اسلام آباد(خبر نگار) آرٹیکل 63اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس کے معاملے میں اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل مکمل کرتے ہوئے موقف اپنایا ہے کہ پارٹی سے انحراف سیاسی برائیوں میں سب سے بڑی برائی ہے اور عدالت نے یہ تعین کرنا ہے کہ کیا انحراف کے بعد ایک شخص دوبارہ منتخب ہونے کا حق رکھتا ہے یا نہیں؟۔دوران سماعت عدالت نے سوال اٹھایا کہ کیا تاحیات نااہلی کے لیے پارٹی سے انحراف کافی ہے ؟۔ عدالت نے آبزرویشن دی کہ آرٹیکل 63اے میں تاحیات نااہلی کا ذکر نہیں ،تاحیات نااہلی صرف جھوٹا بیان حلفی پر ہوتی ہے ۔عدالت کی طرف سے اٹھائے گئے سولات پر اٹارنی جنرل نے کہا دنیا کے کسی ملک میں تاحیات نااہلی بھی نہیں جبکہ اٹارنی جنرل کے موقف پر چیف جسٹس نے ریما رکس دیے کہ سیاسی استحکام کے لیے پارٹی ڈسپلن کو قائم رکھنا ضروری ہے لیکن ہم کس بنیاد پر فیصلہ کرے کہ پارٹی سے انحراف 62ون ایف کے برابر ہے ۔چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ کیا یہ بحث آئین بنانے والوں کی نیت جان سکتی ہے ؟،ہم ایک کمزور جمہوریت پر حکمرانی کا اپنا طریقہ مسلط نہیں کرسکتے ۔ منگل کو چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لاجر بینچ نے ریفرنس پر سماعت کی ۔ اٹارنی جنرل نے ججوں سے متعلق وزیر اعظم کی تقریر کی وضاحت کی اور بتایا وزیر اعظم کے مطابق کمالیہ تقریر میں ججز کا حوالہ 1997ء میں سپریم کورٹ حملے کے تناظر میں دیا گیا۔چیف جسٹس نے سندھ ہاؤس پر حملے کے معاملے میں کارروائی کے بارے میں استفسار کیا۔ ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے بتایا کہ متعلقہ مجسٹریٹ سے ملزمان کی گرفتاری کی اجازت حاصل کرلی گئی ،وارنٹ ملنے کے بعد دونوں اراکین اسمبلی سمیت 15ملزمان گرفتار ہوں گے ۔ عدالت نے اس بارے آج رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کی ۔اٹارنی جنرل نے دلائل جاری رکھتے ہوئے موقف اپنایا کہ پارٹی سے انحراف کو معمول کی سیاسی سرگرمی نہیں کہا جاسکتا، آرٹیکل 63 اے کا مقصد تاحیات نااہلی پر ہی پورا ہوگا۔جسٹس جمال نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے میں رکنیت ختم ہونے کا لفظ ہے نااہلی کا نہیں جب نااہلی ہے ہی نہیں تو بات ہی ختم ہوگئی، کیا الیکشن کمیشن انکوائری کرے گا کہ انحراف ہوا ہے یا نہیں؟۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا پارٹی سے انحراف غلطی سے نہیں ہوتا جان بوجھ کر کیا جاتا ہے ۔جسٹس مندو خیل نے کہا کہ آرٹیکل 95اراکین کو تحفظ دیتا ہے ،آپ کیوں چاہتے ہیں کہ پارٹی سے اختلاف پر ایماندار آدمی کے سر پر تلوارلٹکی رہے ؟۔