لاقانونیت ہو، ، بدامنی ہو۔ زندگی تلخ ہو، آزار ہو۔ایسے حالات میںہجرت ہی بہترین راستہ ہوتا ہے۔ لوگ روزگار کی تلاش میں جا رہے ہیں۔ دنیا کے بہت سے ممالک میں ہمارے جوان محنت مزدوری کرتے نظر آتے ہیں۔ جانے والوں کی تعداد وقت کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے۔ جن کے پاس پیسے ہیں وہ جانے کے لئے جائز راستے اختیار کرتے ہیں ۔جن کے پاس پیسے کم ہوتے ہیں یا جو دیار غیر میں جانے کے اصول پوری طرح نہیں جانتے وہ انسانی سمگلروں کے ہتھے چڑھ جاتے اور جان پر کھیلتے کسی نہ کسی ملک کی طرفٖ گامزن ہوتے ہیں۔ نوے کی دہائی میں کوریا جانے کا بہت رحجان تھا۔ وہاں ایک مزدور کو تقریباً پچاس ہزار مل جاتے تھے دس پندرہ خرچ کرنے کے بعد تیس پینتیس ہزار گھر بھیجا جاتا تو یہ گھر والوں کے لئے ایک بڑی رقم ہوتی۔مزے کی بات اس وقت کوریا کے لئے ویزہ نہیں تھا۔ سادہ انٹری تھی۔ انسانی سمگلر سینکڑوں بچوں کو ورغلا کر پانچ سے سات لاکھ تک وصول کرکے بنکاک لے جاتے اور وہاں سے کوریا منتقل کر دیتے۔کوریا کے امیگریشن والے ان سے پوچھتے کہ کس لئے آئے ہو تو وہ سمگلر کی طرف سے مہیا کیا ہوا ایک کاغذ اسے دکھا دیتے جس پر دعوت ہوتی کہ آپ نے ہم سے ہماری فلاں چیز کے بارے پوچھا ہے ،یہ اس کی کو الٹی ہے اور قیمت ہے آپ اپنا کوئی نمائندہ بھیج کر اس کی کوالٹی چیک کر لیں اور پھر آرڈر کریں۔ اس لیٹر کو دیکھ کر امیگریشن والے انہیں جانے دیتے۔ سیئول میں ایک علاقہ ہے’’ اتے وان‘‘، زیادہ تر پاکستانی اور مسلمان اسی علاقے میں رہتے ہیں۔نوجوان کوریا میں داخل ہو کر ٹیکسی لیتا اور سیدھا اتے وان کی مسجد میں پہنچ جاتا۔نماز کے وقت بہت سے پاکستانی وہاں آتے، نوارد کو دیکھ کر اسے ساتھ لے جاتے اور کسی فیکٹری میں لگوا دیتے۔کبھی کبھی کوئی امیگریشن آفیسر تھوڑا سخت مزاج ہوتا، وہ نوجوان سے پوچھ لیتا کہ کوریا کس لئے آئے ہو۔ دو ہی جواب تھے۔ سیر کرنے یا بزنس کرنے۔ ہر دو صورتوں میں جیب میں پیسے ہونے لازمی تھے۔ وہ پیسوں کا پوچھتے تو ان کے پاس کوئی جواب نہ ہوتا۔ پیسے تو انہوں نے پورا گھر نچوڑ کر اس ایجنٹ کو دے دئیے تھے۔ جیب میں کیا ہوتا۔ چنانچہ ایسا بد قسمت نوجوان دی پورٹ ہو جاتا اور واپس بنکاک کے کسی ہوٹل میں دوبارہ چانس کا انتظار کرتا،ان بیچاروں اور ان کے گھر والوں کو یہ پتہ ہی نہیں تھا کہ جو پانچ سات لاکھ ایجنٹ کو دئیے ہیں اس سے آدھے بھی اگر وہ جیب میں ڈال کر کوریا پہنچتے تو انہیں کوریا داخل ہونے سے کوئی روک نہ سکتا تھا۔ ہانگ کانگ اور چائنہ میں ایک وقت تھا بہت سے نوجوان مقیم تھے۔ لوگ چائنہ میں ایک کمپنی بناتے کہ یہاں کاروبار کرنا ہے۔ تین یا چار نوجوانوں کو یہاں سے پانچ لاکھ فی بندے کے حساب سے وصول کرکے اسے اپنی اس کمپنی کا ڈائریکٹر ظاہر کرتے اور چائنہ لے جا کر شنجن کے علاقے میں چھوڑ دیتے۔