میڈیا کسی بھی ریاست کا اہم ترین ستون ہوتا ہے،ملک میں کب کیسی فضا قائم کرنی ہے یا کس ایشو کو دبانا اور اٹھانا ہے‘میڈیا کے اختیار میں ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ میڈیا نے جہاں ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ‘وہاں نوجوانوں کی تربیت سازی بھی میڈیا کے رویے سے بہت متاثر ہوئی۔ہمارے ہاں میڈیا کے کئی شیڈز ہیں مگرسوشل میڈیا اور ڈیجیٹل میڈیا بہت طاقت ور فریم ہے۔ دو روز قبل جناح یونیورسٹی فار ویمین کراچی کے میڈیا اسٹڈیز کے ڈیپارٹمنٹ میں اسی موضوع پر ایک ویب نار میں گفتگو کرتے ہوئے کئی اہم ترین پہلو زیرِ بحث آئے‘ اس ویب نار میں میڈیا ڈیپارٹمنٹ سے کئی نوجوان خواتین سپیکرز اور میڈیا کی سٹوڈنٹس بھی شریک ہوئیں اور اپنے اپنے انداز میں اس موضوع پر بات کی۔زیادہ ترا سپیکرز کا خیال ہے کہ سوشل میڈیا سے جہاں ہمیں فائدہ ہوا‘وہاں نقصانات کی شرح زیادہ رہی۔ میڈیا کا کوئی بھی شیڈ ہو (الیکٹرانک‘پرنٹ‘سوشل) سب نے معاشرے کے خدوخال بنانے میں اپنا منفرد کردارادا کیا۔ آپ کچھ دیر کے لیے پاکستانی ٹی وی چینلز پر چلنے والے ڈراموں کے موضوعات اور کرداروں کے مکالموں کی فہرست کا جائزہ لے لیں‘آپ خود سمجھ جائیں گے کہ کمرشل ازم کی دوڑ میں‘انٹرٹینمنٹ کے نام پر میڈیا یا ڈرامہ انڈسٹری نے ہمیں کیا دیا۔ہم سوشل یاڈیجیٹل میڈیا سے تو شکوہ اس وقت کریں جب ہمارے ملک کے بڑے ڈرامہ چینلز سے ہمیں کچھ بہتر ملا ہو۔ پاکستانی چینلز (بالخصوص ڈرامہ چینلز) پر چلنے والی چوبیس گھنٹے کی نشریات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور ہمارے بچوں نے اس سے کیا کچھ سیکھا ہے۔ جب ہم ڈیجیٹل میڈیا کے نقصانات کی بات کرتے ہیں تو ہمارا خیال بار بار میڈیا کی ان نشریات کی طرف جاتا ہے جو بارہ سے پندرہ گھنٹے ہم اپنے موبائلز پر دیکھتے ہیں۔میڈیا ایکسپرٹس کا کہنا ہے ہم ان ڈیجیٹل ایپس کے متحمل نہیں تھے ‘ ہمیں پہلے سوشل ایپس کی ٹریننگ دینی چاہیے تھی‘اس کے بعد یہ ایپس متعارف کروائی جاتیں تاکہ ہم ان کا مثبت استعمال کر سکتے۔اب معاملہ یہ ہے کہ ہماری نئی نسل نے ہر طرح کے رشتوں اور تعلقات کو سوشل میڈیا کی بھینٹ چڑھا دیا، پاس بیٹھے والدین‘ بہن بھائی اور دوستوں کی قدر نہیں مگر فیس بک‘یوٹیوب کے ذریعے میلوں دور اجنبی دنیا سے روابط قائم کرنے کی تگ و دو میں کس قدر دور نکل آئی‘ہم جان ہی نہ سکے۔ڈیجیٹل میڈیا سے فائدہ اٹھانے کی بجائے ہماری نئی نسل نے صرف نقصانات اٹھائے اور ان پہلوئوں کویکسر نظر انداز کیا گیا، جن کے لیے ڈیجیٹل ایپس متعارف کروائی گئیں تھیں۔ اس بات کی بہت خوشی ہوئی کہ ہماری جامعات میں میڈیا کے اسٹوڈنٹس سے ایسے موضوعات پر مکالمہ کروایا جا رہا ہے کیونکہ جب تک میڈیا سے وابستگی کی خواہش مند نسل سے میڈیا کے کرائسز اور میڈیا کی بہتری پہ بات نہیں ہو گی‘تبدیلی نہیں آ سکتی۔ میڈیا نوجوانوں کی ذہنی نشوونما میں بہت اہم کردار ادا کر رہا ہے‘ہمیں نئی نسل کو جہاں الیکٹرانک میڈیا کے اہم ترین پہلوئوں کے بارے میں بریف کرنا ہے ‘وہاں سوشل میڈیا کے فوائد و نقصانات پر بھی بات کرنی ہوگی۔یوٹیوب ‘انسٹاگرام ہو یا فیس بک و ٹویٹر‘یہ ایپس اور ذرائع اب الیکٹرانک میڈیا سے بھی زیادہ طاقت ور ہو چکے ہیں۔اس وقت لوگوں کے پاس اتنا وقت نہیں کہ وہ ٹی وی آن کریںاور رات نو والا نیوز بلیٹن سنیں بلکہ اب توفیس بک اور ٹویٹر سب سے موثر اور تیز ترین ذریعہ بن چکا ہے۔اسی لیے آج ہم ڈیجیٹل میڈیا کے بارے میں پریشانی کا شکار ہیں کہ ہمیں صرف الیکٹرانک میڈیا کے فوائد و نقصانات پر بات نہیں کرنی بلکہ ڈیجیٹل عہد میں ہونے والی تبدیلیوں کو بھی محسوس کرنا اور اس پہ بات کرنی ہے۔ ہم اکثر اس بات پر پریشان دکھائی دیتے ہیں کہ’’ ڈیجیٹل ایرا‘‘ نے جہاں ہمارے لوگوں کو ماڈرن بنا دیا وہاں اس بات پر بھی مکالمہ شروع ہو چکا کہ کیا ہمارے رشتے بھی ڈیجیٹلائز ہو گئے ہیں۔یہ سچ ہے کہ ہم اب رشتے اور تعلقات بھی مادیت کا شکار ہو گئے،لباس‘بول چال اور زندگی کے ہر معاملے میں ہمیں ایسا نوجوان درکار ہے جوزبان و بیان سے مغربی لگے‘بے شک سوچ مشرقی ہی کیوں نہ ہو۔یہی وجہ ہے کہ آج ان پڑھ لبرلز کی اصطلاح بہت عام ہو گئی۔ اس میں کیا غلط ہے کہ ہم ڈیجیٹل ایپس کے ذریعے خود کو ذبردستی ماڈرن بنانے کی کوشش میں لگے ہیں۔آپ نے مشہور مزاحیہ شاعر انور مسعود کی نظم’’بنیان‘‘تو یقیناً سن رکھی ہوگی۔وہ اکثر کہا کرتے ہیں کہ اس نظم کا بنیادی موضوع یہی ہے کہ ہم مغربی کلچر کو اپنانے کی کوشش کر رہے ہیں مگر یہ بنیان ہمیں پوری نہیں آ رہی اور جگہ جگہ سے پھٹ گئی ہے۔ ڈیجیٹل ایپس کے ذریعے ہم نے خود کو حد سے زیادہ فاسٹ بنانے کی کوشش کی‘اس کوشش میں ہم اپنا بہت نقصان کر بیٹھے،نہ تو ایپس کے ہم متحمل تھے اور نہ ہی اس ڈیجیٹل ترقی کے سو اب ہماری نئی نسل ہمارے ہاتھ سے نکل گئی۔ آج جب میڈیا کے اسٹوڈنٹس اس موضوع پر سنجیدگی سے سوچ رہے ہیں تو یہ ایک خوش آئند بات ہے۔ ہمیں الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے بھی نوجوانوں کی تربیت کرنی ہوگی اور ڈیجیٹلائز ہونے کے بعد ان ایپس کے مسائل پر بات کرنی ہوگی۔ڈیجیٹل ایرانے جہاں ہمیں ماڈرن بنایا‘وہاں ہمیں اس دنیا کے نقصانات سے بھی روشناس کیا‘ہمارے نوجوان جو ماڈرن اور ڈیجیٹل بننے کی خواہش میں ہر حد کراس کر چکے‘انھیں واپس لانے کی ضرورت ہے۔