ذکر ہے تب کاجب پانامہ کی روسے بڑے میاںصاحب باربارفرمارہے تھے ’’مجھے کیوں نکالا‘‘؟پرویزرشید،فوادحسن فواد،بڑی مریم اور چھوٹی مریم سب پریشان تھے۔مگرپنجاب کے خادم اعلیٰ چھوٹے میاں صاحب اسٹیبلشمنٹ کی ایک تواناشخصیت سے ملے۔دوستوںمیںخیال ظاہرکیاکہ لگتاہے کہ چھوٹے میاںکوبھی اب احتساب کے کڑے سے گزرناپڑے گا۔اسی طرح کا خیال ایک اورمیڈیاپنڈت کوبھی آیا۔اس نے پنجاب کے خادم اعلیٰ سے بات کی تووہ مسکرا پڑے۔یہ مسکراہٹ خاصی لائوڈتھی۔اب سے کچھ عرصہ پہلے ایک پنڈت کوانٹرویودیتے ہوئے وہ شکوہ بھی کرتے نظرآئے کہ میںنے تواپنی کابینہ کے نام بھی فائنل کرلیے تھے۔دوسری جانب خان صاحب کوبھی وزیراعظم ہائوس سامنے نظر آ رہا تھا۔ درمیان میں صرف2018کے انتخابات تھے۔ بات مگرچھوٹے میاں صاحب کوکچھ عرصے بعدسمجھ آئی۔جب انہیں یادآیاکہ 2018سے پہلے میاں نوازشریف اورمریم اسٹیبلشمنٹ پرکتناگرجے اورکتنابرسے تھے۔نتیجہ؟سیاسی جل تھل ہوگیامسلم لیگ(ن) کیلئے۔پنجاب میں ووٹ بنک تومسلم لیگ(ن)کاہے اوراسے بڑے میاں صاحب اپناووٹ تصورکرتے ہیں اورمریم بی بی خود کو اس کی وارث۔مریم نواز شروع ہی سے بے نظیر بھٹو کو اپنا آئیڈیل تصور کرتی ہیں۔ اس لیے مریم جونیئر اکثر مریم نواز اور بے نظیرکواکٹھابریکٹ کرنے کی کاوش وکوشش کرتی رہتی ہیں۔مگربہت فر ق ہے،بہت فاصلہ ہے دونوں کے خاندانی پس منظرمیں،تعلیم میں، مزاج میں یہاں تک کہ سیاسی ورثوںمیں بھی۔ اگر کسی کوکوئی شک تھاتومریم نے جس طرح کیپٹل ازم جیسااپنافیملی فنکشن ہینڈل کیاوہ ایک پڑھے لکھے سیاستدان کی نسبت ایک سوشل پاکستانی خاتون زیادہ نظرآئیں۔ اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ نوازشریف 2018ء کے الیکشن سے قبل بیمارکلثوم نواز کو چھوڑ کر نہ آتے توپارٹی کوشایدنقصان ہوجاتاالیکشن میں مگرآخری وقت پروہ اورمریم کے قریب ہوتے کلثوم نوازکے۔پانامہ کے بعداوربھی صدمے تھے مگرسب سے بڑاجذباتی جھٹکایہ تھاکہ وہ لندن میں نہ تھے جب کلثوم اس دنیاسے گئیں۔یہاں وہ مقام شمس وقمرآیاجب چھوٹے میا ںکی وساطت سے بڑے میاں صاحب لندن چلے گئے۔حکمران پارٹی کی چیخ وپکارویسی ہی تھی جیسی نون نے تب کی تھی جب مشرف دور میں اس کی مرضی کے خلاف باہر جا رہے تھے۔کہیںطے پایاکہ بڑے میاں صاحب کے بعدبڑی مریم بی بی بھی لندن چلی جائینگی اور نون اورجنون آپس میں زورآزمائی کرینگے جس میں میاں شہباز کے ہمنوا ہونگے پارٹی کے قدآور بڑے۔ مگریہ نہ ہوسکاکیونکراورکیسے؟یہ کہانی پھر سہی۔ مگریہ کہ مریم نے پاکستان میںاوربڑے میاں صاحب نے لندن میں دھاڑناشروع کر دیا۔ پاکستان کی تاریخ میںپہلی بارہواکہ سیاستدان نے اسٹیبلشمنٹ کوبراہ راست لکارنا شروع کردیا،ماضی کی تاریخ کو خاطرمیں نہ لاتے ہوئے ۔