امسال بھی پورے رمضان بالخصوص اس ماہ مبارک کے آخری عشرے میں مسجد اقصیٰ درندہ صفت اسرائیلیوں کے محاصرے میں رہی۔ نمازیوں پر ناقابل بیان تشدد ہوا۔ مسجد اقصیٰ کے نمازی فریادکناں بنے رہے لیکن دنیا کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ کرہ ارض پر پون صدی سے ارض فلسطین اورارض کشمیر پر مظلوم مسلمان اپنی آنکھوں میں بسائے خوابوں کی تعبیر پانے ، فضائوں سے نور اترنے اور اندھیروں میں روشنیاں پھوٹنے کے انتظار میں جابر،غاصب اور ظالم قوتوں کے سامنے سینہ سپر ہیں، انہیں خاک اورخون کے کتنے ہی دریا درپیش ہوں لیکن اس کے باوجود ان کی سعی پیہم اور جہد مسلسل میں کوئی ناامیدی، جھول، تذبذب ، اشکال شبہ، فکری الجھائو ،جذباتی ہیجان اور خود سپردگی ہرگز نہیں پایا جا رہی ۔ وہ حق وصداقت کی علم تھامے ہوئے انصاف دلانے کے لئے بار بار اورلگاتا ر اپنی صدا بلند کئے ہوئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا امہ نے فلسطینیوں کوکتوں کے سامنے پھینک دیا ہے ۔ عرب حکمران تو پیٹھ دکھا کر اہل فلسطین سے غداری کے مرتکب ہو چکے ہیں اور وہ اسرائیل کے بانہوں میں بانہیں ڈال کر رقصان ہیں اگرکسی کوکوئی شک ہے توسوشل میڈیا پر وائرل کئی ویڈیوز کا نظارہ کریں۔وہ اب اہل فلسطین سے طعنہ دے رہے ہیں کہ ان کی وجہ سے اسرائیل کے ساتھ خامخواہ ہمارا دوری واقع ہوئی تھی۔ لیکن کیا اب عجم کے مسلمان بھی اہل فلسطین سے منہ موڑ گئے ہیں ۔پوری امہ مسلمہ ارض فلسطین سے ارض کشمیر تک مسلمانوں کو کٹتے مٹتے ہوئے ٹی وی کی سکرینوں پر دیکھ رہی ہے۔ مگران پر سکوت مرگ چھایا ہوا ہے اورعملی طور پرعالم ایک قبرستان کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ رمضان المبارک میں بیت المقدس مسجد الاقصیٰ میں فلسطینی نمازی خواتین وحضرات کے ساتھ اسرائیلیوں نے جس درندگی کا مظاہرہ کیا خون میں لت پت نمازیوں کی جگرچیر دینے والی ویڈیوز پر امہ کی خاموشی پراناللہ واناالیہ راجعون؟ کہاں گئی عربوں کی وہ غیرت اور جرات کہ جس سے قیصر وکسریٰ پر ہیبت طاری تھی ؟ کیا آج کے اہل عرب کا ایمان صرف مال و زر اورمسندکاجاہ و جلال ٹھرچکا ہے؟ بخدا اس طرح کی مجرمانہ طرزعمل سے صفحہ ہستی سے مٹ جائیں گے اورپتا بھی نہیں چلے گا انہیں۔ ریت میں سر چھپائے اور آنکھیں بند کئے جانے سے خطرے کب ٹلتے ہیں۔ وہ عرب جو اپنے راستے سے پتھر ہٹانے کی خواہش میں کانٹے بوتے چلے جا رہے ہیں اورجنہیں کل کی نسلوں کو اپنی آنکھوں سے چننا ہو گا ۔ افسوس ! فلسطین اورکشمیرکے معاملے میںوہ عملاََ دشمن کے سانجھے دار بنے بیٹھے ہیں۔یہود اور ہنودکے ساتھ ان کی معاشی شراکت داری کوئی رازکی بات نہیں۔ عربوں کی تمام دولت یہودی بینکوں میں پڑی ہوئی ہے جبکہ ان کے ممالک میں بھارت کے لاکھوں ہندو موج منا رہے ہیں۔؟ فلسطین اورکشمیر میں کافی مماثلت ہے دونوںعلاقے جبر و استبدادکا شکار ہیں۔ دونوں میں اہل ایمان کی نسل کشی ہو رہی ہے۔ کشمیر میں بھارت جب کہ فلسطین میں اسرائیل نسل کشی کر رہا ہے ۔اغیاردونوں کی زمینوں پربالجبراورفوجی قوت کی بنیاد پر قابض ہیں۔ اسرائیل ایک ناجائزاورجبری ریاست ہے جو فلسطینیوں کی زمین ہتھیا کر ایک سازش کے تحت وجود میں لائی گئی ہے ۔ امریکہ ، برطانیہ اور بھارت اسرائیل کی سرپرستی کر رہے ہیں۔جبکہ بھارت اپنے ہم پیالوں کے ہلہ شیری سے مقبوضہ ریاست جموںو کشمیر پر فوجی طاقت کے بل بوتے پر اپنے جابرانہ قبضے اورجارحانہ تسلط کو مستحکم کرنے کے لئے کشمیریوں پر ستم کے پہاڑ توڑ رہا ہے ۔ فلسطین اورجموں و کشمیر میں یکسان معرکہ برپا ہے جسے دونوں خطوں کے نہتے مکینوں نے جارحین اورقابضین اغیارکی مسلط کردہ کھلی جنگ کے عوض قبول کیا۔ نہتے اور بے بس اہل فلسطین اوراہل کشمیر کو ہتھیار کوئی نہیں دیتا ،پتھروں اورغلیلوں سے وہ اسلحے سے لیس دشمنوں کے سامنے سینہ سپرہیں۔ وہ صدیوں سے رزم آرائی کے فن سے بھی ناآشنا ہیں۔جارح فوجی جدید ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی کے ساتھ دونوں خطوں پر ٹوٹ پڑے تو اہل فلسطین اوراہل کشمیر نے اپنے جگر گوشوں کے لہو سے کوچہ و بازار میں چراغ جلادیئے۔ پون صدی سے مزاحمت سے دستبرار بھی نہ ہوئے۔ تھکنا،جھکنا اوربکنا دونوں کے سرشت میں شامل نہیں۔ دونوں خطوں سے لاکھوں کی تعداد میں مردان حر لہو میں نہا گئے ۔ غلامی کے اندھیروں کے مقابل ڈٹنے والے دنیا کو اپنی حالت زار کی طرف توجہ مبذول کراتے رہے مگرتوجہ تو دورکی بات ان کے مظالم کی داستان سننے کے لئے دنیا اس قدراندھی بہری بن چکی ہے کہ مظلومین فلسطین وکشمیر دہشت گرد ٹھہرے اوران مظلومین پر جو ٹینک ، توپ اوربم برسانے والے طیارے استعمال کر رہے ہیں وہ امن پسند، جمہوریت نواز اور مظلوم ٹھہرے۔ یہی بڑی طاقتوں کا کمال ہے کہ ہمارے قبلہ اول کو ہم سے چھین کر اسے اسرائیل کا مرکز قرار دے رہے ہیں۔ یہ المیہ نہیں تو کیا ہے کہ ایک تاریک ترین رات کے بطن سے لہو کے چراغ جلا کر امید صبح کے پیامبر بن کر ابھرنے والی کشمیری اورفلسطینی نسل ظلمت کے بھنور میں اس طرح پھنسی ہوئی ہے کہ انہیں اس بھنورسے نکالنے کے لئے کوئی اسلامی فوجی اتحاد سامنے آ رہا ہے نہ کوئی ناخدا ۔ آملیں گے سینہ چاکانِ چمن سے سینہ چاک بزمِ گل کی ہم نفس بادِ صبا ہو جائے گی آسماں ہوگا سحر کے نور سے آئینہ پوش اور ظلمت رات کی سیماب پا ہوجائے گی واضح رہے کہ 1948ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک ناروا اورظالمانہ قرارداد کے ذریعہ ارض فلسطین کو تقسیم کر کے ایک عرب اور ایک اسرائیلی ریاست قائم کرنے کا اعلان کیا۔ برطانیہ نے اس علاقے سے 1948ء میں اپنی افواج واپس بلالیں اور 14 مئی 1948ء کو اسرائیل کی ناجائز حکومت کے قیام کا اعلان کر دیا ۔ کئی بین الاقوامی رپورٹس میںجو اعدادوشمار بتائے جاتے ہیں ان کے مطابق 1948ء میں اپنے گھر بار سے بے دخل کئے گئے فلسطینیوں کی تعداد میں اب 9 گنا اضافہ ہو چکا ہے اور اس وقت فلسطین کے اندر اور باہر ایک کروڑ 24 لاکھ فلسطینی بے گھردربدر کی ٹھوکریں کھانے والی زندگی پر مجبور ہیں۔اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین کے مطابق اندرون فلسطین رجسٹرڈ اپنے گھروں سے بے دخل کئے جا رہے ہیں۔