہ جاتی ہے اور سالن بھی۔ چار پانچ روز قبل ساڑھے بارہ بجے گھر پہنچا۔ بھوک شدید لگی تھی اور یہ اندازہ تھا کہ ٹفن کا کھانا ہی مقدر میں ہے۔پتہ نہیں کیا سالن پکا تھا، مگر اہلیہ نے اسے ایک طرف رکھ دیا اور ٹھنڈے آم کے ٹکڑوں (کیوبز) سے بھری پلیٹ آگے رکھ دی، ایک کپ میں ٹھنڈا جام شیریں(شوگر فری)ملا دودھ بھی تھا۔ پہلے تو ہم نے اسے انتظام کو تیکھی نظر سے دیکھا اور پھر ذرا آزمانے کے لئے روٹی کا ایک لقمہ توڑ کر آم کا ٹھنڈا مزے دار کیوب منہ میں ڈالا پھر دودھ کا گھونٹ بھرا۔ لذت کی ایک لہر سی گلے سے اترتی ہوئی معدے تک گئی،روح تک سرشار ہوگئی ۔ اتنا لذیذ کھانا شائد برسوں میں نہیں کھایا۔ بظاہر سادہ مگر لذت سے بھرپور۔ آم پتہ نہیں کون سے تھے، غور نہیں کیا۔ ایک عزیزہ اسلام آباد سے گھرملنے آئیںتو ازراہ تلطف لے آئیں۔ اللہ انہیں اجر دے۔ نرم روٹی کے ساتھ آم اور دودھ کا یہ امتزاج کمال کر گیا۔ مجھے یاد ہے کہ جب احمد پورشرقیہ میں رہتے تھے اور تب’’ آتش‘‘ نہ صرف جوان بلکہ نوجوان تھا، تب ہماری امی جی لاکھ کہتیں کہ آج رات آم کے ساتھ روٹی کھا لو۔ ساتھ دودھ پی لینا، میں گھی والی روٹی بنا دیتی ہوں۔ تب ہم جیسے نالائق پانڈے چٹا انکار کر دیتے اور کہتے نہیں جی سالن تو بنائیں، کھانا کھانے کے بعد ہم آم بھی ہڑپ کر جائیں گے اوردودھ یا دودھ کی لسی پینے سے تو خیر کبھی انکار کیا ہی نہیں۔ والدہ دلیل دیتیں کہ تمہارے فلاںفلاں رشتے داروں کے گھر بھی ایسا ہوتا ہے۔ شدید گرمی ہے، وہ رات کو آم یا خربوزے کے ساتھ دیسی گھی میں چوپڑی روٹی کھا لیتے ہیں۔کوئی نہ کوئی عذر بنا کر ہم اس سب سے محروم ہی رہے۔ خیر وقت وقت کی بات ہوتی ہے۔اس رات شائد شائد بھوک زیادہ تھی یا پھر گرمی بے پناہ تھی۔ یہ وہ دن تھا جب لاہور میںدرجہ حرارت فیل لائک 52ڈگری کہا گیا تھا۔سخت تپش تھی۔ گھر پہنچ کر نسبتاً ٹھنڈے کمرے میں کپڑے بدل کرغسل کے بعد صرف سلیولیس ہلکی ٹی شرٹ ، ٹراوزر میں ریلیکس ہو کر بیٹھنے کے بعد وہ ٹھنڈا یخ آم اور دودھ کو نرم روٹی کے ساتھ کھانا بہت اچھا لگا۔ اللہ کا بے حد شکر ادا کیا جس نے ایسی شاندار نعمتیں کھلائیں۔ سچی بات ہے کہ باقی مسائل اپنی جگہ مگر ہم پاکستانی اس لحاظ سے خوش نصیب ہیں کہ دنیا کے بہترین پھلوں میں سے چند ایک غیر معمولی ذائقے ہمارے ہاں عام دستیاب ہیں۔ ہمارے آم خاص کر چونسہ، انوررٹول کی کیا ہی بات ہے، اس کے ساتھ اور کیا مل سکتا ہے؟سندھڑی آم خوش رنگ ہوتا ہے مگر ہمارے سرائیکی وسیب میں اسے ملک شیک کا آم سمجھا جاتا۔سرائیکی خطہ بہترین آم کے باغات کا مرکز رہا ہے، ملتان، مظفر گڑھ سے لے کر رحیم یار خان تک کیا بے مثال ورائٹی دستیاب ہے۔ ہر علاقے کے آم کی اپنی لذت اور سپیشل ورائٹی ہے۔ رحیم یار خان کا وائیٹ چونسہ ، مظفرگڑھ کے وائٹ چونسہ سے مختلف ہے۔ ثمربہشت کی ایک زمانے میں بہت دھوم تھی، ہمارے سکول کالج کے زمانے میں اسے جنت کا میوہ سمجھاجاتا تھا،آج بھی یہ اہم ورائٹی ہے، مگر چونسہ میں اتنی بہت سی اعلیٰ اقسام مزید آ چکی ہیںجن کا جواب نہیں۔ میرے بچپن ، لڑکپن میں آموں کی اتنی ورائٹیز نہیں تھیں یا شائد عام نہیں ہوئی تھیں۔سندھڑی تو ہر دور میں ملتا رہا ۔ اس کے علاوہ لنگڑا ایک زمانے میں بہت مشہور تھا، اس کا اپنا منفرد ذائقہ ہے۔ مجھے یاد ہے کہ بازار والد کے ساتھ جانا ہوتا تو وہ پھلوں کی دکان پر مجھے مختلف نشانیوں کے ساتھ سمجھاتے کہ یہ لنگڑا ہے، یہ دسہری اور یہ والا سہارنی ہے جو بظاہر خوش شکل نہ لگے مگر بہت میٹھا ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ الفانسو آم کا ذکر پڑھا تو ہے مگر شائد یہ پنجاب میں کم ملتا ہے، کراچی، حیدرآباد کے احباب ذکر کرتے ہیں۔ اردو ڈائجسٹ کے مالکان آم کی ایکسپورٹ کا کام کرتے تھے، وہاں کام کرتے ہوئے ایک آم لال بادشاہ دیکھا جو زیادہ تر ایکسپورٹ ہوجاتا ہے، واقعی بہت ہی خوش رنگ، خوبصورت آم تھا، اپنے نام کی طرح حسین۔ چونسہ کی ورائٹی اور لذت نے لگتا ہے ہر آم کو متاثر کیا۔ اب تو ہر طرف صرف چونسہ کا راج ہے، اسے صرف انوررٹول ہی چیلنج کر سکتا ہے، مگر اس کا قدرے چھوٹا سائز اور غیر معمولی مٹھاس بعض لوگوں کو ٹومچ (Too Much) لگتی ہے۔ہماری ذاتی رائے میںالبتہ چونسہ اور انوررٹول دونوں ہی بے مثال ہیں۔ خیر میرے نزدیک تو آم کی ہر قسم قابل صد احترام ہے اور اس کے شایان شان سلوک صرف ایسے ہی کیا جاسکتا ہے کہ فی الفور اسے اپنے معدے میں پہنچایا جائے۔ وائٹ چونسہ اور انوررٹول البتہ واقعی غیر معمولی ہیں۔ خوش نصیبی سے ہمارے خطے میں یہ عام مل جاتے ہیں اور قیمت بھی اتنی نہیں کہ خریدے نہ جاسکیں۔ البتہ اچھی ورائٹی کی تلاش ایک مشکل مرحلہ ہے۔جنوبی پنجاب خاص کر ملتان، مظفر گڑھ، بہاولپور، لودھراں، رحیم یار خان والوں کے لئے تو یہ مسئلہ نہیں۔ لاہور میں ہم جیسوں کو ڈھونڈنا پڑتا ہے، مگر بہرحال اچھی چیز مل ہی جاتی ہے۔ ہم نے اپنے بڑوں سے سنا اور اس پر عمل بھی کرتے ہیں ، معلوم نہیںڈاکٹروں کی اس بارے میں کیا رائے ہے ؟ہم لوگ آم کو دو تین گھنٹہ پہلے دھو کر ٹھنڈا کر لیتے ہیں، ترجیحاً کسی دیگچی وغیرہ میں۔ اسی طرح آم کے بعد دودھ کی کچی لسی پینے کی افادیت ہر جگہ بیان کی جاتی ہے۔ میری نسل کے لوگ تو اس پر اندھا یقین رکھتے ہیں اور کچی لسی پئے بغیر ہم ایزی فیل نہیں کرتے، البتہ ہمارے بچے اس فوک وزڈم سے کچھ زیادہ متاثر نہیں۔ کسی جگہ میں نے پڑھا تھا کہ جامن آم کے تھوڑے بہت منفی اثرات کو کائونٹر کر دیتا ہے۔ کہتے ہیں کہ پانچ سات دانے جامن کے بعد میں کھا لینے چاہئیں۔ میں ذاتی طور پر ایسے ہر مشورے پر عمل کرتا ہوں جس میں کوئی مزیدار چیز کھانے کی ہدایت ہو۔ اسی سنہری اصول پر عمل کرتے ہوئے ہم سردیوں میں پہلے نہاری تناول فرماتے ہیں ، پھر اس کا دف مارنے کے لئے گا جر کا حلوہ ربڑی ڈلوا کر کھاتے ہیں اور پھر رات گئے تک قہوہ کی فلاسک سامنے رکھ کر پیتے رہتے ہیں تاکہ سانس لینے کی جگہ تو بنے ۔ گرمیوں میں البتہ نہاری، پائے ، ہریسہ کی جگہ سنہری، رس بھرے، میٹھے، ٹھنڈے لذیذ آم لے لیتے ہیں۔ رہے نام اللہ کا ، باقی رہے نہ کو۔