وفاقی کابینہ کی طرف سے ملکی تاریخ کی پہلی قومی سلامتی پالیسی منظور ہونے کے بعد وزیر اعظم نے لگے ہاتھوں اس کا افتتاح بھی فرمادیا ۔ نئی سلامتی پالیسی کے خدوخال کا وزیر اعظم کے لب و لہجے سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہوائیں اپنا رخ تبدیل کرنا چاہ رہی ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ قومی سلامتی کے تقاضوں میں جغرافیائی حدود کے ساتھ معاشی خوش حالی کا بھی اضافہ کیا گیا ہے۔ بقول وزیر اعظم ، قومی سلامتی پالیسی شہریوں کی فلاح و بہبود کے گرد گھومتی ہے۔ یعنی ملکی معاملات کو اب صرف ایک زوایے سے نہیں بلکہ ایک تکون کی صورت میں دیکھا جائے گا۔ مطلب، ریاست کا اپنے وجود اور بقا کے تناظر میں ایک جامع اور متوازن نقطہ نظر سامنے آیا ہے اور ،جلد یا بدیر ،اس کی جھلک پالیسیوں اور ترقیاتی منصوبوں میں ملنے کی امید پیدا ہوگئی ہے۔ پہلی بات تو یہ واضح ہے کہ ترجیحات بدل رہی ہیں اور ملک اپنی سمت تبدیل کرنا چاہ رہا ہے۔ اس پالیسی کے پیچھے یہ تڑپ بھی نمایاںہے کہ پاکستان نہ صرف ایک قوم کے طور پر اپنا تشخص قائم کرتے ہوئے ترقی کے زینے پر قدم رکھے بلکہ عالمی برادری میں اپنے مثبت کردار کی بنیاد پر جائز مقام بھی حاصل کرے۔ ترجیحات واضح کردی گئی ہیںاور سمت کا تعین بھی کرلیا گیا ہے۔ حکومت کوئی بڑا قدم اٹھائے گی تو ہی اندازہ ہوگا کہ ایک سکیورٹی سٹیٹ کے ایک نارمل ریاست بننے تک کا سفر کتنا طویل ہوگا۔ کچھ تجزیہ نگار نئی سیکورٹی پالیسی کو ایک انقلابی قدم قرار دے رہے ہیں۔ یہ بات صرف اس حد تک درست ہوسکتی ہے کہ پالیسی سازوں کی طرف سے ضد اور ڈھٹائی کا رویہ ترک ہوتا دکھائی دے رہا ہے اور اربابِ اختیار عوام اور دنیا کے ساتھ حقیقت پسندی کا رویہ اپناتے دکھائی دے رہے ہیں۔ایک نارمل ریاست کا یہ رویہ نہیں ہوتا کہ وہ ایک سمت چل پڑے اور دیگر معاملات کو نظر انداز کردے۔ ایک طرف تو ملک ایٹمی طاقت بن جائے اور دوسری طرف اس کی کی بیشتر آبادی صاف پانی تک رسائی سے محروم ہو اور غذائی عدم تحفظ کا شکار ہوکر بیماریوں کی دلدل میں پھنسی ہو۔ مسلسل خسارے کی شکار معیشت بسترِ مرگ پر ہو اور حکمران خود مختاری کے بلند بانگ دعوے کر تے پھریں۔ مطلب ملک غلط سمت اور غلط ہاتھوں میں تھا کہ اس کا اپنے لوگوں اور عالمی برادری کے ساتھ رویے میں اعتدال نہیں تھا۔ ہم معاملات کو ارتقائی نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں۔ یعنی ، جب ہم آزاد ہوئے تھے تو ہماری معیشت کا مکمل انحصار زراعت پر تھا۔ وراثت میں ملنے والے دفاعی ڈھانچے کی بقا اور جلد بازی میں کی گئی تقسیم ہند کے معاشی تنائج (سندھ طاس کی تقسیم جس کی وجہ سے تین مشرقی دریا بھارت کے نرغے میں آگئے) سے نمٹنے کے لیے ہم امریکہ کے اتحادی بن گئے۔