کسی بھی ملک کے مقابلے میں مصر کی تاریخ سب سے پرانی اور طویل ہے،وہاں کی قدیم عمارتیں اور مختلف ثقافتوں کا تصادم اسے باقی اسلامی ممالک سے نمایاں کرتا ہے۔مصر کی قدیم تہذیب وہاں کی قومی علامت بن چکی ہے جسے بعد میں یونانیوں‘رومیوں اور قدیم عربوں نے اپنے تہذیبی و ثقافتی رنگ میں رنگنے کی کوشش کی ۔مصر جو ایک عرصہ مسیحیت کا بڑا مرکز رہا‘ساتویں صدی عیسوی میں مسلمانوں نے یہاں اپنے قدم جمانا شروع کیے اور وقت گزرنے کے ساتھ یہ مکمل اسلامی ریاست بن گیا اور مسیحی برادری اقلیت میں چلی گئی۔سولہویں تا بیسویں صدی کے آغاز تک مصر پر بیرونی قوتوں نے حکومت کی‘ سلطنت عثمانیہ اور پھر سلطنت برطانیہ،جدید مصر کا آغاز ۱۹۲۲ء سے ہوا جب مصر کو برطانیہ سے آزادی ملی مگر یہ آزادی بادشاہت میں بدل گئی،یہ بادشاہت بھی برطانوی سامراج کی ایک چال تھی تاکہ مصر ان کی کالونی بنا رہے‘یہی وجہ ہے کہ جدید مصر بھی آزادی کے باوجود تیس سال برطانوی راج کے زیرِ تسلط رہا۔۱۹۵۲ء میں مصرمیں انقلاب آیا جس کے نتیجے میں برطانوی فوج اور اس کے افسروں کو ملک سے بھاگنے پر مجبور کر دیا گیا‘برطانوی نہر سوئز کی نج کاری ہوئی اورشاہ فاروق اول کو ملک بدر کر دیا گیا۔مصر کو مختلف ادوار میں کئی طرح کے تنازعات کا سامنا بھی رہا جس کی وجہ سے مصر میں مذہبی و سماجی اتار چڑھائو دیکھنے کو ملا ‘مصر میں ایک عرصہ سیاسی عدم استحکام بھی رہا مگر اس دوران بھی مصریوں نے اپنی تہذیب‘ثقافت اور فن کو فراموش نہیں کیا‘وہ لوگ سیاسی و سماجی بحران کے باوجود اپنی قدیم ثقافت سے جڑے رہے اور اندرونی و بیرونی سازشوں کے باوجود اپنی مٹی سے وابستہ رہے‘یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دو سے تین دہائیوں کا مصر‘قدیم مصرسے بہت مختلف ہے۔۱۹۴۸ء میں اسرائیل کے ساتھ تنازع تھا یا پھر ۱۹۵۶ء کا سوئز بحران‘۱۹۷۳ء کی جنگِ کپور تھی یا پھر ۲۰۱۱ء کا ایک اور مصری انقلاب،مصر ی عوام نے جمہوریت کی مضبوطی کے لیے قربانیاں دیں ‘انہی قربانیوں کی بدولت مصر کی خودمختار ریاست شمالی افریقہ،مشرقِ وسطیٰ اور عالم ِ اسلام میں ایک مضبوط حکومت مانی جاتی ہے۔ ۲۰۱۶ء میں جنوبی افریقا کو پیچھے چھوڑتے ہوئے مصر،نائیجیریا کے بعد افریقا کی سب سے بڑی معیشت بنا اور دمِ تحریر مصر مشرق وسطیٰ کی چند بڑی معیشتوں میں شمار کیا جا رہا ہے۔ میرا مصر سے پہلا تعارف ’’سفرنامہ روم و مصر و شام اور دوسرا’’نظر نامہ‘‘کے توسط سے ہوا‘یہ دونوں سفر نامے اگرچہ سند کی حیثیت رکھتے ہیں مگر ’’مصر:خواب اور تعبیر‘‘کا ذائقہ نہ صرف مذکورہ سفرناموں سے مختلف ہے بلکہ اس میں اسلامی تاریخ کی جھلک زیادہ نمایاں اور جزیات کے ساتھ دیکھی جا سکتی ہے۔میں اس سفرنامے کی قرات کے دوران نہ صرف مصر کی قدیم عمارتوں سے متعارف ہو رہا تھا بلکہ بعض مقامات پر تو یوں لگا جیسے میں خود مصر کی سیر کر رہا ہوں۔اس سفرنامے کاپہلا باب تاریخ و تہذیب کے عنوان سے ہے۔ کسی بھی شہر اور ملک کو جاننے کے لیے ضروری ہے کہ آپ اس کی تہذیب اور ثقافت سے کماحقہ واقفیت رکھتے ہوں‘شہر لوگوں سے نہیں بلکہ اپنی تہذیب سے زندہ رہتے ہیں اور اگر کوئی شہر یا ملک ثقافتی طور پر بنجر ہو چکا ہے یااس کے پاس اپنی تہذیبی شناخت ہی موجود نہیں تو سمجھ جائیں کہ اس کا وجود نہ ہونے جیسا ہے۔