ان مشاورت کے دوران کئی نئے خیالات بھی سامنے آ سکتے ہیں چونکہ 2024 کے انتخابات کے لیے نچلی سطح پر مشاورت کے لیے بہت کم وقت باقی ہے، اس لیے ہر جماعت کی طرف سے ہر ضلع کو نمائندگی دیتے ہوئے کم از کم صوبائی مشاورت کا اہتمام کیا جائے۔ صاحب تحریر نے آگے چل کر لکھا،ہے کہ باخبر منشور: انتخابی منشور بنانے کا عمل عام طور پر خواہش پر مبنی ہوتا ہے نہ کہ مناسب تحقیق۔ اگرچہ سیاسی جماعتوں میں رائے عامہ کے سروے کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے، لیکن عام توجہ مسائل کی نشاندہی کے بجائے مختلف رہنماؤں کی مقبولیت کا اندازہ لگانے پر ہے۔ احتیاط سے تیار کیے گئے سوالنامے کی بنیاد پر رائے عامہ کے جائزوں کا استعمال اہم مسائل کی نشاندہی کرنے کی صلاحیت کو نمایاں طور پر بڑھا سکتا ہے۔ پاکستان میں، سیاسی جماعتیں، بہت کم استثناء کے ساتھ، پولنگ کے دن سے تقریباً دو سے تین ماہ قبل 20 سے 50 افراد پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دیتی ہیں۔ تین بڑی سیاسی جماعتوں پی ٹی آئی، مسلم لیگ ن اور پی پی پی نے 2018 کے انتخابات سے صرف 16، 20 اور 27 دن پہلے اپنے انتخابی منشور کی نقاب کشائی کی۔ یہ عمل اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ انتخابی منشور کو مختلف سطحوں پر مشاورت کے مناسب طریقے سے ترتیب دیئے گئے نظام کے نتیجے کے بجائے محض ایک رسمی سمجھا جاتا ہے۔ اصولی طور پر، کم از کم ضلعی سطح پر بات چیت کا انعقاد نہ صرف پارٹی کیڈر کو متحرک کرے گا، بلکہ اس سے انہیں پارٹی پالیسی کی تشکیل میں بھی حصہ ملے گا۔ ان مشاورت کے دوران کئی نئے خیالات بھی سامنے آ سکتے ہیں۔ چونکہ 2024 کے انتخابات کے لیے نچلی سطح پر مشاورت کے لیے بہت کم وقت باقی ہے، اس لیے ہر جماعت کی طرف سے ہر ضلع کو نمائندگی دیتے ہوئے کم از کم صوبائی مشاورت کا اہتمام کیا جائے۔اچھی طرح سے تیار کردہ انتخابی منشور سیاسی جماعتوں اور ووٹروں کے درمیان خلیج کو ختم کر سکتے ہیں۔ منشور، محض خواہشات کی فہرست نہیں: پاکستان میں تقریباً تمام انتخابی منشور محض خواہشات کی فہرستیں ہیں، جس میں کوئی سنجیدہ کام نہیں ہوتا کہ منشور کو عملی جامہ پہنانے کے لیے وسائل کو کس طرح متحرک یا دوسرے پروگراموں سے ہٹایا جائے گا۔ پاکستان جیسے وسائل سے تنگ ملک کے لیے، پالیسیوں اور پروگراموں پر سنجیدگی سے منصوبہ بندی کرتے ہوئے تجارت ایک فطری عمل ہے۔ اس لیے انتخابی منشور میں پارٹی کے مجوزہ تجارتی معاہدوں اور فنڈنگ کے خیالات کو پیش کرنا چاہیے۔ لیبر کے 2017 اور 2019 کے انتخابی منشور اچھے ماڈل کے طور پر کام کر سکتے ہیں کیونکہ ان میں الگ الگ دستاویزات موجود ہیں، جس میں بتایا گیا ہے کہ وعدہ کردہ پروگراموں کو کس طرح فنڈز فراہم کیے جائیں گے۔ 2017 اور 2019 میں لیبر کے منشور میں بالترتیب سات اور 40 صفحات پر مشتمل ضمیمے تھے جن کا عنوان تھا 'برطانیہ کے مستقبل کی فنڈنگ' اور 'حقیقی تبدیلی کی مالی اعانت'۔ یہ دونوں فنڈنگ دستاویزات ایک ٹیم کی طرف سے تیار کی گئیں جس کی سربراہی وزیر خزانہ کے شیڈو چانسلر کرتی تھی - ہماری زبان میں ایک شیڈو منسٹر آف فنانس اگر ہماری سیاست میں شیڈو کابینہ کا نظام ہوتا۔