معروف قوم پرست سیاست دان اجمل خٹک کو ہم سے بچھڑے13برس بیت گئے لیکن ان کا طرز سیاست آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔انھوں نے نصف صدی سے زائد بھر پور سیاسی زندگی گزاری لیکن نہ اپنے لئے قومی دولت پر ہاتھ صاف کئے اور نہ ہی اولاد کیلئے کچھ ایسا کیا کہ لوگ برا بھلا کہیں،اجمل خٹک کے نظریات سے لاکھ اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن یہ بات بہرحال ماننا ہو گی کہ وہ ایک با اصول ،مدبر اور بردبار سیاست دان تھے ان کی شخصیت میں انا پرستی کا عنصر ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا۔ اپنے نظریات کی خاطر جلا وطن ہوئے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں، فیملی سے ان کے مسلسل دورے رہنے کی وجہ سے ان کے بچوں کو اس کی بڑی قیمت چکانا پڑی، مالی مسائل اپنی جگہ سر اٹھاتے ر ہے ا س کے ساتھ ساتھ والد کا سایہ عاطفت سر پر نہ ہونے کی وجہ سے اولاد میں کئی نفسیاتی مسائل نے جنم لیا لیکن اس سب کچھ باوجود اجمل خٹک بدلے نہ ہی ان کا طرز سیاست ،ان کی عملی زندگی کے سفر کا آغاز ایک پرائمری سکول ٹیچر کی حیثیت سے ہوالیکن اختتام سیاست کی پرخار وادی میں ہوا ۔ا پنی85 سالہ زندگی میں انھوں نے بڑے عروج و زوال دیکھے وہ ایک فل تائم سیاسی کارکن تھے اور سیاست ہی ان کا اوڑھنا بچھونا تھی کسی لگی لپٹی کے بغیر بات کرنے کے عادی تھے وہ روایتی سیاست دانوں کی طرح تصنع سے بالکل نابلد تھے دو ٹوک اور کھری بات کرنا ان کی عادت تھی انھوں نے کبھی اپنی ''ویک فنانشل پوزیشن'' کو اپنے طرز سیاست میں آڑے نہیں آنے دیا اور نہ ہی اس مجبوری کی وجہ سے اپنے نظریات کا سودا کیا ایک وقت میں انہیںباچا خان خاندان کا بے پناہ اعتماد حاصل تھا تاہم بالاخر وہ دوریوں پر منتج ہوا اور انھیں اپنے راستے باچا خان خاندان سے الگ کرنا پڑے ،وہ مسلسل 9سال تک عوامی نیشنل پارٹی کے صدر رہے اس سے قبل سیکریٹری جنرل اورصوبائی صدر بھی ر ہے جناب مفتی محمود کی کابینہ میں نیب کی نمائندگی کی، 16سال تک افغانستان جلا وطن رہے، سیاسی جلا وطنی کے دوران انکے افغانستان کی اشرافیہ سے قریبی روابط رہے،1989ء میں وطن واپسی ہوئی 1990ء میں اسلامی جمہوری اتحاد کے پلیٹ فارم سے نوشہرہ سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے،1993ء میں ایوان بالا سینٹ کے رکن کی حیثیت سے حلف اٹھایا تاہم ایک طویل عرصہ تک جماعتی اور حکومتی عہدے رکھنے کے باوجود ان کے گھر میں دولت کی ریل پیل ہوئی اور نہ ہی ان کے طرز زندگی میں کوئی تبدیلی آئی وہ عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اور ایوان بالا سینٹ کے رکن تھے اور ان کی اقتدار کے ایوانوں تک موثر رسائی تھی لیکن ان بیٹا ایک معروف اردو روزنامہ میں ہمارے ساتھ سب ایڈیٹر کی حیثیت سے وفاقی دارالحکومت میں اپنے فرائض سر انجام دے رہا ہوتا تھا متعدد بار ان کے بیٹے ایمل خٹک سے گفتگو ہوئی اور صحافی دوستوں نے اصرار کیا کہ اپنے والد سے سفارش کرائو اور کسی اہم کرسی تک رسائی حاصل کرلو، یہ مواقع بار بار نہیں ملتے آخر اجمل خٹک صاحب کی سیاسی حیثیت آپ کے کام کب آئے گی؟ ایمل خٹک ہماری گفتگو سنتے رہتے اور آخر میں مسکرا دیتے اور اگلے روز پھر سب سے پہلے ڈیسک پر موجود ہوتے۔ ایک بار مجھے اجمل خٹک صاحب کا تفصیلی انٹرویو کرنے کا اتفاق ہوا ایمل خٹک کے ہمراہ اکو ڑہ خٹک روانہ ہوا میرا خیال تھا کہ اکوڑہ خٹک کے ایک عالی شان بنگلہ میں ملک کے معروف سیاست دان رہائش پذیر ہو نگے لیکن اکوڑہ خٹک پہنچ کر میری تخیلاتی دنیا کا بت د ھڑام سے نیچے آگرا اجمل خٹک ایک عام سے اپنے آبائی گھر میں رہائش پزیر تھے محلے کے دارو دیوار اپنی حیثیت کا پتہ دے رہے تھے روایتی پشتون حجرہ میں انٹرویو کا آغاز ہوا جہاں اجمل خٹک آلتی پالتی مار کر بیٹھے ہوئے تھے انٹرویو کے دوران میری یہ کوشش تھی کہ میں کسی طرح ان میں موجود بنیاد پرست اجمل خٹک تک پہنچ جائوں اور آخر کار میں اپنے اس مقصد میں اس وقت کامیاب ہوا جب انھوں نے میرے سامنے یہ بھید افشاں کیا کہ وہ درس نظامی ہیں انھوں نے درس نظامی کی ابتدائی کتب سے بخاری شریف تک مدرسہ میں پڑھاہے اور یہ کتب انھوں نے دارالعلوم دیوبند کے معروف اساتذہ جناب مولانا عبدالحق والد محترم مولانا سمیع الحق بانی دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک ، مولانا عبد القیوم، مولانا امین الحق سے پڑھیں ان کے چچا مولانا عمر معروف عالم دین تھے اجمل خٹک نے انکشاف کیا وہ فاضل فارسی ہیں ان کے زمانہ میں مولوی فاضل اور منشی فاضل کی اسناد کا شہرہ تھا بہت شاذ افراد مولوی فاضل اور منشی فاضل کے امتحانات میں کامیابی حاصل کرتے تھے انھوں نے یہ امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا اور یہ وہ وقت تھا جب دینی مدارس میں درس نظامی کا زیادہ تر نصاب فارسی زبان میں رائج تھا ۔ ان کی یہ باتیں سنتے ہی میرے ذہن میں بنی اجمل خٹک کی تخیلاتی تصویر نے اپنے رنگ بدلنا شروع کردئیے اجمل خٹک جب افغانستان کے دارالحکومت کابل جلا وطن ہوئے اس وقت آتش جواں تھا اور کابل شہر کا ماحول بھی کسی یورپی دارالحکومت سے کم نہ تھا جہاں چہارسو ''تمام مواقع'' بس ایک اشارے پر مہیا ہوا کرتے تھے یہ وہ دور تھا جب پاکستانی اشرافیہ اپنے ''من کی پیاس''بجھانے کیلئے کابل کا رخ کرتی تھی طور خم بارڈڑ کراس کرتے ہی ان کے جذبات بے لگام ہوجاتے اورشیشے سے بھی زیادہ صاف تیز روسڑک پر جام چھلکتے یہ ببرک کارمل کا افغانستان تھا جہاں سینما گھروں میں بھارتی اور روسی فلموں کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہوتا تھا یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ ان کے خاص مزاج کی وجہ سے عوامی نیشنل پارٹی کی اشرافیہ کو ان کا طرز سیاست ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا اور بالاخر انہیں اس سے علیحدگی اختیار کرنا پڑی وہ انگریز کیخلاف نیپ کے پلیٹ فارم سے متحرک ضرور ہوئے لیکن مدرسہ کے ماحول میں پراون چڑھنے والے اجمل خٹک کی اندر کی دنیا کچھ اور ہی تھی حقیقت میں کچھ لوگ ایسے ہوتے نہیں جیسے نظر آتے ہیں میرے خیال میں اجمل خٹک کی شخصیت میں ایک قوم پرست اجمل خٹک سے زیادہ ایک بنیاد پرست اجمل خٹک چھپا ہوا تھا تاہم انھوں نے سیاسی زندگی میں کبھی مذہب کا سہار الیا اور نہ ہی مذہب سے اپنے تعلق کو کیش کرانے کی کوشش کی جس طرح عموما کیا جاتا ہے۔