کشمیر عالمی اور علاقائی امن اور تجارت کی سرائے ہے۔اس مسئلہ کے تین حل اور تین حریف ہیں۔پاکستان‘ بھارت اور اسرائیل حریف ہیں۔ جب تک پاکستان کے پاس مضبوط ‘ طاقتور ‘ جہادی‘ جوہری اور نظریاتی قوت ہے۔بھارت اور اسرائیل آپس میںمضبوط حلیف ہیں کیونکہ ان دونوں کا بنیادی ہدف پاکستان کو کمزور اور جغرافیائی لحاظ سے شکست و ریخت کرنا ہے اور یہ کام پاکستان کے اندر اسلامی عصبیت‘ حمیت اور یکجہتی کے فکر و عمل کو پنجابی‘ بلوچی‘ پٹھان‘ سندھی‘ مہاجر جیسی علاقائی اور نسلی شناخت میں ڈھالنا ہے جبکہ بھارت اسرائیل کا گٹھ جوڑ مثالی ہے مگر کشمیر کے حل میں اختلاف ہے۔اسرائیل کو پاکستان کے آزاد کشمیر پر قبضے کے لئے مقبوضہ کشمیر کا کچھ حصہ خواہ ایک آدھ ضلع ہی کیوں نہ ہو کو آزاد اور خود مختار بنانا ہو گا اگر مقبوضہ کشمیر ایک چھوٹا سا رنگ‘ ٹکڑا دہلی سے جدا ہوا تو بھارت کی دیگر علیحدگی پسند ریاستوں کو یکجا رکھنا مشکل ہو جائے گا۔ سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی عالمی برادری کے توسط سے بھی اسرائیل کو مقبوضہ کشمیر میں آزاد‘ خود مختار خطہ دینے کو تیار نہیں تھے۔پاک بھارت دوستی نیز واجپائی اور نواز شریف کا بار بار وزیر اعظم بننا اور اترنا اور واجپائی کا مینار پاکستان‘ لاہور آنا اسرائیل کے خلاف مزاحمتی امن کا حصہ تھا۔مودی نے راہ کے سارے کانٹے ہٹائے مودی درپردہ جموں کا کچھ حصہ اقوام متحدہ کے توسط سے اسرائیل کو دینے کے لئے تیار ہے بشرطیکہ اقوام متحدہ آزاد کشمیر کو بھی آزاد‘ خود مختار متحدہ کشمیر کا حصہ بنائے۔پاکستان یا بھارت کے ساتھ الحاق کرنے میں آزاد اور خود مختار ہیں۔یہ کشمیری عوام کا جمہوری اور بنیادی انسانی حق ہے بھارت اور اقوام متحدہ اور کشمیر میں استصواب رائے کے حق میں بآمر مجبوری قوار داد اس لئے تسلیم کی تھی کہ قائد اعظم نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا اور حصول کشمیر کے لئے پاکستانی عوام اور فود کو عام جہاد کا حکم دے دیا تھا اور غیور قبائلی عوام نے کشمیر کا تقریباً 35فیصد علاقہ جہاد سے حاصل کر لیا تھا اور اب سری نگر اور باقیماندہ کشمیر بھی فتح ہونے کو تھا کہ بھارت‘ برطانیہ اور عالمی برادری بیچ میں کود پڑی اور پاکستان کو جنگ بندی کا جھانسہ دے کر ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا اور پاکستان تاحال ٹرک کی بتی کا سفر کر رہا ہے اور پاکستان میں حکومتی تبدیلی یا تبدیلیاں بھی اسی پس منظر میں ظہور پذیر ہوتی ہیں۔ اس وقت کشمیر کا علاقہ 3حصوں میں بٹا ہوا ہے۔تقریباً 50تا 55فیصد بھارت کے پاس ہے جو جموں ‘ وادی کشمیر اور لداخ ہے جبکہ تقریباً 35فیصد پاکستان کے پاس ہے جو آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کہلاتا ہے اسی طرح چین کے تقریباً 10فیصد ہے جو اکسائی جین ہاور ٹرانس قراقرام ٹریک کہلاتا ہے۔پاکستان کی کشمیر پالیسی کا سب سے زیادہ نقصان پاکستان کو پہنچا ہے۔