یہ جنوری1993 ء کی بات ہے جب پہلی دفعہ مجھے متحدہ عرب امارات کے دورے کا موقع ملا۔سات کے قریب قومی اخبارات کے صحافیوں کو یو اے ای کی حکومت نے دورے کی دعوت دی تھی۔ اسکی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ہندوستان میں بابری مسجد کی شہادت کے بعد جہاں دنیا بھر میں مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے ۔ یو اے ای میں بھی اس بارے میں خاصی تشویش پائی جاتی تھی۔ لیکن العین میں مقیم پاکستانیوں نے ہمارے ہاں رائج توڑ پھوڑ کاروایتی طریقہ احتجاج اختیار کیا۔ انہوں نے العین میں واقع ایک ہندو مندر پر حملہ کیا اور توڑ پھوڑ کی۔ امارات کے باسیوں کے لئے یہ ایک نیا تجربہ تھا کیونکہ وہاں پر اس قسم کے احتجاج کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا تھا۔اس واقعہ میں ملوث تقریباً 800 پاکستانیوں کو وہاں سے پاکستان واپس بھیج دیا گیا جس پر ہمارے ہاں کافی واویلا شروع ہو گیا۔ اس صورتحال میں دونوں ملکوں کے تعلقات میں کشیدگی کا امکان پیدا ہوا۔ حکومتی سطح پر روابط سے اس بارے میں ممکنہ کسی غلط فہمی کے ازالے کے لئے رابطے ہوئے‘ اسکے ساتھ ساتھ امارات کی حکومت نے یہ بھی صائب جانا کہ پاکستانی میڈیا کو بھی اصل صورتحال سے آگاہ کیا جائے۔جب ہم وہاں پہنچے تو ہمارا بہت پرتپاک استقبال ہوا، ہمارے دورے میں العین کے دورے کے علاوہ انکے دفتر خارجہ اور اس وقت کے وزیر تعلیم سے بھی ملاقاتیں بھی شامل تھیں۔دفتر خارجہ میں نوجوان افسروں سے ملاقات حیرت انگیز تک خوشگوار رہی۔ہمارے ہاں اس وقت عرب ممالک کے بارے میں عمومی تاثر یہ پایا جاتا تھا کہ نئی نئی تیل کی دولت ان ملکوں کو ملی ہے تو یہاں کے لوگ نہ تو تعلیم کی طرف بہت زیادہ مائل ہیں اور نہ ہی اہم قومی اور بین الاقوامی امور کے بارے میں بہت سوجھ بوجھ رکھتے ہیں۔امارات کے دفتر خارجہ کے دورے کے بعد اندازہ ہوا کہ وہاں کی نوجوان نسل نہ صرف تعلیم یافتہ ہے بلکہ رموز مملکت سے لے کر دنیا کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے بہت واضح سوچ رکھتی ہے۔ایک ہفتے کے دورے کے دوران اس بات کا باربار احساس ہوا کہ نئی امارات سلطنت کے بانی محترم شیخ زید بن سلطان النہیان کا وژن کس قدر روشن اور مستقبل کے تقاضوں کے حوالے سے بھرپور ہے۔ اس وقت سلطنت امارات جو کہ سات ریاستوں پر مشتمل ہے جس میں ابوظہبی اور دبئی بڑی ریاستیں ہیں ، جس مقام پر پہنچی ہے اور مستقل ترقی کی راہ پر گامزن ہے، یہ اسی وژن کا نتیجہ ہے۔ دوسری اہم بات جو ہم نے محسوس کی کہ پاکستان کے حوالے سے مجموعی طور پر بہت گرمجوشی پائی جاتی ہے۔خواہ حکومتی عہدیدار ہوں یا پھر عام عوام، سبھی پاکستان کے ساتھ تعلق کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔اسکی جھلک ہمیں العین کے دورے کے دوران دیکھنے کو ملی۔ جب ہم اس جگہ پہنچے جہاں مندر کو نقصان پہنچایا گیا تھا تو پہاڑوں کے اوپر موجود کچھ ہمارے ہم وطن جو اپنے ساتھیوں کی جلا وطنی پر ناراض تھے۔ انہوں نے ہماری گاڑیوں پر پتھرائو شروع کر دیا۔ خیر ہم زیادہ آگے نہ جا سکے تاہم ہمیں اس جگہ پر موجود مسجد جانے کا موقع ملا جس کو حکومت نے بجلی فراہم کر رکھی تھی لیکن سب سے حیرت انگیز بات یہ تھی کہ اس مسجد کے کنکشن سے پہاڑی کے اوپر واقع گھروں کے مکینوں نے کنڈے لگا رکھے تھے۔ جب ہم نے اپنے مقامی میزبان سے دریافت کیا کہ یہ غیر قانونی کنکشن ہیں اور یہ لوگ پتھرائو بھی کر رہے ہیں تو آپ اسکے خلاف کارروائی کیوں نہیں کر رہے۔ اس نے کہا کہ یہ ہمارے پاکستانی بھائی ہیں اور ان میں سے اکثر یہاں پر پاکستان سے غیر قانونی طور پر لانچوں سے پہنچے ہیں،یہ یہاں پر امارات کی ترقی میں ہاتھ بٹا رہے ہیں۔ پاکستانی ہونے کے ناطے ہم نے انکے ساتھ نرم رویہ اختیار کر رکھا ہے۔ تا ہم مندر کے گرانے میں جو لوگ ملوث تھے انکو ملک بدر کر دیا گیا ہے۔ دبئی میں بھی بہت خوشگوار ملاقاتیں رہیں جہان پر ہمیں گلف نیوز اور خلیج ٹائمز کے دفاتر کے دورے کا موقع ملا‘ اسکے ساتھ ساتھ دبئی میں سرکاری ٹی وی بھی دیکھا اور ایک پروگرام میں شرکت بھی کی‘ جو دورے کے بارے میں ہمارے تاثرات کے حوالے سے تھا۔ جبل علی کی نئی بننے والی بندر گاہ کو دیکھنے کا موقع بھی ملا۔ قدم قدم پرمحترم شیخ زید بن سلطان النہیان کی ملک کو ایک بہترین ریاست بنانے کی کاوشیں نظر آرہی تھیں اور یہ سلسلہ انکے جانشین جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اسکی جھلک یہاں پرگزشتہ پیر کو متحدہ عرب امارات کے 47 قومی دن کے موقع پر دیکھنے کو ملی ۔ جس میں امارات کی ترقی کے حوالے سے بہت کچھ مواد میسر تھا جبکہ کلچر سے روشناس کرانے کے لئے ایک ثقافتی طائفہ بھی اپنے فن کا مظاہرہ کر رہاتھا۔ امارات کے فوجی بینڈ مقابیل نے بھی اپنے فن کا بھرپور مظاہرہ کیا۔ متحدہ عرب امارات کے سفیر جوانسال سفیر حماد عبید ابراہیم الزابی نے مقامی ہوٹل میں ایک پر تکلف تقریب کا اہتمام کیا ہواتھا۔ وہ بہت پر جوش انداز میں مہمانوں کا استقبال کر رہے تھے اور بعد میں انفرادی طور پر بھی پورے ہال میں گھوم کر لوگوں سے ملتے رہے۔اس موقع پر مختصر سی گفتگو میں سفیر کا کہنا تھا کہ پاکستان ہمارا دوسرا گھر ہے ۔ ہمارے درمیان دوستی کی بنیاد محترم شیخ زید بن سلطان النہیان کی پاکستان اور اسکے عوام سے بے پناہ محبت تھی۔ ہم اس تعلق کو مزید مضبوط بنا رہے ہیں۔ تقریب کے مہمان خصوصی چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ تھے جبکہ مہمانوں میں وزرائ، اہم شخصیات اور غیر ملکی سفیر بڑی تعداد میں شریک ہوئے۔امارات پاکستان کی موجودہ اقتصادی صورتحال بہتر بنانے کے لئے ہر ممکن معاونت کر رہا ہے ۔ ایک آئل ریفائنری کے قیام کا اعلان پہلے ہی ہو چکا ہے۔ اسکے علاوہ سوات کی تعمیر نو میں یو اے ای نے بہت معاونت کی ہے جبکہ کچھ نئے ترقیاتی منصوبے بلوچستان میں شروع کئے جا رہے ہیں جنکی لاگت لاکھوں ڈالرز میں ہے۔ اس طرح ملکی معاشی ترقی کے ساتھ ساتھ بلوچستان کی تعمیر و ترقی میں بھی متحدہ عرب امارات اپنا حصہ ڈال رہا ہے۔