پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کی صورت میںہر طرف بڑھتی ہوئی مایوسی اور ناامیدی نے ہماری معشیت کو تباہی کے دہانے لاکھڑا کر دیا تھا۔چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کے حکم پر8 فروری کو ملک بھر میں عام الیکشن کی حتمی تاریخ کے اعلان کے ساتھ ہی بے یقینی کی صورتحال ختم ہوئی اور معاشی استحکام کی امید روشن ہوئی۔بڑی سیاسی جماعتوں میں سے پیپلز پارٹی سندھ کی حد تک محدود ہوچکی ہے۔مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کی دن رات محنت اورنواز شریف کی آمد سے پاکستان بھر میں مسلم لیگ ن کے کارکنان انتہائی پرجوش نظر آرہے ہیں۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ ن لیگ کا ٹکٹ کامیابی کی ضمانت سمجھا جارہا ہے۔ پنجاب میں نواز لیگ کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ یہ بات عرف عام ہے کہ مسلم لیگ ن کھمبے کو ٹکٹ دے تو وہ بھی الیکشن جیت جائے۔اسی مقبولیت کی وجہ سے ایک ایک حلقے سے درجنوں افراد نے ٹکٹ کیلئے اپلائی کیا ۔سندھ اور بلوچستان میں پاکستان مسلم لیگ ن کی تیزی سے بڑھتی ہوئی مقبولیت اور تمام الیکٹیبلز کی شمولیت اس بات کی غمازی ہے کہ آئندہ الیکشن میں پی ایم ایل این واضح اکثریت حاصل کرلے گی۔ جیسا کہ میں نے گزشتہ کالم میں عرض کیا تھا کہ پی ٹی آئی قیادت سخت پریشان ہے۔ سانحہ 9مئی کے بعد سوائے خیبرپختونخوا کے چند حلقوں کے پورے پاکستان میں کوئی پی ٹی آئی کی ٹکٹ لینے کو تیار نہیں۔ وہی ہوا 12جنوری کو تحریک انصاف نے ٹکٹوں کا اعلان کیا تو بامشکل نصف حلقوں سے امیدوار لاسکے ان میں سے بھی صرف 4 سے 5فیصد پرانے امیدوار تھے جبکہ باقی نئے نام شامل کیے گئے۔ اتنی مایوس کن لسٹ کے بعد بھی اکثر حلقوں سے پی ٹی آئی کے نامزد امیدواروں نے ٹکٹ سے اعلان لاتعلقی کیا کہ انہوں نے تو اپلائی ہی نہیں کیا۔رہی سہی اور آخری امید گزشتہ روز سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ختم ہوگئی ہے۔ سابق حکمران جماعت پی ٹی آئی کا حشر ماضی کی قاف لیگ سے بھی بدتر ہوچکا ہے۔اقتدار سے محرومی کے بعد پی ٹی آئی نے نہ صرف ملکی اداروں کے خلاف نفرت انگیز مہم چلانا شروع کی بلکہ بین الاقوامی اداروں کو بھی پاکستان مخالف اقدامات کیلئے خطوط لکھے۔سانحہ 9مئی میں پی ٹی آئی قیادت اور اس کے کارکنان کی طرف سے اہم حساس و قومی تنصیبات پر حملوں اور توڑ پھوڑ اور بعد ازاں سوشل میڈیا پر کمپین نے اس کو بری طرح بے نقاب کر دیا۔ شہباز شریف کی کوششوں اورمحنت کا صلہ ہے کہ مسلم لیگ نوازکے حمایت یافتہ شہزاد شوکت کی سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن الیکشن میں بھاری مارجن سے فتح کے بعد لاہور سمیت پاکستان بھر کے بار انتخابات میں ایک بار پھر سے مسلم لیگ ن کے امیدواروں نے کلین سویپ کردیا ہے جبکہ پی ٹی آئی کے حمایتی امیدواروں کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔لاہورپریس کلب سمیت پاکستان بھر میں پریس کلب کے انتخابات میں بھی پی ٹی آئی کی حمایت میں ہلکان صحافتی امیدواروںکو بری طرح شکست سے دوچارہونا پڑا ۔