صرف ایک دن رہ گیا ہے۔مسلم لیگ ن کے سربراہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف اپنے وطن واپس آ رہے ہیں۔ان کے لئے تیاریاں مکمل ہوچکیں، سیاسی سٹیج سج چکا ، قانونی مشکلات بھی دور کر دی گئیں۔ یوں لگ رہا ہے کہ میاں نواز شریف کئی اطراف سے ٹھوس ضمانتوں کے بعد واپس آ رہے ہیں۔ ان کے قریبی ساتھیوں کے چہرے کِھلے ہوئے ہیں، آنکھوں میں مسکراہٹ اور آنے والے خوشگوار دنوں کے سپنے سجے ہیں۔ ان سب کو یقین ہے کہ ان کی پارٹی میدان مار لے گی اور میاں صاحب چوتھی بار وزیراعظم بن جائیں گے ۔ ہلکا سا شک بھی نہیں کہ ایسا نہیں ہوگا۔ ان کے لہجے میں کمال درجے کا یقین جھلکتا ہے۔ ویسے ابھی اس کے لئے الیکشن کا معرکہ سر کرنا باقی ہے۔، ابھی تک جو بھی سروے آئے یا پنجاب کے مختلف حلقوں کی فیلڈرپورٹس آئی ہیں، وہ ن لیگ کے لئے زیادہ امیدافزا نہیں۔لاہور ن لیگ کا طویل عرصے سے گڑھ رہاہے ، پچھلے عام انتخابات میں بھی ن لیگ نے یہاں سے میدان مار لیا تھا، تحریک انصاف کو تب قومی اسمبلی کی صرف تین نشستیں مل پائی تھیں۔ اب لاہور کے حوالے سے بھی باخبر صحافی اور مستعد رپورٹر اپنے حلقہ جاتی رپورٹوں کی بنیاد پر حیران کن خبریں دے رہے ہیں، ایسی خبریں جو لاہوریوں کے دل پلٹ جانے اورطویل عرصہ یہاں راج کرنے والی سیاسی جماعت سے بیزاری کی اطلاع دے رہی ہیں۔ میاں نواز شریف کے لئے سب سے بڑا چیلنج اپنے اس پرانے ووٹ بینک کو پھر سے ساتھ جوڑنا اور اسے الیکشن ڈے میں استعمال کرنا ہے۔ یہ کام اتنا آسان نہیں۔ اردو محاورے کے مطابق پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا ہے۔ آنے والے انتخابات میں نوجوان ووٹ بینک بہت اہم اور فیصلہ کن ہوگا۔ اٹھارہ سے پینتیس سال کا ووٹر الیکشن ڈے پر بہت کچھ الٹ پلٹ کر سکتا ہے۔ اس ایج گروپ میں ٹرن آئوٹ بھی زیادہ اچھا رہتا ہے اور یہ نئی نسل گزرے برسوں میں بہت کچھ سیکھ اور اخذ کر چکی ہے۔ نوے کی سیاست اب انہیں قبول نہیں، پرانے طور طریقوں اور سیاسی چالبازیوں سے بھی یہ متنفر ہیں۔ میاں نواز شریف کو ووٹر کے بدلے خیالات اور سوچ کے بارے میں آگہی ہوگی۔میاں صاحب کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ لندن میں بیٹھ کر بھی پاکستانی حالات سے باخبر رہنے کی کوشش کرتے ۔ انہوں نے اپنے طور پر اور مختلف ذرائع سے کئی فیلڈسروے کرا رکھے ہیں۔ میاں صاحب کو اچھی طرح معلوم ہے کہ کیا ہوا اور اس کے اسباب کیا ہیں؟ انہیں اپنی پارٹی کا بھی اچھی طرح اندازہ ہے، جس کے رہنمائوں اور اراکین پارلیمنٹ کی اکثریت کی عمرساٹھ برس سے تجاوز کر چکی ہے۔ن لیگ دراصل نئی نسل اور نوجوان ووٹر سے اپنا رشتہ جوڑ ہی نہیں پائی۔ماضی میں بھی تمام ترانحصار الیکٹ ایبل، دھڑوں کے جوڑتوڑ اور متوسط طبقے کی کاروباری برادری کو ساتھ جوڑے رکھنے میں رہا۔ شہری حلقوں میں یہ حکمت عملی کامیاب رہتی ہے، دیہی حلقوں میں وہ الیکٹ ایبل اور تگڑے امیدواروں پر انحصار کرتے ہیں۔ پچھلے سال سترہ جولائی اور سولہ اکتوبر کے ضمنی انتخابات میں ہم نے دیکھا کہ بھکر، مظفر گڑھ ، ڈی جی خان اور ننکانہ جیسے دیہی علاقوں میں بھی نتائج ن لیگ کے مخالف آئے۔ ان کے مضبوط امیدوار بھی الیکشن ہار گئے۔ میاں نواز شریف کے ذہن میں یہ سب کچھ ہوگا، اس کے لئے انہوں نے کچھ نہ کچھ سوچ بھی رکھا ہوگا۔ میاں صاحب کو یہ معلوم ہوناچاہیے کہ عمران خان نے انتخابی سیاست کے پچھلے تمام روایتی سٹرکچر توڑ دئیے ہیں، اب بہت کچھ بدل گیا ہے ۔ ہر یونین کونسل میں پہلے پانچ سات بااثر لوگ چند سو ووٹ ڈلوا سکتے تھے، اب ان کے ہاتھ سے یہ نکل چکا۔ اب یونین کونسل کی سطح پر ایسے لوگ جنہیں انفلیونسر (Influencer)کہا جا سکے، ان کی تعداد دس بیس گنا بڑھ چکی ہے، پچاس ساٹھ سے سو، ڈیڈھ سو افراد تک ۔وجہ یہ ہے کہ برادریوں کے بڑوں کی بات ان کے اپنے بچے نہیں سنتے، برادری کے نوجوان ووٹر کہاں سنیں گے۔یہ وہ چیز ہے جس کا ن لیگ نے پہلے کسی الیکشن میں سامنا نہیں کیا۔ میاں صاحب کے لئے دوسرا بڑا چیلنج اپنی پارٹی کا پرکشش سیاسی بیانیہ تشکیل دینا ہے۔ جو اطلاعات اور خبریںلندن سے چھن چھن کر ہم تک پہنچیں، ان کے مطابق میاں صاحب ایک خاص طرح کا اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ بنانے کے متمنی تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ ان تمام سولین، غیر سویلین لوگوں کو مطعون کرنے میں سب زور لگا دیں جنہوں نے چھ سال قبل انہیں حکومت اور پھر عملی سیاست سے الگ کیا۔ ممکن ہے وہ اب بوجوہ وہ یہ بیانیہ نہ بنا سکیں۔ میاں نواز شریف کو یہ بات مگر معلوم نہیں کہ وہ لوگ جن پر انہیں شدید غصہ ہے، ان میں سے اکثر آج غیرمتعلق (Irrelevent)ہوچکے ، لوگوں کو ان سے کوئی دلچسپی نہیں۔ ہم سوشل میڈیا کی دنیا میں جی رہے ہیں، جہاں ایک ٹرینڈ بمشکل اڑتالیس گھنٹے نکال پاتا ہے۔ چھ سال پہلے کے جج جو آج ریٹائر ہوچکے ہیں، ان سے کسی کو کیا دلچسپی؟جسٹس ثاقب نثار ہوں، آصف کھوسہ یا کوئی اور ، سوشل میڈیا میں ان پر ایک سطر بھی نہیں لکھی جاتی۔ حتیٰ کہ سابق عسکری سربراہان تک بھی نوجوان نسل میں آج زیربحث نہیں ۔ لوگ اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں،انہیں ملکی معیشت سے بھی زیادہ دلچسپی اپنی معیشت بہتر بنانے میں ہے۔ نئی نسل سسٹم کو بہتر سسٹم چاہیے، نظام میں اصلاحات چاہئیں۔ روزگار کے بہتراور جدید مواقع اور پولیس کچہری کے روایتی ظالمانہ معاملات سے آزادی۔ ن لیگ کا بیانیہ سامنے آئے گاتو درست اندازہ ہوپائے گا۔ میاں نواز شریف کے لئے تیسرا اور سب سے بڑا چیلنج ملک میں سیاسی استحکام پیدا کرنا اور سیاسی تلخی کم کرنا ہوگا۔ انہیں سیاسی انتقام لینے کے بجائے رواداری اور برداشت کی سیاست کرنا ہوگی۔ پاکستانی سیاست اس وقت شدید پولرائزایشن کا شکار ہے، اگر اسی طرح صورتحال رہی اور الیکشن ہوئے تو اس کے بعد بھی سیاسی تلخی اور عدم استحکام ختم نہیں ہوگا۔ سینئر صحافی اور تجزیہ نگار سہیل وڑائچ نے جو ن لیگ کے مخالف ہرگز نہیں ہیں، انہوں نے اگلے روز اپنے تجزیہ میں یہ لکھا کہ ملک آگے چلانا ہے تو نفرت کی سیاست ختم کرنا ہوگی۔ سہیل وڑائچ نے لکھا:’’میری خواہش ہے کہ جو زیادہ تجربہ کار ہے، جو چوتھی بار وزیراعظم بننے والا ہے، وہ پہل کرے اور انتقام کا یہ دائرہ توڑے ۔ملک کی سیاسی تقسیم کے بجائے مفاہمت کا ڈول ڈالا جائے۔کیا ہی اچھا ہو کہ وہ آئے اور آ کر کہے میرے مخالف کوجیل سے نکالو۔اگر ایسا ممکن نہ ہو تو جب اسے اقتدار ملے تو پہلا کام یہ کرے کہ اپنے مخالف کو جیل سے نکال کر اس سے مفاہمت کرے۔ اگر اس نے ایسا نہ کیا تو نہ وہ اور نہ ہی پاکستان آگے چل سکے گا۔ ‘‘ میاں نواز شریف کے لئے بظاہر سیاسی راستہ صاف ہوچکا ہے، مگر ان کے لئے سیاسی چیلنجز کم بڑے نہیں۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ میاں صاحب ان سے کیسے نمٹتے ہیں اور کیا حکمت عملی اپناتے ہیں؟