آرمی چیف کی توجہ کے بعد یکایک ریاست کے تمام پرزے معیشت کی بحالی کی طرف چل پڑے ہیں۔امید پیدا ہوئی کہ ریاست کے نظر انداز طبقات اب سر اٹھا پائیں گے ۔ڈالر نیچے آ گیا،ہنڈی والے قابو میں آ رہے ہیں،سمگلر پناہ گاہ ڈھونڈ رہے ہیں،بجلی چوری کرنے والوں کے خلاف آپریشن شروع ہے۔ہماری توقعات میں سیاسی استحکام بھی شامل ہے لیکن اس کا مرحلہ شائد بعد میں آئے گا۔ ہم کئی برسوں سے پڑھتے اور پڑھاتے آ رہے ہیں کہ معیشت قومی سلامتی کا حصہ ہے۔ قدیم زمانوں میں جنگیں ٹریڈ روٹس پر قبضے کے لئے ہوتی تھیں‘ پھر ملکوں پر قبضہ کر کے ان کے وسائل ہڑپ کرنے کے لئے جنگیں ہوئیں۔ اب افواج کی موجودگی صرف دکھاوا ہوتی ہے‘ ایک صلاحیت کا اظہار ہوتی ہے کہ اگر کسی نے جارحیت کی تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا۔ جن ملکوں کی فوج نے معیشت کو ریڈ لائن بنایا وہ امریکہ‘ برطانیہ ‘ فرانس بن گئے‘ جہاں معیشت کی شکل کچھ اور بنی وہ شمالی کوریا بن گیا۔ ناگفتنی دلائل اور مباحث کالم کا حصہ نہیں بن سکتے اس لئے صرف قابل بیان نکات سے اس صورت حال کا تجزیہ کر لیں جو ہماری دہلیز پار کر کے کچن تک آ پہنچی ہے۔ وطن عزیز میں سب سے بلند چیخیں اس وقت مڈل کلاس کی سنی جا رہی ہیں۔ مڈل کلاس چونکہ سوشل میڈیا پر سب سے زیادہ فعال ہے اس لئے سوشل میڈیا دیکھ کر حالات کی تصویر بنانے والے قومی مسائل کو سوشل میڈیا کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر غریبوں کی مشکلات پر رونے والے سوشل میڈیا سے جڑے ہوئے ہیں۔ ایک طبقہ وہ ہے جو ناخواندہ ہے‘ جو بڑے شہروں سے دور قصبوں اور دیہات میں رہتا ہے‘ جو آئی ایم ایف‘ فیٹف‘ سیلز ٹیکس ‘ بجلی بلوں میں شامل نامعلوم کھاتوں اور حکومت کے معاشی بہتری کے منصوبوں سے لاعلم ہے۔ یہ ریاست کی سوتیلی اولاد ہے۔ صرف کہنے کو ریاست پاکستان کے شہری۔ ان کے دکھ اس وجہ سے ہم بیان نہیں کرتے کہ ہم ان میں سے نہیں۔ ہم ان میں جاتے نہیں۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی کوششوں سے ڈالر چند روز میں 21روپے نیچے آ گیا ہے۔ مطلب یہ کہ جب کوئی با اختیار طے کر لے کہ معیشت کو انتظامی صلاحیت استعمال کر کے سہارا دیا جا سکتا ہے تو یہ فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔سوال ہے کہ اسحاق ڈار بھی تو با اختیار تھے،ان سے پہلے شوکت ترین ۔ میرے ذہن میں پی ڈی ایم حکومت آتے ہی ڈالر کی قدر میں تیز رفتار اضافے کا معاملہ آتا ہے‘ فاریکس تنظیم کے سربراہ ملک بوستان نے تب بھی کہا تھا کہ ان کے پاس کچھ تجاویز ہیں جن سے ڈالر کی قدر نیچے لائی جا سکتی ہے۔ اسحاق ڈار لیکن کب کسی کی سنتے ہیں۔ اب آرمی چیف کی جانب سے دلچسپی لینے پر اگر ڈالر کے نرخ اتنی جلدی نیچے آ سکتے ہیں تو پچھلے سولہ ماہ میں کتنے ارب ڈالر کا نقصان صرف اس وجہ سے کیوں ہونے دیا گیا۔ سابق وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار اس کا کیا جواب دیں گے۔ چند سال قبل میرے ایک دوست کو کسی نے اپنے بندے کو قبائلی علاقے میں پولیٹیکل ایجنٹ لگوانے کا کہا۔ ان دنوں فاٹا کے پی میں مدغم نہیں ہوا تھا۔ ساتھ دو کروڑ روپے کی پیشکش کی گئی۔ اس نے ادھر ادھر بات کی تو پتہ چلا کہ پولیٹیکل ایجنٹ لگوانے کا معاوضہ 4کروڑ سے اوپر کا ہے۔ دوسرا بتایا گیا کہ یہ خطرناک معاملہ ہے‘ اسی طرح کے معاملے میں کمٹمنٹ پوری نہ کرنے کے باعث ایک اعلیٰ سیاسی شخصیت کے فرزند کو طویل عرصہ تک یرغمال رکھا گیا۔ ان دنوں بتایا جاتا تھا کہ روپے دے کر پولیٹیکل ایجنٹ لگنے والا ایک ہفتے میں خرچہ پورا کر لیتا تھا۔ اعلیٰ ترین سطح پر فیصلہ کرنے والے لوگ جانتے تھے کہ یہ پیسے سمگلنگ اور دوسرے غیر قانونی دھندوں کی سرپرستی کرکے پورے کئے جاتے تھے۔ معلوم تھا کہ تیل سمگلنگ کا معاملہ دو طرح سے اہم ہے۔ سرحدی علاقوں کے سردار اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ملک تیل کی درآمد پر بھاری اخراجات سے کسی حد تک بچ جاتا ہے۔ تیسرا یہ کہ اس دھندے سے کئی لوگ دولت اکٹھی کر رہے ہیں۔ ریاست پاکستان گروہوں اور تنظیموں کے سامنے کمزور ثابت ہوتی رہی ہے۔ جنرل عاصم منیر نے جرات دکھائی ہے۔ انہیں خطرے کا اندازہ ہوا ہے‘ یہ کام ان ایوانوں کو کرنا تھا جہاں مسلم لیگ ن‘ پیپلز پارٹی‘ تحریک انصاف‘ جمعیت علماء اسلام‘ جماعت اسلامی اور بلوچ و پختون قوم پرست جماعتیں بیٹھ کر بالائی طبقات کے کاروباری مفادات کا تحفظ کرتی رہی ہیں۔ پاکستانی معیشت ایک صفحہ پر ہے، جسے بجلی کا بل کہا جاتا ہے۔ دولت مند بجلی چوری کرتے ہیں‘ غریب اور مڈل کلاس ادائیگی کرتے ہیں کیونکہ ان کے پاس قانون شکنی کا لائسنس لینے کی استطاعت نہیں‘ جہاں نچلے طبقات کے ہاتھ میں ریاست کو بلیک میل کرنے کی طاقت ہے وہ بھی اس کا فائدہ اٹھا لیتے ہیں۔ آپ نے کبھی غیر منظور شدہ پارکنگ والوں‘ بس اڈوں والوں‘ کیبل فیس لینے والوں اور نجی ٹرانسپورٹ کمپنیوں کے عملے کا رویہ دیکھا ہے؟ اللہ آپ کو محفوظ رکھے۔ یہ گراس روٹ پر لوگوں کے استحصال کی علامتیں ہیں۔ پولیس ‘ پٹوار‘ ڈسکوز‘ صفائی‘ صحت کے محکمے تو ویسے ہی غریب مار ہیں۔ اب جب ریاست چلانے کا سارا بوجھ بجلی بلوں کے ذریعے غریب پر ڈال دیا جائے گا تو وہ عزت کا تقاضا تو کرے گا۔ مساوی اختیار کی بات تو کرے گا۔ دراصل یہی وہ مطالبہ ہے جس کے اثرات قومی سلامتی سے جا ملتے ہیں۔آپ کہہ سکتے ہیں غریب طبقات ملک میں بد عنوانی، بالائی طبقات کی لوٹ مار،اقتدار میں شراکت سے محرومی،بنیادی سہولیات نہ ملنے اور سرکاری ملازمیں کا خرچ اٹھانے کے باوجود عزت نہ ملنے پر مشتعل ہیں۔ان کا رد عمل شدید ہو سکتا ہے جس سے معیشت اور سلامتی کے خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ آرمی چیف معیشت میں بہتری کے لئے کردار ادا کرنا چاہتے ہیں تو اس پر تنقید کیوں؟کیا ہماری جمہوری حکومتوں نے کبھی معاشی روڈ میپ بنایا؟ اگر جواب نہیں میں ہے تو حالیہ کوششوں کے نتائج کا انتظار کریں۔