اسی طرح چیمبر آف کامرس میں بھی تاجر برادری نے پی ٹی آئی کے امیدواروں کو بلیک آئوٹ کردیا۔ تاریخ گواہ ہے کہ شریف برادران نے ہمیشہ پاکستان کی خدمت کی ہے، ان کے ادوار میں ملک نے بے پناہ ترقی کی، انفراسٹرکچر، تعلیم اور صحت کے شعبوں میں مثالی ترقی ہوئی، موٹر ویز،ہسپتال اور یونیورسٹیاں بنیں۔ ہر مشکل وقت میں ملک کی معیشت کو سنبھالا اور صحیح ڈگر پر ڈالا۔موجودہ حالات سے ملتی جلتی صورت حال 2013ء میںتھی جب نوازشریف نے وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالا تو پیپلز پارٹی کی ناکام پالیسیوں اور کمیشن خوری سے معیشت تباہ حال و زوال پذیر تھی،دہشت گردی نے ملک کے طول وعرض کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔روشنیوں کا شہر کراچی نوگوایریا بن چکا تھا۔ بجلی بحران بے قابو ہوچکا تھا۔ جذبہ حب الوطنی سے سرشار نواز شریف اور شہباز شریف نے دن رات انتھک محنت سے ناممکن کو ممکن کردکھایا۔2017میں آئی ایم ایف کو الوداع کردیا۔ نیشنل گرڈ میں تقریباً بارہ ہزار میگاواٹ بجلی کا اضافہ کیا گیا اور لوڈ شیڈنگ میں ڈوبے پاکستان میں روشنیاں واپس لوٹ آئیں ۔ڈی جی رینجرز اور تمام فورسز کا ماننا تھا کہ کراچی کی روشنیاں اور امن واپس لانانواز شریف کے سوا کسی کے بس کی بات نہیں تھی۔پاکستان سٹاک ایکسچینج جنوبی ایشیا میں پہلے اور دنیا میں پانچویں نمبر پر آچکی تھی۔ڈالر کی اڑان رک چکی تھی۔ نواز شریف کی مقبولیت اور شہبازشریف کی سب کیلئے قبولیت سے کسی کو بھی انکار نہیں۔بھرپور عوامی پذیرائی اور ملک بھر سے جوق در جوق مسلم لیگ ن میں شمولیت سے آصف زرداری اور پیپلز پارٹی کے اعصاب پر ’’شیر‘‘کا خوف سوار ہوچکا ہے۔ جہانگیر ترین اور علیم خان کی نئی سیاسی جماعت استحکام پاکستان پارٹی جنوبی پنجاب میں سرپرائز دے سکتی ہے ،پی ایم ایل این کی حمایت کے بعد علیم خان باآسانی لاہور کی سیٹ پر کامیابی حاصل کر لیں گے۔ بلوچستان میں تمام بڑے نام اور قبائل کی مسلم لیگ ن میں شمولیت اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ وفاق اور پنجاب کی طرح نواز لیگ باآسانی بلوچستان کی صوبائی حکومت حاصل کرلے گی جبکہ خیبر پختونخوا حکومت میں کسی بھی جماعت کو واضح اکثریت ملتی نظر نہیں آرہی۔ فضل الرحمان کی جے یو آئی،مسلم لیگ نواز،جماعت اسلامی اوراے این پی برابر سیٹیں جیت سکتی ہیںجبکہ کچھ اضلاع میں پی ٹی آئی کے جیتنے کے امکانات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔الیکشن التوا اور پنجاب سے وفاق جانے والے نگرانوں کی معصوم خواہشات اور افواہوں کے باوجود الیکشن 8فروری کو ہورہے ہیں اور شریف برادران میں سے ہی کوئی ایک اگلا وزیر اعظم ہے۔