مصر سے مجھے جنون کی حد تک لگائو اس لیے بھی ہے کہ اس قدیم اور بابرکت شہر سے اسلامی تاریخ کو روشنی ملی‘یہاں کے درودیوار اور اہرامِ مصر کے پتھروں میں کیسی کیسی کہانیاں دفن ہیں،مذکورہ سفرنامے کے توسط سے معلوم ہوا۔ عام طور پر سفرنامے چند روز یا پھر چند ماہ کے تجربات کا نچوڑ ہوتا ہے ‘ڈاکٹر زاہد منیر عامر اس معاملے میں انتہائی خوش قسمت ثابت ہوئے کہ ان کا یہ سفر چند ماہ نہیں بلکہ تین سال پہ محیط تھا‘انھوں نے مصر کو صرف ایک سیاح کے طور پر نہیں بلکہ ایک ماہرتعلیم،محقق اور دانش ور کی آنکھ سے دیکھا ہے اور یہی ان کے سفر کی نمایاں خوبی ہے۔ ڈاکٹر صاحب مصر کو تین سال ایک متجسس سیاح کی حیثیت سے دیکھتے رہے‘ آپ اس سفر میں جس مقام سے بھی گزرے ‘شعوری اور غیرشعوری طور پر وہاں کے اخلاقی،تعلیمی،تعمیری ،معاشی اور سماجی حالات کا موازنہ و مقابلہ کرتے رہے۔آپ مصر کی جامعات‘علماء اوردانشوروںکے ساتھ ساتھ وہاں کے اعلیٰ حکام سے بھی ملاقاتیں کرتے رہے‘مصر کے نشیب و فراز اور اس کی وجوہات کو جاننے کی بھی کوشش کرتے رہے۔ڈاکٹر زاہد منیر عامر کا سب سے اہم کارنامہ وہ کالم ہے جو مصر کے سب سے بڑے اخبار ’’دی ایجپشن گزٹ‘‘میں قسط وار چھپتے رہے‘ان کالموں کے توسط سے پاکستان کے بارے اس منفی تاثر کو زائل کرنے کی کوشش کی گئی جو پاکستان مخالف قوتیں ایک عرصہ سے کر رہی تھیں۔دنیا کو ایک عرصے تک یہ بتایا جاتا رہا کہ پاکستان حالت جنگ میں ہے‘یہاں نہ تو ترقی کے مواقع ہیں اور نہ ہی ایسی نسل تیار کی جا رہی ہے جس کے پاس ذرخیز دماغ ہے‘اس پراپگنڈاکے خلاف ڈاکٹر صاحب نے جہاد کا کام کیا اور مصر کے اہم ترین انگریزی و عربی اخبارات میں پاکستان کے امیج کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔پاکستان کے بارے میں عربیوں میں جو تاثر پھیلایا گیا اس میں ہمارے ہمسایہ ملک کا بہت اہم کردار رہا۔مصر میں کئی اہم عہدوں پر فائز انڈین عمائدین،جنھوں نے پاکستانیت کا چہرہ مسخ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور ہمیشہ پاکستان مخالف ایجنڈے کو ہوا ۔ڈاکٹر صاحب نے اپنے لیکچروں‘کالموں اور کارنر میٹنگز میں عربوں پر یہ واضح کرنے کی بھرپور کوشش کی کہ پاکستان کے بارے میں جیسے ان کو بتایا اور دکھایا گیا‘ایسا بالکل نہیں۔ اس سفرنامے کا ایک اہم حصہ ’’مصری نقاد،غزل کا تصور اور حیرانی ہے‘‘ ہے۔پاکستانی ادب پر ایک مصری ادیب کے سوالات کو جس خوبصورتی اور فصاحت کے ساتھ مصنف نے بیان کیا‘وہ لائق تحسین ہے۔ڈاکٹر صلاح فضل کی سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین کے بارے درستی فرمائی اور انھیں پاکستان شناسی کے لیے پاکستانی مؤورخین کی کتابوں سے رجوع کا مشورہ دیا تاکہ وہ ہندوستان اور بالخصوص پاکستان کی تہذیبی و ثقافتی شناخت ‘لینڈ اسکیپ اور ادبی رجحانات سے واقفیت حاصل کر سکیں۔ڈاکٹر زاہد منیر عامر نے قیام ِ مصر کے دوران پاکستان اور مصر کے درمیان ادبی و ثقافتی خلیج کو ختم کرنے‘ پاکستانی تشخص کو مضبوط کرنے اور دونوں ملکوں کے عوام کو ایک دوسرے کے قریب لانے کے لیے وہاں کے کتب خانوں پہ بھی بہت کام کیا۔