پی ڈی ایم گجرانوالہ کے جلسے میں لندن سے کی گئی تقریربلاول اور مولانا یہاں تک کہ خواجہ آصف، ایاز صادق اور رانا تنویر جیسوں کوبھی حیران وپریشان کرگئی۔یہ ایک سیاسی کارڈ تھا۔ ایک نپاتلہ رسک۔مگراس کے نتائج اتنے برے نہ تھے مسلم لیگ (ن)کیلئے۔اس کے مزید اثرات موجودہ سال میں مزیدظاہرہونگے۔ اس وقت اقتدارکے کھیل کی فرنٹ لین میں عمران خان، نوازشریف، آصف زرداری اور شہباز شریف فرنٹ لائن کھلاڑی ہیں۔ عمران 70 کے ہیں، بڑے میاں 72،آصف زرداری 66 اور شہبازشریف بھی70کے ہیں۔ 2013 اور 2018ء میںخان صاحب نوجوان نسل کے آئیڈیل تھے۔اپرمڈل کلاس کی ایسی یوتھ بھی ان کے دھرنوںمیںآتی تھی جن کے بڑے خان کے خلاف شطرنج کی بساط کاحصہ ہوتے تھے۔ مگر آج 2022ء ہے۔اب ایسانہیں ہے۔ پنڈت کہتے ہیں پنجاب کامطلب اسلام آباد اور اسلام آباد کا مطلب پوراپاکستان ہے۔پنجاب سے اسلام آباد کا راستہ راولپنڈی سے ہو کر جاتا ہے۔ پنجاب میں مسلم لیگ(ن)کی عوامی مقبولیت میں اگرکوئی کسر تھی تووہ پچھلے تین سالوں میں پوری ہوگئی ہے۔ مریم انتظارکرناچاہتی ہے 2022 یا 2023 تک کہ مریم سمجھتی ہے کہ اس کے پاس ابھی چندسال ہیں سیاسی وکٹ پر کھڑے رہنے کے لیے یا پارٹی کی لیڈرشپ کا فیصلہ ہونے تک۔ شاید یہ وقت بڑے اور چھوٹے میاں کے پاس نہیں۔ مریم نے ابتدا اینٹی اسٹیبلشمنٹ لائن اور لینتھ کے ساتھ کی۔ تب ان کے مشیر عرفان صدیقی،جگنومحسن اور پرویز رشید تھے۔ مگرجلدہی انہیں رسے پرچلنے کا فن آگیا۔یہی وجہ ہے کہ اب وہ حکومت کوہٹ کرتی ہیں مگر اسٹیبلشمنٹ کو نہیں۔ حمزہ کو گراس روٹ سیاست کا شعور ہے۔ اس کے مطابق ٹاپ پراسٹیبلشمنٹ ہوتی ہے اور بالکل ٹائم پرگلی محلہ سیاست۔ دونوں کا فائن کمبی نیشن اقتدارکی ضمانت ہے۔ چوہدری شجاعت اور پرویزالٰہی کی اگلی جنریشن کا واحد وارث مونس الٰہی ہے مگراس پارٹی اوراس کی لیڈر شپ کی اپنی حدود اور قیود ہیں۔ اگرچہ پاور سرکلز میںاسے کنگزپارٹی کہا جاتا ہے۔ بلاول کاسیاسی ورثہ کچھ قابل رشک نہیں۔مگراگلے الیکشن میںان کی پارٹی پنجاب میں حیران کرسکتی ہے جنوب کی حد تک۔ اسٹیبلشمنٹ کیلئے میاں شہبازشریف قابل قبول ہیںلیکن مسلم لیگ (ن) سمیت۔ پنجاب کی گلی محلہ سیاست حمزہ ہینڈل کرتے ہیں مگر مقبولیت کے اُڑن کھٹولے پرمریم سوارہے ۔ایسے پنجاب میں جہاں عمران کے مفاد ات سردارعثمان بزدار دیکھتے ہیں اورایسے پنجاب میںجہاںچوہدری ہیں ۔ اگر عمران 2022ء عبورکرجاتے ہیں ،ان کی مقبولیت کاگراف زیروسے بھی نیچے چلاجاتاہے تو پھر اسٹیبلشمنٹ کے پاس کیاآپشن ہونگے؟ پاکستان میںسیاسی روایات اوررواجات ہرقسم کے انقلاب کے لیے ممنوع ہے۔کسی نے کہاکہ کیا شہباز وزیراعظم بن سکتے ہیں؟کسی نے جواب دیا۔ ہاں۔اگربڑے میاںاورمریم مان جائیں۔ جواب آیابڑے میاں تومان گئے تھے توپھربات کیوں نہ بنی؟کسی کے لیے اسٹیبلشمنٹ کاراستہ کھلاہے اورکسی کیلئے پارٹی لیڈرشپ تیارنہیں۔