پورے چالیس سال سوویت یونین کے خلاف صف اول کی ریاست کا کردار ادا کرتے رہے۔ ہمارا عمومی رویہ ایک سکیورٹی سٹیٹ کا تھا۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد، دنیا تاہم بدل گئی۔ اصولی طور پر ہمیں بھی تبدیل ہوجانا چاہیے تھا ۔اس حوالے سے سوچ بھی موجود تھی اور کوششیں بھی ہوئیں لیکن کچھ تو اشرافیہ کی ہوسِ اقتدار اور پرانے نظام سے جڑے طاقتور مفاد آڑے آئے اور کچھ معروضی حالات کہ بھلائی کی صورت ہی نکل نہ پائی۔ سب سوچیں اور تدبیریں دھری کی دھری رہ گئیں اور ہم یکے بعد دیگرے بحرانوں کی دلدل میں پھنستے چلے گئے۔ نوے کی دہائی اشرافیہ کی باہمی چپقلش کی نذر ہوئی تو اکیسویں صدی کی دو دہائیاں سیاسی استحکام کے حصول اور افغان جہاد کا ملبہ صاف کرنے میں لگ گئیں۔ اس دوران ہم عدل ومساوات کے زریں اصولوں سے منہ موڑے رہے۔ ملک بھی دولخت کرایا اور نسلی ، لسانی اور مذہبی کدورتوں کے نشانے پر بھی رہے۔ دیر آید ، درست آید۔ نئی قومی سلامتی پالیسی اصل میں نقطہ آغاز ہے۔ جو کام ہم نے اپنی آزادی کے وقت کرنا تھا ، وہ کام شاید اب ہونے جارہا ہے۔ یعنی، ایک متحد ،آزاد اور خود مختار قوم کا بننا اور دنیا سے ایسا تسلیم کرانا۔جذبہ ِعشق چاہیے ہمیں بطور قوم ابھرنے اور دنیا کو باور کرانے کے لیے۔ اس سلسلے میں قائدِ اعظم کے پہلی آئین ساز اسمبلی سے خطاب میں راہنما اصول دیے گئے ہیں۔ اس خطاب کو آئین کے دیباچے کا حصہ بناکر اور اس کی روشنی میں ترمیم سے ہم ا پنے نئے سفر کا آغاز نہایت اطمینان کے ساتھ کرسکتے ہیں۔ شہریت کے عالمی تصور کو اپنا لیں تو ساری عصبیتیں اور کدورتیں مٹ جائیں گی۔ مساوات کے اصول پر چلتے ہوئے آئین و قانون کی حکمرانی ہمارے تقسیم در تقسیم معاشرے کے ایک قوم میں ڈھلنے کا نسخہ کیمیا ہے۔ دیگر معاملات پر اقتدار کی نچلی سطح تک، آئین کی روح کے مطابق ،منتقلی سے قابو پایا جاسکتا ہے۔ عدم مساوات اور لوگوں کی فطری آزادیوں پر قدغن ہی وطن پرستی میں سد راہ ہیںکہ ان کا نتیجہ ظلم اور جبر کے علاوہ کچھ نہیں۔ عدل نہ ہو تو سوکھا پڑجاتا ہے ، کھیت کھلیان ویران ہوجاتے ہیں ، دولت میں سے برکت اٹھ جاتی ہے۔ جہاں مساوات انسانیت کی توقیر بڑھانے کا ذریعہ ہے وہاںظلم اور جبر اس کی تذلیل ہے اور قومی اتحاد و یگانگت کیخلاف دو دھاری تلوار۔ برف پوش پہاڑوں ، سرسبز وادیوں اور زرخیز میدانوں کی سرزمین میں اگر ایک تہائی آبادی بھوک اور بیماریوں کے جال میں پھنسی ہے تو اس کا واضح مطلب ہے کہ ہم ایک غیر متوازن معاشرہ ہیں۔ صوفیا کی تعلیمات سے منور معاشرے میں عدم برداشت کا مطلب یہی ہے کہ ریاستی پالیسیوں میں عدم توازن ہے۔ عدل، جسکا مطمع نظر احترام ِ آدمیت کا تحفظ ہے، ہو تو نہ تو قدرتی وسائل کی کمی ہے اور نہ ہی افرادی قوت کی کہ ترقی اور عظمت کی منزل ہم سے دور رہے۔