مجھے اندازہ تو تھا کہ لاڑکانہ میں کون سی دودھ شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں لیکن جو لاڑکانہ میرے سامنے تھا وہ میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھامیں حیران تھا کہ یہ اس بھٹو کا لاڑکانہ ہے جس کے نام پر ووٹ لے کر پیپلز پارٹی سندھ پر راج کرتی چلی آرہی ہے؟ یہ سولی پر جھول جانے والے اسی بھٹو کا لاڑکانہ ہے جسے اس نے پیرس بنانے کا وعدہ کیا تھا؟ بھٹو سولی نہ چڑھتا تو شائد نہیں یقینا لاڑکانہ کی یہ حالت نہ ہوتی ،میں تب ایک نیوز چینل سے وابستہ تھا مجھے بے نظیر بھٹو کی برسی کی تقریب کی کوریج کرنے کے لئے جانا تھا،جب مجھے لاڑکانہ کے لئے رخت سفر باندھنے کا کہا تو مجھے خوشی ہوئی کہ چلو اسی بہانے میں بھٹو کا شہر دیکھ سکوں گا ۔کراچی سے لاڑکانہ کا سفر بذریعہ سڑک آٹھ نو گھنٹوں سے کم کا نہیں ہم جب لاڑکانہ پہنچے تو رات گہری ہوچکی تھی لاڑکانہ پر اندھیرے کا سیاہ دبیز پردہ پڑا ہوا تھا سڑکوں پر کتے بھونک رہے تھے ، پیپلز پارٹی کے استقبالیہ کیمپوں پراکا دکا جیالوں کے ساتھ آگ تاپتے اونگھتے پولیس اہلکار نظر آئے ،میں نے بھی بسترپر پہنچنے میں دیر نہیں لگائی کہ کل گڑھی خدا بخش میں مصروف دن نے منتظر ہونا ہے صبح الارم پر آنکھ کھلی اور پھر میں نے کھلی آنکھوں سے جس لاڑکانہ کو دیکھا اس نے میرے سارے اندازے غلط ثابت کر دیئے۔ لاڑکانہ ویسا بالکل نہ تھا جیسا میں نے سوچ رکھا تھابلکہ اس سے برے حال کا تھا۔ میرے سامنے سڑک پر گداگرتھے،یا مدقوق چہرے والے لوگ، جنکی آنکھیں محرومیوں کی عکاس تھیں،لوگوں کے چہرے لباس اور سڑکیں کسی بھی شہر کی معاشی حالت کا اشاریے ہوتے ہیں یہاں سارے اشاریے ہی منفی تھے ،صفائی ستھرائی نام کو نہ تھی ،جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر لگے ہوئے تھے، وہیں ہم ایک ہوٹل پر ناشتے کے بعد گڑھی خدا بخش کی طرف روانہ ہوئے کچی پکی سڑک کے آس پاس کے مناظرسے وہاںکے لوگوں کی مالی حالت کا اظہار ہو رہا تھامجھے حبیب جالب مرحوم کا شعر یاد آگیا ہر بلاول ہے دیس کا مقروض پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے گڑھی خدا بخش میں بھی یہاں کے لوگوں کی مفلسی ،بے چارگی ،غربت اور بجھی بجھی سی آنکھیں طبیعت کو بوجھل کئے دیتی رہی اور پھربھٹو شہید کے مزار سے متصل میدان میں پیپلز پارٹی کی مقبولیت کاملمع بھی اتر گیا ۔بھٹو کے شہر میں، شہید باپ کی شہید بیٹی کی برسی پر بھی یہ میدان بھرا نہ جاسکا۔ واپسی پر لاڑکانہ شہر میں ہماری گاڑی خراب ہوگئی۔ مکینک کو دکھایا اس نے کہا وقت لگے گا اور یہ وقت گزارنے کے لئے میں آٹو پارٹس مارکیٹ میں گھومنے پھرنے لگا ۔ایک دکان والا کیڈٹ کالج پٹارو کا فارغ التحصیل ملا۔اس نے بیٹھنے کوکرسی دی اور پھر کچہری کرنے لگا۔میں نے لاڑکانہ کی حالت زار پر حیرت اور افسوس کا اظہار کیا تو وہ کہنے لگا’’سر! سب پیسے کمانے میں لگے رہتے ہیں ،غریبوں کا کون سوچتا ہے ،جہاں آپ ابھی کھڑے ہیں یہ تجارتی علاقہ ہے ۔یہ تو پھر صاف ستھرا ہے ز۔