ساڑھے تین سال تک طالبان کی قید میں رہنے والے آسٹریلوی شہری ٹموتھی ویکس (مشرف بہ اسلام ہونے کے بعدجن کا مسلمان نام اب جبریل عمر ہے) اب ایک بار پھر افغانستان جانے کے خواہش مند ہیں۔وہ کابل میں قائم امریکی یونیورسٹی میں انگریزی کے استاد تھے اور انھیں افغان پولیس افسران کو انگریزی سکھانے کا کام سونپا گیا تھا۔جبرائیل عمر جولائی2016 کو افغانستان پہنچے تھے ابھی انھوں نے اپناکام شروع بھی نہیں کیا تھا کہ اگلے ہی ماہ انہیں 9 اگست 2016 ء کو ان کے ایک اور ساتھی کیون کنگ کے ہمراہ یونیورسٹی کے مرکزی دروازے سے طالبان اپنے ساتھ لے گئے تھے اور ان کے عوض اپنے اہم ترین کمانڈرزکی رہائی کا مطالبہ کیاتھاساڑھے تین سال تک طالبان کی قید میں رہنے کے بعدامریکہ اورنیٹو نے طالبان کامطالبہ تسلیم کرلیا۔ دونوں کی بازیابی کے لیے امریکی فورسز نے افغانستان کے مختلف علاقوں میں متعدد کارروائیاں کیںتاہم امریکی فورسز انہیں بازیاب کروانے میں ناکام رہی ۔ بالآخر’’ 2019کو دوحہ معاہدے ‘‘کے نتیجے میں طالبان کے مرکزی کمانڈر انس حقانی اور خلیل حقانی سمیت طالبان کے تین اہم کمانڈروں کی رہائی کے عوض طالبان نے دونوں پروفیسرزکو رہاکردیا۔ ’’ میری خوش قسمتی ہے کہ طالبان کی قید میں رہتے ہوئے مجھے اچھائی کی ایک کرن نظر آئی ہے، اب میرے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کیونکہ میں سو فیصد پرعزم ہوں کہ اپنے افغان بہن بھائیوں کی مدد کروں۔وہ کہتے ہیں کہ مجھے اب طالبان کاقیدی بننے پر کوئی افسوس نہیں کیونکہ اگر یہ نہ ہوا ہوتا تو میں اسلام کو ایک حقیقت کے طور پر نہ جان پاتا۔ اب مجھے افغانستان، وہاں کی ثقافت اور لوگوں سے محبت ہے جو میرے اپنے ہیں اور میں ان کے لیے کام کرنا چاہتا ہوں‘‘ایک عالمی نشریاتی ادارے کو دیے گئے ایک خصوصی تحریری انٹرویو میں اپنی زندگی کے ان ساڑھے تین برسوں، اس سے قبل اور بعد کی زندگی کے بارے میں بتاتے ہوئے جبریل عمر کا کہنا تھا کہ اُن کی زندگی میں اس وقت تبدیلی آنا شروع ہوئی جب وہ طالبان کی قید میں ایک ماہ گزار چکے تھے۔وہ بتاتے ہیں ایک دن جہاں میں قید تھا اس گھر کے باہر سے بچوں کے کھیلنے کودنے اور ہنسنے کی آوازیں سُنائی دیں۔ بطور استاد مجھے ان بچوں کے مستقبل کی فکر لاحق ہو گئی کہ ان بے چاروں کے پاس اچھی زندگی اور بہتر مستقبل کے لیے کیا امکانات موجود ہیں؟ اور اسی وقت میں نے فیصلہ کیا کہ اگر زندگی نے وفا کی اور آزادی ملی تو میں دوبارہ افغانستان واپس لوٹ کر آؤں گا اور ان بچوں کے لیے اپنی استطاعت کے مطابق جو بھی بن پایا ضرور کروں گا۔وہ کہتے ہیں کہ اب جب میں آزاد ہو گیا ہوں تو میرا ارادہ ہے کہ افغانستان کی طالبان حکومت کے ساتھ مل کر ان بچوں خصوصاً بچیوں اور عورتوں کی تعلیم کے لیے کام کروں۔ میں نے اپنے آپ کو بچیوں اور خواتین کی تعلیم کے لیے وقف کر چکا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ میں ایک فلاحی ادارے کے قیام کے ذریعے افغانستان میں اس مقصد کے لیے بہت زیادہ کام کر سکتا ہوں۔ جبرائیل عمر بتاتے ہیں کہ دوران قید انھیں اسلام کوپڑھنے اوراس کے مطالعے کا شوق ہوا۔ میں نے طالبان سے اسلام کوسمجھنے سے متعلق کچھ کتابیں مانگیں تو انھوں نے اُردو بازار کراچی میں چھپنے والی کچھ کتابیں اور انگریزی زبان میں قرآن کی تفسیر لا کر دی۔یہ کتابیں اور قرآن پڑھنے کے بعد میں آہستہ آہستہ اسلام کی طرف راغب ہونے لگا۔ آخر کار 5مئی2018 کومیں نے اسلام قبول کر لیا اور وضو و نماز کی پریکٹس شروع کر دی۔واضح رہے کہ جبریل عمر افغانستان میں طالبان کی قید کے دوران اسلام قبول کرنے والے دوسرے فرد ہیں۔ اُن سے پہلے2001میںطالبان نے برطانوی خاتون صحافی ایون ریڈلی(جواب مریم کے نام سے جانی جاتی ہیں)کوغیرقانونی طورپر افغانستان میں داخل ہونے پرقیدی بنالیاتھا۔ طالبان کی قید میں مشرف بہ اسلام ہوئیںاور مریم صاحبہ اب مبلغہ ا سلام کے طور پریورپ میں کام کر رہی ہیں۔طالبان کے قید سے رہائی کے بعد مریم نے ایک کتاب لکھی ہے جس میں انہوں نے ان کے ساتھ ہوئے طالبان کے سلوک کی تعریفیں کیں۔مریم ایک مشہور جرنلسٹ تھی۔اس کا نام عالمی سطح پر ایک جانا پہچانا نام تھا۔ جبریل عمر کہتے ہیں کہ میں اپنے ملک آسٹریلیا میں پہنچنے والی اذیت کی بنیاد پر ایسا سمجھتا ہوں جہاں پر گلیوں میں مجھ پر تھوکا گیا، مجھے کتا کہا گیا یہاں تک کہ ایک سابق آسٹریلین فوجی نے پختونوں کی نماز کے لیے پہنی جانے والی ٹوپی سر پر رکھنے پر مجھ پر حملہ تک کیا اور یہ سب ایک ایسے ملک میں ہوتا رہا جہاں پر کسی کے ساتھ امتیاز برتنا خلاف قانون ہے۔وہ کہتے ہیں کہ بدقسمتی سے مغربی دنیا اسلاموفوبیا کا شکار ہے۔لوگ سٹاک ہوم سینڈروم کا شکار ہونے کے طعنے دیتے تھے۔ جبریل عمر بتاتے ہیں کہ ساڑھے تین برس کی قید کے بعد جب وہ گھر واپس لوٹے اور خاندان کے افراد کو جب یہ علم ہوا کہ میں تو اپنے دشمن یعنی طالبان کی افغانستان میں حکومت امارت اسلامی کی حمایت کرتا ہوں تو وہ ان کے لیے یہ بات تسلیم کرنا بہت مشکل ہو رہا تھا۔بہت سے لوگوں مجھے طعنے دیتے تھے کہ میں سٹاک ہوم سنڈروم نامی بیماری میں مبتلا ہو چکا ہے۔واضح رہے کہ سٹاک ہوم سینڈروم ایک ایسی بیماری ہے جس کے شکار لوگ جب خود کو اغواکاروں سے آزاد کرانے کی امید کھو بیٹھتے ہیں تو ان میں سے چند ایک کا جسمانی اور ذہنی اذیت سے بچانے والا نفسیاتی دفاعی نظام لاشعوری طور پر اغوا کاروں کا حامی ہونے لگتا ہے۔ یوں زیادتی کا شکار زیادتی کرنے والے کا وکیل بن کے کھڑا ہو جاتا ہے۔