فیوچر انویسٹمنٹ انیشیٹیو کانفرنس سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے معروف وژن 2030ء کا ایک اہم حصہ ہے ۔ جب انہوں نے عنان اقتدار سنبھالی گو روایتی حکمران اب بھی شاہ سلمان ہی ہیں، تب ہی انہیں مغرب کا کھلم کھلا دلارا سمجھا جانے لگا تھا حتی کہ سعودی شاہی خاندان کی تاریخ میں کبھی کسی فرمانروا کو مغرب نے اس بے تکلفی سے مخاطب نہیں کیا جس سے سعودی ولی عہد پکارے جاتے ہیں۔ انہوں نے آتے ہی، اور یہ آپ کو یاد ہی ہوگا کہ وہ کیسے آئے، سعودی شاہی خاندان کی عوام سے روایتی دوری کو پاٹنا شروع کیا ۔ وہ سعودی نوجوانوں کے ساتھ بے تکلفی سے شانے پہ ہاتھ رکھے سیلفیاں بنواتے نظر آتے جو بلاشبہ خوشگوار تبدیلی تھی۔ ساتھ ہی انہوں نے سعودی معاشرے کی روایتی جکڑبندیوں کو ڈھیلا کرنا شروع کیا جن میں خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت،نوکریوں میں ان کی شرکت اور دیگر ایسے معاملات شامل تھے جو سعودی معاشرے میں پہلے شامل نہیں تھے۔ظاہر ہے سعودی عرب کوئی عام مسلمان ملک نہیں ہے لہٰذا مسلمانوں کے لئے اس کی مرکزی مذہبی حیثیت کی حساسیت نے ان تبدیلیوں پہ سوال بھی اٹھائے لیکن سب کچھ کنٹرول میں رہا حتی کہ تاریخ میں پہلی بار سعودی عرب میں سال نو کا جشن بھی منایا گیا لیکن کوئی خاص رد عمل ظاہر نہ ہوا۔ ان تبدیلیوں کے حسن و قبح سے قطع نظر یہ دراصل محمد بن سلمان کی معاشی پرواز کی تیاری تھی جس کے لئے انہوں نے مغرب میں اپنی مملکت کا سافٹ امیج اجاگر کرنا تھا۔ کیا اپنے ہارڈ امیج کے ساتھ سعودی معیشت کو کوئی خطرہ تھا؟ظاہر ہے ایسا نہیں تھا لیکن محمد بن سلمان کے خواب کچھ اونچے تھے۔ وہ مغرب کو تیل بیچنا ضرور چاہتے تھے لیکن اپنے ملک کی معیشت کو اس کی انحصاری سے نکالنا چاہتے تھے ۔ لبرل معیشت میں سعودی عرب کا حصہ بس ایندھن کی حد تک کیوں ہو یہ ان کا خیال نہیں حقیقت تھی۔ان کاملک جو تیل کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے ان کے عنان اقتدار سنبھالنے سے قبل دو سال اسی تیل کے بحران کے باعث معاشی مشکلات کا شکار رہا۔سعودی عرب کے سالانہ ریونیو کا ستر فیصد اسی تیل پہ منحصر ہے ۔ 2015-17ء کے درمیان تیل کی قیمتوں میں انحطاط کے باعث آنے والے معاشی بحران جس سے مملکت ابھی تک نبردآزما ہے، نے محمد بن سلمان کو مجبور کیا کہ وہ معاشی انحصار کے نئے امکانات تلاشیں۔ سعودی عرب میں تیل کی دریافت کے بعد یہ غالباً تاریخ میں پہلا دور تھا جس میںمملکت کو سادگی اور کفایت شعاری کے راستے اختیار کرنے پڑے۔یہی وجہ تھی کہ سعودی عرب نے اوپیک کو تیل کی قیمتیں بڑھانے پہ راضی کیا اور کافی حد تک بحران پہ قابو پالیا۔ ادھر ایران امریکی پابندیوں کا شکار تھا اور یورپ اس سے سستا تیل خرید رہا تھا اور امریکہ سعودی عرب پہ دبائو ڈال رہا تھا کہ وہ تیل کی پیداوار میں اضافہ کرے۔تیل کی دولت پہ انحصار کو ایک بہت بڑا خطرہ اس جدید ٹیکنالوجی اور متبادل ایندھن سے بھی ہے جس میں اگلے دو عشروں میں زبردست انقلاب کی توقع کی جارہی ہے جب غالباً روایتی تیل اور اس کی مصنوعات کی جدید دنیا کو اتنی ضرورت نہ رہے گی جتنی اب ہے۔تیل کے اسی ڈالرفی بیرل کی اوسط قیمت پہ سعودی عرب سمیت تیل کے پیداواری ممالک کا اوسط فی کیپیٹا انکم اٹھارہ سو ڈالر تک ہے جو متبادل ٹیکنالوجی کے باعث 2030ء تک تیس فیصد کم ہونے کا خطرہ ہے۔