را آپ آبادی کی طرف جائیں وہاں کا حال تو دیکھیں ۔کچی گلیوںمیں سیوریج کا پانی بھراملے گا،کچرے کے ڈھیرملیں گے ،لاڑکانہ سے جانے کس بات کا انتقام لیا جارہا ہے۔ اس نے کہاہمارے لئے یہاں کچھ بھی نہیں ہے یہ جو سامنے پارک دیکھ رہے ہیں ناآپ یہ بھی جماعت اسلامی کے مولانا جان محمد عباسی کی مہربانی ہے ۔ اس کے بعد بھی میرا لاڑکانہ جانا ہوا مجھے نوڈیرو میں بھٹو خاندان کے گھرتک جانے والی شاندار سڑک کے کوئی اور تبدیلی دکھائی نہ دی آج بھی لاڑکانہ پہلے کی طرح مسائل کا گڑھ ہے۔ اور لاڑکانہ ہی نہیں سندھ میں جہاں جہاں ’’بھٹو زندہ ہے‘‘ لوگ سسک سسک کر مر رہے ہیں۔ میں 31مارچ2021میں نیویارک ٹائمز کی کور اسٹوری پر گلبہار شیخ کی تصویرنہیں بھولتا کرسی پر بیٹھے گلبہار شیخ کا سر افسردگی سے جھکا ہوا ہے اسکی ٹھوڑی اسکی تین چار برس کی بیٹی ردا کے سر پر جیسے ٹکی ہوئی ہے۔ سیاہ چمکدار آنکھوں والی ردا سامنے کیمرے کی آنکھ میں آنکھیں ڈالے دیکھ رہی ہے وہ پریشان نہیں کیوں کہ اسے ’’ایچ آئی وی‘‘ کے معنی نہیں وہ نہیں جانتی کہ اسکے بچپن کوموت کا گرہن لگ چکا ہے اور وہ اکیلی نہیںرتو ڈیرو کے 1076بچے ایچ آئی وی کا شکار ہیں۔ اس خوفناک صورتحال کے باوجود بھی حکومت لاڑکانہ میں ایڈز کنٹرول کے تین سنٹروں کو چار نہیں کرسکی۔ چند روز پہلے ہی سندھ کے کسی شہر میں بنائی گئی وڈیو کلپ دیکھنے کا اتفاق ہوا جس میں ایک بیمار بیہوش خاتون کوایک ایسی باربردارگاڑی میں اسپتال لایا گیا جس میں بھینس بھی پڑی ہوئی تھی،وہ ویڈیو ابھی تک سوشل میڈیا پرموجود ہے جس میں ایک بچہ کتے کے کاٹے سے ریبیز کے مرض میں مبتلا ہونے کے بعدسڑک پر آخری اکھڑی اکھڑی سانسیں لے رہا ہے ،دوماہ پہلے ایک انگریزی روزنامے کے رپورٹر نے انکشاف کیا تھاکہ سندھ کی 487سرکاری ایمبولینسوں میں سے 50 1خراب کھڑی ہیں ،حال ہی میں سندھ کے اسکولوں کے حوالے مرتب کی جانے والی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سندھ کے 49 ہزار اسکولوں میں 26 ہزار 260 میں پینے کا پانی نہیں،19 ہزار 479 اسکولز میں بیت الخلا کا نہیںاور 31 ہزار سے زائد اسکولز بجلی سے محروم ہیں جبکہ 21 ہزار 900 سے زائد اسکولوں کی چار دیواری نہیں،36 ہزار سے زائد اسکولوں میں کھیل کے میدان اور 47 ہزار سے زائد اسکولوں میں سائنسی مضامین کے لئے ضروری لیبارٹریز نہیں ہیں۔یہ سب پڑھ کر بندے کا ہاتھ دل پر آجاتا ہے کہ اس کے باوجود سندھ کے میزانیہ 2021-22میں سندھ سرکار کے وزیر اعلیٰ ہاؤس کا بجٹ943.3 ملین روپوں سے بڑھا کر1.805 بلین روپے کردیا گیا جس میں صرف چار کروڑ روپے تو تحفے تحائف کے لئے رکھے گئے ہیں،میں سوچ رہا ہوں کہ وزیرا علیٰ کو لاڑکانہ کے ایڈز زدہ بچوں کی کراہیں سنائی نہیں دیں؟ کیا کتے کے کاٹے سے تڑپتے بچے ان کی آنکھوں کے سامنے نہ پھر ے ہوں گے،کیا انہیں تھر کی ریت پر ننگے پاؤں چلتی بے نظیریں ٍیادنہ آئی ہوں گی ۔۔۔ میری کہیں شاہ صاحب سے ملاقات ہوتو میں پوچھوں کہ شاہ صاحب! یہ بے حسی کہاں سے لائے!