وہ جو کہتے تھے کہ بجلی کے بل مہنگے ہوں تو سمجھ لو حکمران کرپشن کر رہے ہیں، پچھلے تین سال میں وہ خود نہ صرف اس حوالے سے کچھ نہیں کرسکے بلکہ خود اس گناہ بے لذت کا شکار ہورہے ہیں۔ روپیہ انتہائی پستیوں کو چھو رہا ہے جس کی وجہ سے قرضوں کا حجم بھی بڑھ گیا ہے اور اشیائے ضرورت (گھی ، دالیں ، بجلی ، پٹرول) عوام کی پہنچ سے کوسوں دور بھی نکل گئی ہیں۔اب تو برملا فرماتے ہیں کہ مہنگائی کے جن کو واپس بوتل میں ڈالا ہی نہیں جاسکتا ۔لوگوں کی قوت خرید کو بحال کرنے کے لیے ان کی آمدنیوں میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہے! مہنگائی اور اس کے عوامل پر قابو پانے میں ناکامی پر جو بات آج کے حکمران کہنے سے شرما رہے ہیں یا پھر ان میں ایسا کرنے جرات نہیں ہے ، وہ یہ ہے کہ وہ بھی اتنے ہی مجبور ہیں جتنا کہ ان کے پیشرو تھے۔ یہ ویسی ہی مجبوری ہے جس کی وجہ سے ، بیوروکریٹ سے لیکر نیچے کلرک تک کرپشن میں ملوث ہوجاتا ہے۔ حکمرانوں کی مجبوریاں کچھ ایسی ہیں کہ انہیں ہر وہ کام کرنا پڑتا ہے ، جو عوامی امنگوں اور امیدوں پر پانی پھیر دے۔ انتخابات ہوتے ہیں تو سیاستدان جنہیں عوام اپنے خاندانوں اور برادریوں کی مخالفتیں اٹھاکر ، بڑے ارمانوں کے ساتھ اقتدار میں لاتے ہیں کہ ان سوئی ہوئی تقدیر جگا دیں گے انہیں بعد میں پتہ چلتا ہے کہ یا تو ان کے ہاتھ میں سرے سے اختیارات ہی نہیں یا پھر وسائل پر ایسی کھینچا تانی ہے کہ جس کے ہاتھ لاٹھی اس کی بھینس کا فارمولا چل رہا ہے۔ حکمرانوں کا منہ کھلے کا کھلے رہ جاتا ہے اور عوام دوبارہ کسی نئے خواب بننے والے سیاستدان کے انتظار میں لگ جاتے ہیں۔ حکمرانوں کے لیے ایک ہی راستہ بچتا ہے ،یا دوسرے لفظوں میں جسے کھلا چھوڑا جاتا ہے، وہ ہے عالمی مالیاتی اداروں سے قرضہ۔ چونکہ ملک کی معاشی ساکھ پہلے ہی دائو پر لگی ہوتی ہے ، زیادہ سود پر اور کم مدتی قرضے ملتے ہیں اور وہ بھی ان شرائط پر جن کو پورا کرنا ان کے بس میں نہیں ہوتا ( شخصی آمدنی پر ٹیکس، کرپشن کا خاتمہ اور نجی شعبے کے کردار میں اضافہ)۔ قرض لے تو لیے جاتے ہیں لیکن ان کا آٹے میں نمک کے برابر کے مصداق ہی نیچے پہنچ پاتا ہے۔ زیادہ تر سڑکوں اور عمارتوں کی تعمیر پر خرچ ہوتا ہے ، مزدور طبقے کے لیے کچھ روزگا ر پیدا ہوتا ہے ، باقی ٹھیکیداروں کی جیب میں (بشرط کمیشن ) چلا جاتا ہے۔ انسانی وسائل کی ترقی پر زیادہ خر چ نہیں ہوپاتا۔ قرضوں کی واپسی کا وقت آتا ہے تو حکمران دائیں بائیں جھانکنا شروع کردیتے ہیں کیونکہ اس دوران عالمی اداروں کی شرائط پوری نہیں ہو پاتیں کہ معیشت میں متوقع آسودگی آئی ہو۔ ایک ہی راستہ بچتا ہے ان کے پاس اقتدار میں رہنے کا کہ لازمی اشیائے صرف پر ٹیکس بڑھا دیے جائیں ۔ لازمی خدمات روک دی جائیں ، روپے کی قدر میں کمی کردی جائے ، تعلیم و صحت نجی شعبے کی حوس پر قربان کردیے جائیں ،سرکاری ملازمین کو مہنگائی سے بچانے کیلیے ان کی تنخواہوں میں اضافہ کردیا جائے۔ پچھلی صدی کی آخری دہائی کی صورتحال یہی تھی ، مشرف دور میں کچھ آسودگی پیدا ہوئی کہ امریکی امداد مل گئی تھی، جمہوریت بحال ہوئی تو پرنالہ واپس اپنی جگہ پر آگیا۔ دس سال حکمرانی کرنے والی پارٹیاں اقتدار سے اتنی بیزار ہوئیں کہ ڈھنگ سے انتخابی مہم ہی نہیں چلائی اور اقتدار ان کی جھولی میں آگرا جنہیں یا تو پتہ ہی نہیں تھا کہ کتنے بیسیوں سو ہوتے ہیں یا پھر وہ صرف جی حضوری والے ہی تھے۔ عالمی مالیاتی اداروں کی تابعداری میں اپنے اپنے پیشروئوں کو بھی مات دے دی ہے اور معاشی خودمختاری کا خواب (سی پیک ) ہی چکنا چور کربیٹھے ہیں۔ کسی بھی ملک کی کرنسی اس ملک کے حکمرانوں کے اخلاق و کردار کا پتہ دیتی ہے اور اس کی سرحدوں کے استحکام کی ضمانت بھی۔ دوسرے معنوں میں کرنسی حکمرانوں کی 'غیرت' کا اظہار ہوتی ہے۔ اس کے بارے میں عمومی رویہ ان کی غیر سنجیدہ ہونے کی دلیل ہوتا ہے کہ اس کی بے قدری انہیں عوام کی نظروں میں ہی بے توقیر نہیں کرتی بلکہ عالمی برادری میں ملک کی ساکھ کو نا تلافی نقصان بھی پہنچاتی ہے۔ ریاست کبھی بھی مجبور نہیں ہوسکتی ، صرف حکمران مجبور ہوتے ہیں ویسے ہی جیسے عدل کمزور نہیں ہوتا ، صرف جج کمزور ہوتے ہیں۔ریاست اپنی بقا کے لیے سب سے ضروری چیز جو مانگتی ہے وہ قومی غیرت ہے۔ حکمرانوں اور عوام کا نصب العین ایک ہوتا ہے ، معاشرتی استحکام فروغ پاتا ہے، معیشت ترقی کرتی ہے اور سرحدیں ناقابل تسخیر ہوجاتی ہیں۔حکمران عوام کے سامنے ہی نہیں ، عالمی برادری میں بھی سراٹھا کر چلتے ہیں۔ قومی غیرت کا فقدان ہو یا پھر نصیبِ دشمنا ں پیدا ہوجائے تو نسلی ، فرقہ وارانہ اور طبقہ جاتی تعصبات ریاست کی بنیادی کھوکھلی کردیتے ہیں۔ ظلم کی وہ داستانیں رقم ہوتی ہیں کہ انسانیت شرمندہ ہوکر رہ جاتی ہے۔ پانچ دریاوں کے مالک اور زرخیز خطے کے لوگ اب بھوک اور بیماری کے نرغے میں تو ہیں ہی، ان کے مجبورِ محض حکمرانوں کی ا قتدار کے ایوانوں میں حیثیت اور انجام پر ترس آتا ہے۔ ان کی مثال اس ڈولفن کی سی ہے جو ہمالیہ سے بہہ کر خطہ پاک میں آنے والے تمام دریاوں میں پائی جاتی تھی جب تک انگریز بہادر نے ان پر بند نہیں باندھے تھے اور ان کے کنارے اگے جنگلات کو کاٹ کر زمینیں نیلام نہیں کی تھیں۔ یہ مچھلی زندہ تھی اب صرف دریائے سندھ میں پائی جاتی ہے اور پانی گدلا ہونے کی وجہ سے اندھی ہوگئی ہے۔