بوجوہ زیادہ چل پھر نہیں سکتا۔ جسمانی ڈھانچے کو متوازن رکھنے کے لیے ہلکی ورزش کے علاؤہ کوئی کام نہیں۔ ٹی وی ترک کیے عرصہ ہوا۔ خبروں،تجزیوں اور تبصروں کے لیے البتہ اخبارات پر نظر رہتی ہے۔ معاشی بحران کے تناظر میں اٹھنے والا بیروزگاری اور مہنگائی کا طوفان سیاسی افق کو دھندلا رہا ہے۔ حکومت اور حزب اختلاف بجائے 'مل بیٹھ ' کر کوئی حکمت عملی وضع کرنے کے ایک دوسرے کو رگیدنے میں مصروف ہیں۔ مجھے ایک منجھے ہوئے تجزیہ نگار، محمد احسن یاتو، جو کرونا بحران کے دوران شاعر بن گئے اور اب تک صاحب دیوان( محصور وادی ) ہوچکے ہیں، کا ایک تبصرہ مسلسل یاد آرہا ہے کہ ہم بنیادی طور پر ایک مزاحیہ قوم ہیں۔ ایسا انہوں نے حالات حاضرہ کے ایک لائیو شو میں کہا تھا جسکی میں میزبانی کر رہا تھا اور موضوع سخن پچھلی حکومت کا پہلا بجٹ تھا۔ اس وقت میں نے انکے اس مختصر اور جامع تبصرے کو انکی سیاسی وابستگی کے تناظر میں لیا تھا لیکن اس میں پوشیدہ حکمت پر داد ادھار رہی ہے۔ بطور قوم جتنی ہماری مجبوریاں ہیں اور جتنے سانحوں سے ہمیں پالا پڑتا ہے، حس مزاح میں ہی ہماری نجات ہے۔ یوں سمجھوتے ہماری دانشمندی کا اظہار بن جاتے ہیں۔ اسی دانشمندی کا تقاضہ ہے کہ ہم چڑھتے سورج کو سلام کرتے ہیں۔ حکومت کو عقلمند اور حزب اختلاف کو بے وقوف سمجھتے ہیں۔ معدنیات کے ذخائر نہیں کہ ہم صنعت و حرفت کو فروغ دیں۔ لے دے کے ہمارے پاس زراعت ہے۔ مشکل سے پیٹ پال سکتے ہیں وہ بھی اگر موسم متوازن رہیں۔ ابھی تک جو معاشی ڈھانچہ کھڑا ہو سکا ہے وہ بھی امریکہ اور اس کے مغربی حواریوں کی مہربانیوں سے کہ انہوں نے ہماری افرادی قوت کو اپنی نظریاتی سرحدوں کے دفاع کے لیے استعمال کیا۔ ہم اپنے اس کردار کے سانچے میں ڈھلے تو اپنی مخصوص شخصیت کی تشکیل کر ڈالی۔ اب اپنا بھرم قائم کیے پھرتے ہیں۔ کوئی ہمیں ہماری حیثیت یاد دلا دے تو غداری جیسے الزامات سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ ہمارے موجودہ حالات وہی ہیں جو پہلے تھے۔ آمدنی کم اور خرچ زیادہ۔ انتظار ہے کہ عالمی افق پر حالات سازگار ہوں، کسی کو ہماری خدمات کی ضرورت پڑے اور خسارہ پورا ہو۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سے امریکہ نے ہمیں امداد کی بجائے قرضوں پر لگا یا، ہم نے گلچھڑے اڑائے، افغان جہاد کو لپٹا تو مزدوری ہی مل پائی، ہمارے پڑوس سے واپس جاتے امریکہ ہم پر کاہلی اور سستی کا داغ بھی لگا گیا۔ بیرونی قرضوں پر سود ہی اتنا ہے کہ انکی ادائیگی کے لیے ہمارے محصولات تک کم پڑ جاتے ہیں۔ ملازمین کی تنخواہوں اور دفاعی اخراجات کے لیے بھی قرضوں کی ضرورت ہے۔ باہر سے نہیں ملتے تو اندرونی ذرائع پر انحصار ہے۔ شرح سود بڑھا نا مجبوری ہے ورنہ اس سے بھی ہاتھ دھونا پڑیں گے۔ دوسرا راستہ اشیائے ضرورت پر ٹیکس ہیں۔ دالیں، خوردنی تیل اور پٹرولیم مصنوعات باہر سے منگاتے ہیں۔ یہ بھی محصولات کا ذریعہ ہیں۔ بجلی اور گیس مہنگی کرنا پڑتی ہیں تاکہ قومی خزانے کے حالات بہتر ہوں اور آئی ایم ایف سے قرضہ ملے۔ ایسا نہیں ہے کہ محصولات بڑھانے کے دیگر راستے میسر نہیں ہیں لیکن ان سے اشرافیہ (حکمران طبقے) کے اپنے مفادات پر زد پڑتی ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ کس پر بوجھ ڈالا جائے اور یہ بھی کہ کیسے۔ انکم ٹیکس میں اضافے ور مراعات کی واپسی دونوں طریقوں سے معیشت کو افاقہ مل سکتا ہے لیکن معیشت اور سیاست کا تال میل ایسا ہے کہ یہ ممکن نہیں۔ منڈی اور سیاست پر چند خاندانوں کا تسلط ہے جنکے مفادات کاروباری اور خونی رشتوں میں گندھے ہیں۔ انکے کاروبار بیرونی کاروباروں سے وابستہ ہیں۔ مطلب، بھڑوں کے چھتے کو ہاتھ لگانا۔ اب اتنی مجبوری ہو کہ کابینہ کا حجم تک کم نہ ہوسکتا ہو تو باقی آپ خود سمجھدار ہیں۔ اشرافیہ کی مجبوریاں اتنی بڑی ہیں کہ انہیں چھیڑنا سیاسی توازن بگاڑ سکتا ہے، ملک کو انتشار کی نظر اور ملکی سلامتی کو داؤ پر لگا سکتا ہے۔ سوال یہ نہیں کہ ہم اس نہج تک کیسے پہنچے بلکہ سر دست یہ ہے کہ اس بحران سے کیسے نکلا جائے۔ مسئلہ بلکہ 'پھسوڑی' یہ ہے کہ دوا اسی عطار کے لونڈے سے لینی ہے جو اس سارے قضیے کا سبب ہے۔ اشرافیہ کو بھی پتہ ہے کہ کیا ہونا چاہیے لیکن 'مجبور' ہے۔ تاہم معاملات تو چلانا ہیں۔ یہ بھی مزاح کا سہارا لیتی ہے۔ سنجیدگی کا تاثر دینے کے لیے 'قربانیاں' دیتی ہے۔ کچھ کر دکھانے کے لیے اپنے اندر غدار ڈھونڈھتی اور انہیں نشان عبرت بھی بناتی ہے۔ زیادہ دور نہیں جاتے۔ تبدیلی کے ڈرامے کو ہی دیکھ لیں، لوگوں کی زندگی میں انقلاب کے نعرے پر حکومت بنی، غذائی ذخیرے قربان کرکے آئی ایم ایف سے قرضہ لیا، سرمایہ دارانہ نظام کی چڑیں مضبوط کیں، مافیا کو مزید بے لگام کیا، سیاسی ناچاقی کو بڑھاوا دے، امریکہ پر الزام دھر، ایوان صدر اور دو صوبوں کی حکومت ہاتھ میں کر، اقتدار سے باہر ہوگئی۔ درجن بھر پارٹیاں اکٹھی ہو مہنگائی کے خلاف نعرے لگاتی ر میں آئیں، اپنی قیادت کو احتساب کے پنجے سے چھڑایا لیکن الزام تراشی کے علاؤہ کچھ نہیں کر پائیں۔ حالات مزید خراب ہوگئے ہیں۔ آئی ایم ایف قرضہ بھی نہیں دے ریا، قوم کو سو پیاز اور سو جوتے بھی کھانے پڑ رہے ہیں۔ قربانی کی بات کریں تو تحریک انصاف کا قومی اسمبلی سے باہر آنا، دو صوبائی حکومتوں سے ہاتھ دھونا اور اسکی اعلی قیادت کا اپنے اوپر بغاوت کا الزام لینا واضح مثالیں ہیں۔ مطلب، اشرافیہ وہ سب کچھ کر رہی ہے جو اسکے بس میں ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ سیاسی ڈرامے میں مزاح کے ساتھ ساتھ ٹریجڈی کا عنصر موجود ہے جو، بقول احسن یاتو، ہمارے قومی مزاج سے مطابقت نہیں رکھتی۔ ٭٭٭٭٭