نیلسن منڈیلا نے کہا تھا: تعلیم ہی وہ موثر طاقتور ہتھیار ہے، جس کے ذریعے دنیاکو تبدیل کیا جا سکتا۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں تعلیم نے معاشرہ تو کیا بدلنا ہے خود طالب علم کے لئے بھی بے اثر ثابت ہو رہی ہے۔ پاکستان کے تعلیمی ادارے بے روزگار ڈگری ہولڈر کی فوج تیار کر رہے ہیں۔آج صورتحال اسلم کولسریؔ کے اس شعر سے مختلف نہیں۔ اسلم بڑے وقار سے ڈگری وصول کی اور اس کے بعد شہر میں خوانچہ لگا لیا گزشتہ دنوں ایک دوست کے گھر پاکستان کے معروف ماہر تعلیم ڈاکٹر اطہر محبوب سے ملاقات ہوئی۔ڈاکٹر اطہر اپنی شگفتہ گفتاری سے ہی ہر کسی کے محبوب نہیں بلکہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں بطور وائس چانسلر اپنی صلاحیتوں کا لوہا بھی منوا رہے ہیں۔راقم نے ان سے دریافت کیا کہ امریکی سکالر ماریان ایڈلمان نے تو تعلیم کا مقصد ’’دوسروں کی بہتری بتایا ہے‘‘ پاکستان میں تعلیم خود طالب علموں کے لئے بے سود کیوں ثابت ہو رہی ہے؟ڈاکٹر اطہر محبوب نے کہا: اس کی وجہ قیام پاکستان کے بعد کے حالات اور تعلیم کے حوالے سے حکمران اشرافیہ کی عدم توجہی ہے۔ ہماری توجہ معیار تعلیم کی بجائے ڈگریاں بانٹنے پر رہی۔ وقت کے ساتھ ساتھ اگر کوئی تبدیلی آئی تو وہ یہ تھی کہ ہمارا تعلیمی نظام مختلف طبقات میں تقسیم ہو گیا۔ اعلیٰ تعلیمی ادارے بیورو کریٹ، تعلیمی ادارے دفتروں کے کلرک پیدا کرتے رہے۔ گویا تعلیم کا مقصد ڈگری اور سرکاری نوکری رہ گیا۔ حکومتوں کے لئے سب کو نوکریاں دینا ممکن نہ رہا،اس لئے آبادی کے ساتھ ملک میں بے روزگاری بڑھتی گئی۔ راقم نے ڈاکٹر اطہر محبوب کی گفتگو تو اعتراف جرم سمجھنے کی غلطی کی اور سوال داغ دیا: آپ تو اسلامیہ یونیورسٹی کے چانسلر ہیں آپ خود کو ان حالات میں کس طرح بری الذمہ قرار دے سکتے ہیں؟۔ڈاکٹر صاحب مسکرائے اور بولے تعلیمی ادارے ایسی فیکٹریاں ہیں، جہاںبٹن دبایا اور پیداوار شروع ہو گئی ناہی ایسا کھیت ہیں، جہاں چھ ماہ بعد فصل کاٹ لی جاتی ہے۔ ایک فرد کو تیار کرنے میں 20سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔اسلامیہ یونیورسٹی کی ایک تاریخ ہے اور یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور تمام تر مشکلات اور چیلنجز کے باوجود اپنا بھرپور کردار ادا کرتی رہی ہے ۔ یہ سلسلہ میرے چانسلر بننے سے پہلے بھی چلتا رہا، بعدمیں بھی جاری رہے گا۔ میں اپنے حصے کا پودا لگا رہا ہوں، جو وقت آنے پر سایہ دار اور پھلدار درخت ضرور بنے گا۔ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کی ابتدائی طور پر مدرسہ علوم دینیات کی صورت میں بنیاد پڑی، جو 1925ء میں جامعہ عباسیہ کی شکل میں ظہور پذیر ہوئی۔1950ء میں والئی ریاست سر صادق محمد خان عباسی پنجم کے حکم پر ایجرٹن کالج سے متصل ایک عظیم الشان عمارت قائم ہوئی اور یوں جامعہ عباسیہ کا مرکزی کیمپس وجود میں آیا، جو اس یونیورسٹی کی پہچان ہے۔1975ء میں پنجاب اسمبلی نے جامعہ اسلامیہ کو چارٹر یونیورسٹی کا درجہ دیا ۔آج اسلامیہ یونیورسٹی کا 1300ایکڑ پرشاندار کیمپس ہے۔یونیورسٹی میں اس وقت 13فیکلٹیاں قائم ہیں جبکہ شعبہ جات کی تعداد 130ہے، جہاں 1800اساتذہ، جن میں 560 پی ایچ ڈی ہیں۔ اسلامیہ یونیورسٹی کا شمار ملک میں موجود 2000یونیورسٹیوں میں 11ویں نمبر پر اور دنیا بھر میں 657 ویں نمبر پر ہے۔