اس بندے کے پاس اب چائنہ کا ملٹی پل ویزہ ہوتا،وہ جب چاہے چائنہ آ اور جا سکتا۔ ہانگ کانگ ایک جزیرہ ہے اور شنجن مین لینڈ چین کا ایک شہر لیکن دونوں کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں۔ سمندر کی ایک بیس پچیس فٹ کی پتلی سی پٹی جس پر پل بنا ہے دونوں کو جدا کرتی ہے۔ہانگ کانگ کا ویزہ نہیں تھا۔ آپ ہانگ کانگ امیگریشن پر پہنچ کر چودہ دن کا ویزہ آسانی سے حاصل کر سکتے تھے۔ یہاں بڑی تعداد میں پاکستانی الیکٹرونک اشیا کا کام کرتے تھے۔ ہانگ کانگ ڈیوٹی فری تھا اور جاپانی الیکٹرونک اشیا بہت سستی۔ جب کہ چین میں ان کی امپورٹ پر پابندی کے سبب وہ اشیا بہت مہنگی تھیں۔نوجوان ہانگ کانگ سے دو اشیا خریدتے کہ دو لے جانے کی اجازت تھی۔وہ ان اشیا کے ساتھ بارڈر کراس کرتے ۔ شنجن میں گاہک پہلے موجود ہوتا۔ وہ اشیا اسے دیتے اور واپس ہانگ کانگ، یوں دن میں دو سے چار چکر لگا کر وہ مہینے کا دو یا تین لاکھ کما لیتے ۔ جب ہانگ کانگ نے ویزہ لاگو کیا تو یہ کاروبار بند ہو گیا اور بہت سے نوجوان واپس آ گئے۔ اس صدی کے شروع میں روسی ریاستوں کا راستہ قدرے محفوظ تھا۔ایشیا اور یورپ کے درمیان برفانی پہاڑوں پر نوجوانوں کو چھوڑ دیا جاتا کہ یہاں سے پار فلاں قصبہ ہے۔ وہاں فلاں سے رابطہ کرنا وہ آگے گائڈ کر دے گا۔اس انتہائی دشوار گزار راستے پر خطرہ تو کم ہوتا مگر موسم کی شدت جو برداشت نہ کر سکتا وہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا۔ جو بچ جاتے وہ یورپ پہنچ جاتے۔ترکی اور یونان میں بہت سے پاکستانی گروہ موجود ہیں جو جعلی دستاویزات پر آپ کو آگے بھیجتے یئں۔ اب آپ کی قسمت ہے کہ آپ خیریت سے پہنچتے ہیں یا نہیں۔ یہاں ارد گرد سے وہ خونی کشتیاں بھی مل جاتی ہیں جو آپ کو یورپ لے جاتی ہیں۔سوال مگر یہ ہے کہ لوگ اس قدر خطرہ کیوں مول لیتے ہیں۔ اپنے بچوں کو کیوں موت کی طرف دحکیلتے ہیں۔ غیر قانونی وہاں پہنچنے والا تو برسوں گھر والوں کو مل بھی نہیں سکتا۔ ماں باپ انہیں بھیج کر خود پر بھی ظلم کیوں کرتے ہیں۔ تو اس کا جواب ہماری بدترین معاشی صورت حال ہے۔ جس پر کسی حکمران نے کبھی توجہ ہی نہیں دی۔ یہ ملک معدنیات اور زراعت کے حوالے سے ایک بہترین ملک ہے۔ لیکن ان چیزوں پر جن سے اس ملک میں بہتری آ سکتی ہے کوئی توجہ ہی نہیں دیتا۔ ماضی کے حوالے سے اگر دیکھیں تو کوئی امید نظر نہیں آتی۔ کوئی بہتری نہ آئی تو ہماری اگلی نسلیں بھی اس ملک کو چھوڑ کر کہیں اور ٹھکانہ ڈھونڈھنے کا سوچیں گی۔ عملاً ہمارے حکمران بھی اس ملک کے شہری نہیں۔ ان کا سب کچھ اس ملک سے باہر ہے اور جب ان کی دلچسپیاں یہاں ختم ہو جائیں گی تو وہ بھی اس ملک کو چھوڑ کر چلے جائیں گے۔ پریشانی تو میرے جیسے لوگوں کو ہے کہ جن کا جینا مرنا اس ملک ہی میں ہے اور جو کسی لالچ میں آ کر بھی اپنی اس دھرتی سے تعلق توڑ نہیں سکتے۔ ہم اس دھرتی پر پیدا ہوئے اور اسی پر مرنا ہماری مجبوری ہے۔