خواجہ عاطف رؤف سابق ٹسٹ کرکٹر، وسیم راجا، رمیض راجا کے ماموں زاد، ہمارے پڑوسی اور مسجد فیلو ہونے کے ساتھ ساتھ کتاب محب اور زندہ دل شخصیت بھی ہیں۔ شوق شوق میں جی سی سے ایم اے انگلش اور پی یو سے ایم اُردو بھی کر رکھا ہے۔ سود کی وجہ سے بنک کی افسری اور سیاسی مداخلت کی وجہ سے پی سی بی کی عہدیداری چھوڑ کر درویشی و دلداری کی خوشگوار اننگز کھیل رہے ہیں۔ ایک مکان کے کرائے اور کیے کرائے پر گزارا ہے۔ سابق لیجنڈری ٹسٹ کرکٹر ماجد خان کا وہ ہمیشہ بڑی محبت اور احترام سے تذکرہ کرتے، ساتھ ہی ہر بار اُن سے ملاقات کروانے کا عہد کرنا بھی نہ بھولتے۔ شاعر نے تو کہا تھا: قیامت کا دن آ گیا رفتہ رفتہ ملاقات کا وقت بدلتے بدلتے لیکن یہاں انتظار کے معاملات نے زیادہ طول نہیں کھینچا بلکہ الیکشن کے ایک دن بعد ہی خواجہ عاطف نے مژدہ سنایا کہ دس فروری کو گیارہ بجے، تقریباً ایک صدی سے معروف، کچھ عرصے سے متنازع اور متحرک علاقے زمان پارک میں جناب ماجد خان سے ہماری ملاقات طے ہے۔ جانے کا طریقِ کار بھی انھی کا طے کردہ تھا کہ پنجاب یونیورسٹی مین لائبریری کے چیف لائبریرین اور پیارے دوست جناب ڈاکٹر محمد ہارون عثمانی جو کتاب دار ہونے کے ساتھ کتاب یار بھی ہیں بلکہ ان معدودے چند لائبریرینز میں سے ہیں جو کتاب داری کی مہارت کے ساتھ ساتھ کتاب سے محبت بھی کرتے ہیں۔ خیر طے شدہ پروگرام کے مطابق گیارہ بجنے سے چند منٹ قبل ہم مال روڈ کے زیریں راستے المعروف فیض احمد فیض انڈر پاس کراس کر کے بائیں جانب واقع زمان پارک کا موڑ مڑ رہے تھے اور سوچ رہے تھے کہ یہ اِچھرہ موڑ، بھیکے وال موڑ اور مسلم ٹاؤن موڑ کی طرح محض ایک آبادی کا موڑ نہیں بلکہ یہاں پاکستانی سیاست ایک اہم موڑ مڑتی دکھائی دیتی ہے۔ یہ ایک ایسے مردِ حُر کی بستی ہے جو پاکستان کی موروثی، مجہول اور مکروہ سیاسی روایت کے راستے میں چٹان بن کے کھڑا ہو گیا۔ اپنی عالمی شناخت اور مفت کی عیش و عشرت کو پون صدی سے پاکستان پر چھائی یبوست کو دور کرنے کے لیے تج دیا۔ عوام کی ذہنی اور جمہوری آزادی کے لیے سمجھوتے کی بجائے قید کو ترجیح دی۔ ماضی قریب میں ایک عرصے تک یہ علاقہ میڈیا اور سوشل میڈیا کی سکرینوں کے ساتھ ساتھ نوجوان ذہنوںپر نقش رہا۔ گھر کے سامنے ایک شکستہ اور منحوس سی پولیس چوکی اب بھی ماضی قریب اور نئی نسل کے نصیب پہ پڑتی ہوئی خراش کی صورت موجود تھی۔ 1930ء میں اس خاندان کے ایک بزرگ زمان خان کے نام پہ یہ ’زمان پارک‘ نامی بستی قائم ہوئی، جسے چند مفاد پرست بدخواہوں نے 1923ء میں مسلسل بے سکونی کی علامت بنائے رکھا۔ دو ایک گھر آگے جا کے بائیں جانب ماجد خان کا مسکن تھا، گھر میں داخل ہوئے تو ستتر سال کی عمر میں بھی خوبصورت اور چاق و چوبند نظر آنے والے دراز قد ماجد خان ایک کلاسیکی طرز گھر کے وسیع و عریض لان میں دھری چار عدد کرسیوں اور ایک نفیس سی میز کے قریب ہمارے منتظر تھے۔ اس عظیم جہانگیر خان کے سپوت جو پنجاب کے پہلے ڈی پی آئی کالجز، آکسفورڈ سے پی ایچ۔ ڈی، کرکٹ اور جیولین تھرو کے کلر ہولڈر تھے۔ ہمارے اس تین رکنی وفد کا مختصر اور مشترکہ ایجنڈا کرکٹ اور ماجد خان سے محبت تھا۔ جب ہم نے کرکٹ کی دنیا میں آنکھیں کھولیں تو وہ ماجد خان، ظہیر عباس، عمران خان، سرفراز نواز، مشتاق محمد اور وسیم باری وغیرہ جیسے سُپر ستاروں کی روشنی سے چندھیا رہی تھیں۔ ہمارا ماجد خان سے براہِ راست ملنا آج بھی کسی خواب کی تعبیر جیسا تھا۔ ساڑھے تین گھنٹے کی اس خوشگوار ملاقات میں اس نوجوان بزرگ نے ایک بار بھی پہلو نہیں بدلا، جس سے مہمانوں کے چلے جانے کی تمہید عیاں ہوتی ہو بلکہ ہماری ہر بات، ہر خدشے اور ہر اعتراض کا جواب انھوں نے نہایت دانائی اور رعنائی کے ساتھ دیا۔ طویل نشست کے بعد اندازہ ہوا کہ کرکٹ کے ساتھ ساتھ تعلیم، تاریخ اور مختلف تہذیبوں کا مطالعہ و مشاہدہ و موازنہ اُن کی خاص دلچسپی کے موضوعات ہیں۔ ہماری تعلیمی پستی کی بابت ان کا دو ٹوک موقف تھا کہ جب تک ہم بچے کو ابتدائی تعلیم اس کی مادری زبان میں نہیں دیتے، یہ پستی اور مستقل احساسِ کمتری دور ہو ہی نہیں سکتے۔ ماجد خان جنھوں نے کیمرج سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی، نے بتایا کہ ہمارے گھر والوں کی طرف سے سخت ہدایت تھی کہ تعلیم اور کھیل پہ کوئی سمجھوتہ نہیں، یہاں آپ کو ہمیشہ اچھے گریڈ کے ساتھ نظر آنا ہے۔ کرکٹ کے زوال سے متعلق بھی ان کا خیال تھا کہ ہمیشہ سرکاری اور سیاسی مداخلت نے اس کا بیڑا غرق کیا ہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے بہت سے دلچسپ اور عبرت انگیز واقعات بھی سنائے۔ ان میں ایک یہ تھا کہ 1960-61 میں جب ایک سرکاری افسر آئی اے خان پاکستانی کرکٹ کے سربراہ تھے اور انڈین کرکٹ ٹیم کی آمد آمد تھی، انھوں نے اس خدشے کے تحت کہ کہیں ہم انڈیا سے ہار گئے تو میری سربراہی خطرے میں پڑ جائے گی، انڈین بورڈ کو خط لکھا کہ ’’ہم رمضان المبارک کی مصروفیات کی وجہ سے فی الحال آپ کے ساتھ کھیلنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔‘‘اس کے بعد اٹھارہ سال تک انڈین کرکٹ ٹیم نے پاکستان کا رُخ نہیں کیا۔حفیظ جالندھری نے ایسے خود غرض سرکاری مداخلت کاروں کی بابت کہا تھا: سر پہ راہی کے، سربراہی نے کیا صفائی کا ہاتھ پھیرا ہے ماجد خان، عمران خاں سے چھے برس بڑے ہیں۔ عمران کی خود سری، جوشیلے پن اور رشتہ داریوں کو خاطر میں نہ لانے کی عادت سے انھیں کچھ شکوے بھی تھے۔ دوسرے زاویے سے دیکھا جائے تو موروثی اور سمجھوتہ مارکہ سیاست کے تالاب میں یہی ان کی خوبیاںقرار پاتی ہیں۔ اسی نشست میں عمران خاں کے پڑوسی اعتزاز احسن اور ان کی والدہ کا بھی ذکر رہا،جن کے والد تحصیلدار اور والدہ گجرات کے ایک بڑے زمیندار گھرانے کی بیٹی تھی۔ انھوں نے کشمیر کی آزادی تک کھدر کا لباس پہننے کا تہیہ کیا تھا، جسے آخر تک نبھایا۔ اس ملاقات کے اگلے روز اُردو کی معروف افسانہ نگار محترمہ عظمیٰ مسعود نے پی ٹی وی کے خشک خبرنامے سے خوشگواری کی علامت بن کر ابھرنے والی ماضی کی خوبرو خبردار ماہ پارہ صفدر کو اپنے گھر میں ایک منعقدہ تقریب میں مدعو کر رکھا تھا، جن کی آپ بیتی ’میرا زمانہ، میری کہانی‘ کو اس عہد کی عمدہ خود نوشتوں میں رکھا جا سکتا ہے۔ محدود مہمانوں کی یہ نشست بھی ساڑھے چار گھنٹے برپا رہی، جس میں کتاب پر گفتگو کے ساتھ ساتھ ماہ پارہ سے زندگی کے انوکھے اور دلچسپ واقعات، کتاب سے اقتباسات نیز سرگودھا، لاہور اور لندن کی سکونت کا حال بھی سنا گیا۔ یاد رہے سید ضمیر جعفری نے ان کی بی بی سی کے لیے روانگی پر کہا تھا: ’’ٹیلیوژن سے سچائی تو پہلے ہی رخصت ہو چکی تھی، اب رعنائی بھی رخصت ہو گئی۔‘‘ یقین کریں ستر کا ہندسہ نہایت اعتماد سے عبور کیے بیٹھے، ماضی کے ان دونوں خوبصورت کرداروں کو دیکھ کے ظفر اقبال کا یہ شعر بار بار یاد آتا رہا: حسن اُس کا اُسی مقام پہ ہے یہ مسافر ، سفر نہیں کرتا