یہی نہیں پائیدار ترقی کے اہداف میں سے تین میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور پاکستان بھر میں پہلے نمبر پر ہے۔یقیناً اس شاندار کارکردگی میں مجھ سے پہلے کام کرنے والے چانسلرز کی محنت بھی شامل ہے۔ میں بھی اپنے حصے کا کام پوری دیانتداری سے کر رہا ہوں۔یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہیے کہ ہم محدود وسائل کے ساتھ اس مقام پر پہنچنے ہیں۔ یقیناً بہتری کی بہت گنجائش ہے۔ بہت کام کرنا باقی ہے۔میرا مقصد کسی سے موازنہ یا مقابلہ نہیں مگر پھر بھی چند حقائق ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی کا شمار ملک کی قدیم یونیورسٹیوں میں ہوتا ہے۔اس کاسالانہ بجٹ 12ارب روپے ہے، جس میں سرکاری فنڈز 3.5ارب کے قریب ہیں۔پنجاب یونیورسٹی میں 47ہزار طلبہ زیر تعلیم ہیں جبکہ اسلامیہ یونیورسٹی کا سالانہ بجٹ 7ارب ہے۔ ایچ ای سی ڈیڑھ ارب فراہم کرتی ہے، باقی اخراجات یونیورسٹی اپنے وسائل سے پورے کر رہی ہے۔ ان محدود وسائل کے باوجود بھی یونیورسٹی میں گزشتہ 20ماہ کے عرصہ میں طلبا کی تعداد 13ہزار سے بڑھ کر 53 ہزار ہو گئی ہے جس میں 40فیصد طلبا وظائف سے مستفید ہو رہے ہیں۔آپ نے ماریان ایڈلمان کے قول’’ تعلیم کا مقصد دوسروں کی بہتری‘‘ کی بات کی ، تو جامعہ اسلامیہ کی چین کی یونیورسٹی کا مشترکہ انٹرکراپنگ پروجیکٹ سی پیک کے منصوبے میں شامل ہو چکا ہے۔اسلامیہ یونیورسٹی مصنوعی بارش برسا کر چولستان کے لاکھوں ایکڑ صحرا کو نخلستان میں بدلنے کے لئے کام کر رہی ہے۔اس کے علاوہ کاٹن سیڈ بریڈنگ سنٹر میں کپاس کی زیادہ اور معیاری پیداوار کے لئے تحقیق ہو رہی ہے۔ میرا خواب ہے کہ اسلامیہ یونیورسٹی میں چین کی بہترین یونیورسٹیوں کے اشتراک کے ساتھ سپیس سائنس کا مرکز قائم ہو اور پاکستان کا شمار بھی خلائوں کو مسخر کرنے والے ممالک میں ہو۔آپ نے بے روزگاروں کی فوج کی بات کی تو اسلامیہ یونیورسٹی نے حال ہی نجی بنک کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کئے ہیں۔ بنک یونیورسٹی اور صنعتی اداروں کے درمیان رابطہ کار کا کردار ادا کرے گا۔ میری کوشش ہے کہ یونیورسٹی کے تحقیق کے میدان میں وسائل کی کمی کو پورا کرنے کے ساتھ یونیورسٹی کے فارغ التحصیل گریجویٹس کو ان کی تعلیمی قابلیت کے مطابق کاروباری قرضہ فراہمی میں بھی مدد کی جائے تاکہ اسلامیہ یونیورسٹی کے طالب علم نوکریوں کے لئے مارے مارے پھرنے کے بجائے ملکی ترقی میں اپنا بھرپورکردار ادا کرسکیں۔ میں کوئی دعویٰ نہیں کررہا مگر اپنے حصے کا دیا جلانے پر یقین رکھتا ہوں، جو جلا رہا ہوں۔ پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کا راستہ تعلیم اور تحقیق کے میدان سے گزرتا ہے۔ خدا نے مجھے موقع دیا ہے کہ میں جو کر سکتا ہوں، کروں، سو میں کر رہا ہوں۔ وہ دن دور نہیں جب اسلامیہ یونیورسٹی تعلیم و تحقیق کے میدان میں اپنی پہچان بنائے گی۔ یہ کام میں نہ کر سکا تو میرے بعد آنے والے کریں گے۔ میرے اس یقین کی وجہ پاکستانیوں میں موجود پوٹنشل ہے۔ اسلامیہ یونیورسٹی کے اساتذہ اور طلبا میں آگے بڑھنے کی لگن ہے۔جس کا ثبوت امسال یونیورسٹی کے کانووکیشن میں 60پی ایچ ڈی 265ایم فل کی ڈگریاں 108گولڈ طلباء کوعطا ہونا ہے۔ یونیورسٹی کے طلبا ہوں یا اساتذہ، میں ان کی محنت اور لگن دیکھتا ہو ں تو شاعر کے یہ الفاظ یاد کر کے جھوم جاتاہوں: میں جب بھی اس مدرسہ کے اندر دیکھتا ہوں قطرہ قطرہ سمندر دیکھتا ہوں