ایک کہاوت میں زن‘ زر‘ زمین کو فساد کی جڑ بتایا گیا ہے۔پاکستان میں لینڈ مافیا کی دھونس دھمکی دھاندلی دیکھیں تو یہ مثل درست لگتی ہے۔مورخین حقائق کی بنا پر یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ مملکت خداداد میں کرپشن‘بے ایمانی لوٹ مار‘لالچ ہوس کی بنیاد قیام پاکستان کے بعد زمین کی غیر قانونی الاٹ منٹ سے شروع ہوئی۔ اس کرپشن میں ملوث تو سرکاری اہلکاروں سے لے کر وزیروں تک رہے مگر کلیدی کردار پٹواری کا تھا۔وقت کے ساتھ زمین،زر کا محفوظ اور مضبوط متبادل ثابت ہوئی۔ جس نے لینڈ مافیا کو جنم دیا۔آج یہ مافیا نہ صرف پورے پاکستان میں موجود ہے بلکہ اس قدر بااثر اور طاقت ور ہے کہ ریاست اس کے سامنے بے بس نظر آتی ہے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق ملک میں زمینوں کی غیر قانونی فروخت کا کاروبار 90 ہزار ارب سے زیادہ ہے۔ جس کی تائید وزیر داخلہ کی ایک پریس کانفرنس سے ہوتی ہے جس میں انہوں نے صرف اسلام آباد میں محض 33ہزار کینال زمین پر ناجائز قبضہ واگزار کروانے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس زمین کی مالیت 3کھرب سے زیادہ ہے۔زمینوں کے اس کاروبار میں پاکستان کے کل بجٹ سے بھی کئی گنا زیادہ پیسہ ہونا ہی مافیا کو مضبوط کرتا ہے۔ریاض خیر آبادی نے کیا خوب کہا ہے: دیکھتے ہی کسی کافر کو بگڑ جاتی ہے میں جو چاہوں بھی تو رہتی نہیں نیت اچھی کرپش کے اس دھندے میں بے پناہ دولت کی وجہ سے بڑے بڑے پاک دامنوں کی نیت اچھی نہیں رہتی۔ صوبائی اور وفاقی وزراء الزامات کی زد میں آئے۔ فروری 2021ء کی رپورٹ کے مطابق ڈی جی اینٹی کرپشن پنجاب نے صرف پنجاب میں ہی زمینوں پر قبضے کے معاملے میں مبینہ طور پر 53 بیورو کریٹس سمیت 117افسروں اور ملازمین کے بالواسطہ یا بلا واسطہ ملوث ہونے کا انکشاف کیا۔اینٹی کرپشن کی اس رپورٹ میں 2سابق چیف سیکرٹریز پرنسپل سیکرٹریز اور صوبائی دارالحکومت کے تین سابق ڈپٹی کمشنرز کا لینڈ مافیا کو زمینوں پر قبضے میں معاونت کرنے کاذکر ہے۔لینڈ مافیا کی طاقت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی سربراہی میں ہونے والے ایک اجلاس میں ایک ایم این اے نے اس وقت کے کمشنرکو ایک فہرست دیتے ہوئے کہا تھا کہ قبضہ مافیا کے خلاف آپریشن سے کی ان افراد کو نکال دیا جائے۔یہاں یہ اعتراف بھی ضروری ہے کہ جس وزیر اعلیٰ کی موجودگی میں ایم این اے نے قبضہ مافیا کو نہ چھیڑنے کا کہا تھا اسی سابق وزیر اعلیٰ نے پنجاب کا لینڈ ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کرنے کا منصوبہ بھی شروع کیا۔اس صورت حال میںتو ان پر سائل دہلوی کا یہ شعر صادق آتا ہے: جناب شیخ مے خانے میں بیٹھے ہیں برہنہ سر اب ان سے کون پوچھے آپ نے پگڑی کہاں رکھ دی وزیر اعظم عمران خان لینڈ مافیاز کے خلاف اپنے تائیں بھرپور ایکشن لینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔اس ضمن میں جو معاملہ سامنے آتا ہے اس پر حکومتی مشینری متحرک بھی ہو جاتی ہے ،کچھ معاملات میں پیش رفت بھی ہوتی ہے مگر سسٹم میں بیٹھے طاقت ور مگرمچھ آج بھی حکومتی اقدامات کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کر رہے ہیں۔ جس کی ایک مثال ایل ڈی اے ایونیو ون کے بلاک ایل کی دی جا سکتی ہے۔چند ماہ قبل کسی نے ایل بلاک میں ایک قطعہ اراضی پر تعمیرات شروع کیں۔ ایل ڈی اے حکام نے شکایت پر فوری ایکشن لیا اور چار دیواری گرادی۔ایل ڈی اے کے انچارج ڈائریکٹر نے اپنے ہی محکمہ کے ایل اے سی مزمل عارف کو خط لکھا کہ اس قطعہ اراضی پر ناجائز قبضہ کرنے والے شخص کے دعوے کی قانونی حیثیت کیا ہے؟ایل اے سی نے جواب دینے میںلیت و لعل سے کام لیا۔جواز ریکارڈ میسر نہ ہونے کا بتایا۔معاملہ چیف سیکرٹری کامران علی افضل تک پہنچا۔ ڈی جی ایل ڈی اے نے حقائق تک پہنچنے کے لئے تحقیقات کروائیں تو ایل اے سی نے ڈی جی ایل ڈی اے کو غلط رپورٹ دے کر گمراہ کرنے کی ناکام کوشش بھی کی۔ ڈی جی مخلص اور ذھین شخص ہیں، امید ہے معاملہ جلدحل بھی کر لیں گے اور ایل ڈی اے کے کروڑ وں روپے کے یہ پلاٹ ان کے حقیقی مالکان کو مل بھی جائیں گے مگر یہ سب اسی صورت ممکن ہو گا اگر ماضی کی طرح ریکارڈ آگ لگنے سے ضائع نہ ہو۔ایسا ہوا تو یہ پہلی بار نہ ہو گا، اس سے پہلے بھی کواپریٹو سوسائٹی کا ایک معاملہ عدالت تک پہنچا تو انکشاف ہوا تھا کہ ریکارڈ کو آگ لگ گئی تھی۔سرکاری اہلکاروںکی ملی بھگت سے ریکارڈ میں ردوبدل بھی کوئی نئی بات نہیں۔چند روز پہلے ہی لاہور ہائی کورٹ 1947ء میں جعل سازی سے 3ہزار 312کنال متروکہ وقف زمین الاٹ کروانے والے کو 10لاکھ جرمانہ عائد کر چکی ہے۔ یہ الگ بات کی اس جعل سازی میں ملوث سرکاری اہلکار مکھن میں بال کی طرح نکل گئے۔ توجہ طلب بات یہ بھی ہے جعل سازی پر عدالت میں فیصلہ ہونے میں 74برس لگے۔ ابھی سپریم کورٹ کا قانونی حق جعل سازوں کو میسر ہے۔ممکن ہے معاملہ مزید 74برس میں عدالتوں میں الجھایا جائے ۔ایل ڈی اے ایونیو ون کے معاملے میں اگر ایل اے سی کوئی ’’مہربانی‘‘ فرما جاتے ہیں تو یہ معاملہ بھی عدالتوں میں جائے گا۔ ایل ڈی اے نے 2003ء میں جن کو پلاٹ الاٹ کئے ان میں سے کئی ایک اپنا گھر بنانے کی خواہش میں قبروں میں جابسے ہیں۔ معاملہ عدالت گیا تو ان کی اولادیں بھی اپنے گھر کا خواب اپنے ساتھ قبروں میں لے جائیں گی۔ وزیر اعظم اگر لینڈ مافیا کے خلاف جنگ لڑنا چاہتے تو پہلے حکومتی اداروں کو مافیا کے معاونین سے پاک کریں۔ جو کروڑوں وصول کرکے اربوں کی سرکاری زمین ہتھیانے میں مافیا کی مدد کرتے ہیں۔اس کے ساتھ وزیر اعظم کو عدالتوں میں فوری انصاف کے لئے اصلاحات لانا ہوں گی تاکہ مافیا کو دولت کے بل بوتے پر معاملات دھائیوں لٹکانے کا موقع نہ مل سکے۔ اگر وزیر اعظم فوری انصاف کی فراہمی کے لئے اقدامات نہیں کر تے تو مافیاز بالخصوص لینڈ مافیا سے جنگ جیتنا ان کے لئے ممکن نہ ہو گا اور آخر ان پر بھی جون ایلیا کے بقول یہ منکشف ہو گا: رائیگاں وصل میں بھی وقت ہوا پر ہوا خوب رائیگاں جاناں