اسی خطرے کے پیش نظر اوپیک نے پیداوار بڑھانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اس تناظر میں محمد بن سلمان نے نہایت تیزی سے اقدامات کرنے شروع کئے اور وژن 2030ء کا اعلان کیا جس کا ریاض کانفرنس ایک حصہ اور مستقبل کاشہر نیوم دوسرا حصہ ہے۔ جب پہلی کانفرنس کامیابی سے ہمکنار ہوئی تو شاہی مملکت کو اسلحہ فروخت کرنے والے ممالک بالخصوص امریکہ اور کینیڈا نے خطرے کی بو سونگھ لی اور امریکہ نے تاریخ کی سب سے بڑی 110 بلین ڈالر کی اسلحے کی ڈیل سعودی عرب کے ساتھ کرڈالی جس میں سے صرف 45 بلین ڈالر کے معاہدے اب تک تکمیل کو پہنچے ہیں۔ یہ خبر بھی شائد کچھ لوگوں کے لئے نئی ہو کہ اس معاہدے کے ساتھ ہی محمد بن سلمان نے اسی وژن کے تحت سعودی عرب کو اسلحہ سازی میں خود کفیل بنانے کا ارادہ بھی کرلیا جس کے تحت 2030 ء تک جب تیل سے حاصل ہونے والا ریونیو تیس فیصد تک کم ہو جائے گا، سعودی عرب اسلحہ درآمد کرنے کی بجائے پچاس فیصد اسلحہ اپنے ملک میں بنانے کے قابل ہوجائے گا۔اس طرح مغرب کو تیل بیچ کر جو ریونیو حاصل ہوتا تھا اب اسلحہ کی خرید کی صورت میں واپس مغرب نہیں جائے گا اور یہی وہ نکتہ ہے جو امریکہ کے لئے ناقابل برداشت ہے۔ جس کے لئے اس نے ایران کو مشرق وسطی میں کھلی چھوٹ دی اور اس کا ہوا کھڑا کرکے سعودی عرب کو اسلحہ بیچا۔اس لئے اس سے قبل کہ دوسری ریاض کانفرنس منعقد ہوتی جمال خشوگی کا قضیہ کھڑا ہوگیا۔اس قصے میں سوچنے والی بات تو یہ ہے کہ خود امریکی سی آئی اے نہ صرف صحافیوں بلکہ سربراہان مملکت کے قتل میںملوث رہی ہے۔ محمد بن سلمان اپنے ملک میں ولید بن طلال سمیت درجن بھر معززین کو الٹا لٹکا کے دھونی دیتے رہے لیکن امریکہ نے چپ سادھے رکھی اور اسے مملکت کا داخلی معاملہ قرار دیا ۔مخالفین کے خلاف کریک ڈاون ہوا امریکہ خاموش رہالیکن جمال خشوگی کا خون اتنا گرم تھا کہ یورپی اور امریکی ملٹی نیشنل کمپنیوں اور میڈیا گروپوں کا ضمیر جگا گیا اور انہوں نے کانفرنس کا بائیکاٹ کردیا۔دنیا کی امیر ترین شخصیات میں سے ایک اور ورجن گروپ کے مالک رچرڈ برنسن نے سعودی عرب میں نیوم منصوبے کے تحت خود کو اس کے دو سیاحتی اور دو خلائی منصوبوں سے علیحدہ کرلیا ۔اس کے علاوہ نیوم کے ایڈوائزری بورڈ کے چار ممبروں نے بھی استعفیٰ دے دیا حتیٰ کہ واشنگٹن میں معروف سعودی لابنگ فرم دی ہاربر گروپ نے اپنا معاہدہ سعودی عرب سے منسوخ کردیا ۔ یہ اور بات ہے کہ امریکہ کے ساتھ کچھ معروف سرمایہ کار کمپنیاں ہاتھ کرگئیں اور بائیکاٹ کے اعلان کے باوجود اپنے نمائندوں کو کانفرنس میں بھیج دیا ان میں امریکی انویسٹمنٹ بینک Goldman Sachs بھی شامل ہے۔امریکی دباو کے باعث پاکستان سمیت سو سے زائد سرمایہ کار کمپنیوں نے اس کانفرنس میں شرکت کی کیونکہ پیٹ تو سب کے ساتھ لگا ہوتا ہے اور سعودی عرب نے 56 بلین ڈالر سے زائد کے معاہدے کرلئے۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ امریکہ سعودی عرب سے اپنی اسلحہ کی ڈیل منسوخ کرتا لیکن وہ نہیں ہوئی کیونکہ امریکی اسلحہ ساز کمپنیاں بوئنگ ، لاک ہیڈ مارٹن اور ریتھیان ایسا نہیں ہونے دیںگی۔ یہی وہ کمپنیاں ہیں جو سعودی عرب کے اسلحے کی وژن 2030 ء کے تحت مقامی پیداوار میں ٹھیکے دار ہونگی جس کے تحت سعودی عرب امریکہ اور مغرب پہ انحصار سے نصف آزاد ہوجائے گا۔کینیڈا بھی ہچکچاہٹ کا شکار ہے کیونکہ اسے ڈیل منسوخ کرنے کی صورت میں بھاری ہرجانہ بھرنا پڑے گا لہٰذا فی الحال محمد بن سلمان کے وژن کو کوئی بڑا خطرہ نہیں ہے سوائے اس کے کہ خاکم بدہن امریکہ کسی انتہائی اقدام پہ اتر آئے آخر شہزادے نے اڑان بھی تو اونچی بھری ہے۔