گزشتہ چند ماہ سے ایک موضوع اخبارات کی زینت ہے اور ٹیلی ویژن کے مباحث کا مرکز، کہ پاکستان معاشی طور پر دیوالیہ ہونے والا ہے۔ اب تو لفظ دیوالیہ کی جگہ بھی عالمی استعماری زبان کے لفظ ’’ڈیفالٹ‘‘ نے لے لی ہے اور ہر خاص و عام اس لفظ کے معنی و مطالب اچھی طرح سے سمجھتا ہے۔ مادہ پرستی کی یہ صدی جس کا آغاز گذشتہ صدی کی دوسری دہائی یعنی 1920ء کے آس پاس ہوا تھا، اس نے عالمی انسانی معیارات مکمل طور پر بدل کر رکھ دیئے ہیں۔ اب کامیابی اور ناکامی کا تمام تر معیار مادی و معاشی ترقی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں ورلڈ بینک کی سالانہ ترقیاتی رپورٹ سے لے کر چھوٹے سے چھوٹے ’’تھنک ٹینک‘‘ اور علمی محققین تک سب کے سب کسی ملک کی ترقی کو ناپنے کے لئے جو پیمانہ سامنے رکھتے ہیں وہ معاشی اعشاریے (Economic Indications) کہتے ہیں۔ دنیا میں کسی ملک کی معیشت کو ناپنے کے لئے جن دس بنیادی اعشاریوں سے اس ملک کی ترقی کو دیکھا جاتا ہے وہ یہ ہیں (1) اوسط صنعتی و زرعی پیداواری ہفتہ وار کام کرنے کے گھنٹے (2) اوسط ہفتہ وار بے روزگاری (3) پیداوار کے یونٹوں کو ملنے والے نئے آرڈر (عام صارفین کی اشیاء سے متعلق) (4) دکانداروں کی روزانہ فروخت میں کمی بیشی (5) صنعتکاروں کی بڑی بڑی اشیاء (مثلاً کار سے استری تک) کے آرڈر ملنے کی رفتار (6) نئے گھروں کی تعمیر (7) سٹاک مارکیٹ میں 500 عمومی اشیاء کے اسٹاک کی حالت (8) بینک جس طرح روپے کو گردش دے کر ایک نوٹ کو کئی بار استعمال کر لیتے ہیں اسے معاشی زبان میں سرمائے کی تخلیق یعنی M2 کہتے ہیں، اس سرمائے کی سپلائی کی رفتار کو دیکھنا (9) شرح سود کم ہوئی ہے یا زیادہ اور (10) یہ کہ عوام یعنی صارف کی توقعات (Expectations) موجودہ معاشی صورت حال کے بارے میں کیا ہیں۔ ان دس اعشاریوں کے مطابق آپ کو بہت کم دانشور اور تجزیہ نگار گفتگو کرتے ہوئے ملیں گے۔ لیکن اگر ان پر ہی تحقیق کر لی جائے تو یہ کسی ملک کی خوشحالی اور بدحالی کا تھوڑا بہت نقشہ ضرور کھینچ دیتے ہیں ان کے برعکس ہمارے ہاں اکثر اس بات پر بحث ہوتی ہے کہ ہمارے زرِمبادلہ کے ذخائر کتنے ہیں، کتنے تھے اور کتنے رہ جائیں گے۔ اسی بنیاد پر ہمارے معاشی پنڈت پاکستان کا اپنے اردگرد کے ممالک بھارت، بنگلہ دیش اور سری لنکا سے موازنہ کرتے رہتے ہیں۔ اس کی تازہ ترین مثال سابق وزیر خزانہ اور معصوم صورت شخص مفتاح اسماعیل کا مضمون (Failure of Governance) ہے، جس میں انہوں نے تمام ملبہ حکمرانوں کی طرزِ حکمرانی پر ڈالتے ہوئے ہمارا موازنہ بنگلہ دیش، انڈیا اور سری لنکا کے زرِمبادلہ کے ذخائر، برآمدات، درآمدات وغیرہ سے کرکے بات ختم کر دی ہے اور کہا ہے بنگلہ دیش جو کبھی ہمارا ہی حصہ تھا اب ہمیں کہیں پیچھے چھوڑ گیا ہے۔ کاش یہ حضرت اپنی معاشی عینک اُتار کر صرف اپنے آپ سے یہ سوال پوچھ لیتے کہ اگر بنگلہ دیش اس قدر خوشحال ہے تو اس کے ایک کروڑ شہری معمولی ملازمتوں کے لئے بھارت میں دربدر کیوں ہیں اور ہر سال وہاں سے پچاس ہزار عورتیں صرف بھارت کے جسم فروشی کے اڈوں کو کیوں مہیا کی جاتی ہیں۔ جب کوئی معاشرہ، قوم یا ملک معاشی اعشاریوں کے مطابق ترقی کر جائے تو اس مادہ پرست جدید دنیا نے اس ترقی کو مزید بہتر سطح پر ناپنے کے لئے ایک اور طرح کے اعشاریے بھی ترتیب دیئے ہیں، جنہیں معاشرتی اعشاریے (Social indicators) کہا جاتا ہے۔ ان معاشرتی اعشاریوں میں یہ چھ بہت اہم ہیں۔ (1) شرح خواندگی (2) خوراک کی کمی یا ناقص غذاء کی وجہ سے مرض کے مقابلے میں قوتِ مدافعت کی کمی (3) طبّی سہولیات کی ترسیل یا فقدان (4) نوکری کے مواقع (5) صاف پانی کی فراہمی اور (6) صفائی اور حفظانِ صحت کے انتظامات۔ یہ تمام کے تمام اعشاریے بھی مادی نوعیت کے ہیں، یعنی آپ کی جسمانی صحت کیسی ہے، آپ کو علاج معالجہ کی سہولت حاصل ہے، آپ گھر اور محلے میں صحت و صفائی کا انتظام خوب ہے اور آپ کسی ادارے میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں یا نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب کبھی کسی ملک یا قوم کی ترقی کو ماپا جاتا ہے تو انہی پیمانوں کے حوالے سے ہی اس کی درجہ بندی کی جاتی ہے۔ موجودہ مادہ پرستانہ صدی جسے اہلِ نظر دجالّی نظامِ زندگی و تہذیب کا دور کہتے ہیں اس میں نہ صرف قوموں کی ترقی بلکہ کاروباری ترقی کا بھی پیمانہ صرف اور صرف بیلنس شیٹ کا موازنہ ہی ہے۔ ایک سو سال پہلے بھی دنیا میں مادیت غالب تھی لیکن ایسے نہیں، اُردو محاورہ ’’باپ بھلا نہ بھیّا، سب سے بھلا روپیہ‘‘ مستعمل تھا اور فارسی کا وہ شعر نما محاورہ، ’’اے زر تو خدانیست و لیکن بخدا، ستارِ عیوبی و قاضی الحاجاتی‘‘۔ اے دولت تو خدا تو نہیں ہے لیکن بخدا تو عیبوں پر پردہ ڈالتی ہے اور حاجات کو پورا کرتی ہے، موجود تھے، مگر اس کے باوجود اس دور میں دیوالیہ ہونا یا دیوالیہ پن صرف مال و دولت کے ساتھ مخصوص نہیں تھا۔ اخلاقی دیوالیہ پن کی اصطلاح عام تھی اور ہر اس صاحبِ حیثیت اور صاحبِ ثروت کو اس کی اخلاقی زندگی اور انسانی روّیے کی کسوٹی پر ضرور رکھ کر پرکھا جاتا تھا۔ آج بھی معاشروں کو اخلاقی معیار پر پرکھنا بہت آسان ہے۔ تمام اخلاقی اقدار کا شاندار پیمانہ بنایا جا سکتا ہے۔ کسی قوم کی اخلاقی ترقی ناپنے کے پیمانوں کی ایک ایسی فہرست بنائی جا سکتی ہے۔ (1) یہاں جھوٹ بولنا، جھوٹی گواہی دینا اور جھوٹے کی مدد اور سپورٹ کرنا کس قدر عام ہے (2) یہاں ملاوٹ کی شرح کتنی ہے (3) یہاں ذخیرہ اندوزی کس نوعیت کی ہے (4) زبان و بیان کس قدر پاکیزہ اور فحاشی سے دُور ہے (5) یہاں خیرات کتنی، کیسے اور کس طرح دی جاتی ہے (6) کیا یہاں علم حاصل کرنے کے لئے ایسے مضامین پر توجہ دی جاتی ہے جن کا تعلق سائنس و ٹیکنالوجی سے نہیں بلکہ انسان، انسانیت، معاشرت اور اخلاقیات سے ہے (7) کیا یہاں تعلیم اور صحت کی سہولیات یکساں ہیں اور ایسے میں کوئی تفریق نہیں (8) یہاں غیبت، چغل خوری اور تمسخر کس قدر ہے (9) مزاح کا معیار کس قدر بلند یا گھٹیا ہے (10) عام انسانوں میں اپنے اردگرد کے ماحول کو صاف رکھنے کا کتنا شعور و آگہی ہے۔ یہ تو صرف چند ایک اعشاریے ہیں اور ان میں بڑے بڑے اخلاقی جرائم شامل نہیں کئے گئے جیسے قتل، چوری، ڈاکہ، زنائ، زناء بالجبر وغیرہ۔ یہ سب کچھ بہت آسانی سے کسی بھی معاشرے میں ناپا جا سکتا ہے۔ ان سے بڑھ کر اسلام ان تمام اخلاقی جرائم سے بھی بلند ایک جرم کو تصور کرتا ہے اور اللہ اسے شرک کے بعد سب سے بڑا جرم تصور کرتا ہے اور وہ ہے والدین سے بدسلوکی اور نافرمانی۔ اسلام کا تصور ترقی اور پیمانۂ تکریم یہ ہے کہ دیکھو اس معاشرے میں بوڑھے کس حال میں ہیں۔ ماں باپ کس قدر آسودگی میں ہیں۔ صرف اس ایک پیمانے پر دنیا کے ممالک کو تولا جائے تو امریکہ و یورپ کے تمام ممالک بدترین دیوالیہ پن، یعنی اخلاقی ڈیفالٹ کا شکار ہو چکے ہیں اور ان کی تمام تر معاشی ترقی کے اعشاریے اور معاشرتی ترقی کے پیمانے بے معنی ہو کر رہ جاتے ہیں۔ ایک عالیشان گھر میں رہنے والی اولاد کے والدین اگر اولڈ ایج ہوم کے سپرد ہوں یا تنہا کسی فلیٹ میں زندگی گزار رہے ہوں تو یہ کسی معاشرے کے زوال کا سب سے بڑا پیمانہ ہے۔ کیا کسی نے کبھی پاکستان کو ان حوالوں سے بھی تولنے اور اس ملک کی عزت کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہمارا زوال معاشی نہیں اخلاقی ہے اور ہماری خوبصورتی بھی معاشرتی اور اخلاقی ہے، بقول اقبالؒ: سبب کچھ اور ہے تو جس کو خود سمجھتا ہے زوال بندۂ مومن کا بے زری سے نہیں