صوبائی منشور: پاکستان ایک وفاقی ریاست ہے اور بہت سی وزارتیں اور ڈویژن صوبوں کو دیے گئے ہیں۔ ایک پارٹی مرکز اور چاروں صوبوں میں بیک وقت اقتدار میں نہیں ہو سکتی۔ جماعتیں وفاق اور ہر صوبے کے لیے الگ الگ منشور تیار کریں۔ جماعت اسلامی نے حال ہی میں خاص طور پر خیبر پختونخوا کے لیے الگ انتخابی منشور کی نقاب کشائی کی۔ دوسری جماعتیں بھی ایسا کرنے پر غور کر سکتی ہیں۔ منشور کی پیشرفت کی نگرانی کے متعلق صاحب تحریر نے پارٹیوں کو ایک ایسا نظام وضع کرنے پر توجہ دینے پر زور دیا کہ وہ اقتدار میں آنے پر منشور کے مقاصد کے نفاذ پر پیش رفت کی نگرانی کریں اور منشور میں ایسے نظام کی وضاحت کریں۔ انہوں نے بجا طور پر درست لکھا ہے کہ اس عمل سے ایک ایسی پارٹی پر ووٹر کا زیادہ اعتماد ہوگا۔ جس کے منشور میں خود تشخیص شامل ہو۔ مسلم لیگ (ن) کے 2013ء کے منشور میں منشور پر عمل درآمد کا ایک مختصر باب شامل تھا لیکن اس پر عمل نہیں کیا گیا۔ پی ٹی آئی نے 2018 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد عمران خان کے پہلے 100 دن کے ایجنڈے پر عمل درآمد کی نگرانی کرنے کی کوشش کی اور نتائج آن لائن شیئر کیے لیکن پارٹی نے حکومت کے پہلے 100 دن کی میعاد ختم ہونے سے قبل ہی اس قابل تعریف اقدام کو ترک کردیا۔کلیدی مسائل کی چیک لسٹ: منشور میں مختصر، درمیانی اور طویل مدتی نوعیت کے اہم مسائل کی نشاندہی کرنی چاہیے اور ان کو حل کرنے کے ممکنہ طریقے تجویز کرنا چاہیے۔موجودہ تناظر میں، دہشت گردی سے نمٹنے کے ساتھ ساتھ، توانائی کے شعبے میں اصلاحات، برآمدات اور سرمایہ کاری کو بڑھانے اور سرکاری اداروں کی نجکاری پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے معیشت کو اولین ترجیح دینی چاہیے۔ انسانی ترقی میں بہتری،نظام انصاف میں اصلاحات،موثر مقامی حکومتوں کو برقرار رکھنا، ہم آہنگی کے لیے سیاسی مکالمے کا انعقاد اور پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات میں بہتری کے ساتھ ساتھ سول ملٹری تعلقات کو وسط سے طویل مدتی فوکس ہونا چاہیے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جہاں منشور کی اہمیت کو اجاگر کرنے کی اشد ضرورت ہے وہاں یہ بھی لازمی ہے کہ پاکستان کی موجودہ سیاسی گھمبیر صورتحال میں مجوزہ عام انتخابات میں تمام سیاسی جماعتوں بشمول پی ٹی آئی جو اس وقت بھی ہر طرح کے ریاستی جبر و تشدد اور حراستوں اور غیر آئینی جبری گمشدگیوں، ملک کی سب سے زیادہ مقبول جماعت ہے اس کو بھی مساوی طور پر انتخابی عمل میں حصہ لینے کا،موقع دیاجائے اور پاکستان کے انتخابی نظام کو "لاڈلے" ازم سے پاک صاف کیا جائے اور انتخابی عمل کو شفاف بنایا جائے، کاش پاکستان کے لکھاری برطانیہ کے حوالے دیتے وقت یہ بھی لکھیں کہ برطانیہ میں سیاسی لاڈلے تیار کرنے کی کوئی روایت نہیں ۔ یہاں پر انتخابات میں کسی ایجنسی کا کوئی کردار نہیں ہوتا خواہ وہ آٹے اور سیمنٹ کی ہی ایجنسی کیوں نہ ہو عوام کی رائے ہی مقدم ٹھہرتی ہے ۔