بھارت اور اسرائیل نے پاک بھارت خفیہ سفارتکاری کا سلسلہ پاکستان نے شروع کیا۔بینظیر کے دور اول میں راجیو گاندھی کے پاکستان کے دورے کے موقع پر اسلام آباد اس مذکورہ فکروعمل کے حوالے سے پاکستان کی عمیق ترین ریاستی اسٹیبلشمنٹ(deepest state)کے مزاحمتی تحفظات موجود ہیں موجودہ آزاد کشمیر کے وزیر اعظم سردار الیاس تنویر کی عدالتی معزولی اسی فکر و عمل کا نتیجہ ہے یاد رہے کہ سردار الیاس تنویر برطانوی شہری بھی ہیں اور برطانیہ کے لاڈلے بھی۔اسرائیل خود مختار اور آزاد متحدہ کشمیر کے لئے عالمی طاقتوں اور اداروں کے ذریعے کھیل رہا ہے حتیٰ کہ اسرائیل نے بھارت کی خوشنودی اور اعتماد سازی کے لئے برطانوی وزیر اعظم بھارت نژاد ہندو رشی سیوک اور امریکی کی نائب صدر بھارت نژاد ہندو عورت کملا ہیرث کو نائب امریکی صدر بنا رکھا ہے کملا ہیرث کا شوہر صہیونی وکیل ہے۔ یاد رہے کہ عالمی اور علاقائی پالیسی کے حوالے سے بھارت اسرائیل کا مضبوط ترین دست و بازو ہے جو چین کی تجارتی اور پاکستان کی نظریاتی ناکہ بندی کے لئے اہم ترین شراکت دار ہے مذکورہ تناظر میں کشمیر کا مسئلہ بظاہر سادہ مگر انتہائی پیچیدہ ‘ مشکل اور خطرناک ہے اس راہ میں اب تک فقط ایک چٹان جیسی رکاوٹ حائل ہے اور پاک چین دوستی اور باہمی اعتماد ہے یاد رہے چین بارہا امریکہ‘ اسرائیل اور بھارت کو باور کرا چکا ہے کہ پاکستان چین کے لئے ایسا ہی دوست جیسا اسرائیل امریکہ کے لئے ہے اور آج بھی چین اور پاکستان جی 20کے ممکنہ سربراہی اجلاس بمقام سری نگر (20تا 23مئی 2023) کے مخالفین میں شامل ہیں۔کشمیر کے مسئلہ کے 3ممکنہ حل ہیں جن میںپہلا اور دوسرا حل اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق ہے کہ اقوام متحدہ کے زیر انتظام اور نگرانی میں استصواب رائے(حق خود ارادیت)کرایا جائے اور کشمیر کے عوام کو یہ حق دیا جائے کہ وہ کشمیر ہائی وے کے نام سے آویزاں تمام بورڈ اتروائے گئے۔ سابق دور میں کشمیر ہائی وے کا نام تبدیل کر کے سرینگر ہائی وے رکھ دیا گیا جبکہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں مسئلہ کشمیر پر پاک بھارت خفیہ سفارت کاری عروج پر رہی۔حتیٰ کہ جنرل پرویز مشرف نے پاکستان کے روایتی اور اصولی موقف سے انحراف کر کے تھرڈ آپشن کی تجویز دی کہ پاکستان کو آزاد اور خود مختار کشمیر بھی قبول ہے آزاد اور خود مختار کشمیر کے کتنے منفی اثرات ہوں گے‘ یہ موضوع ایک علیحدہ طویل مضمون کے متقاضی ہے اس وقت پاکستان جنرل پرویز مشرف کی پالیسی پر گامزن ہے اس پالیسی کی بنیاد سقوط ڈھاکہ (16دسمبر 1971) کے بعد بھٹو ‘ اندرا شملہ معاہدہ تھا جس کو بینظیر بھٹو نے پروان چڑھایا اور جب خفیہ طور پر پاک بھارت حکومتیں کسی نتیجے پر پہنچ گئیں تو تھرڈ آپشن کے نام پر عالمی اداروں اور طاقتوں کی ثالثی کا مطالبہ بڑھا دیا گیا یاد رہے کہ جی 20کا اجلاس اسی خود مختار کشمیر کا پیش خیمہ ہے اقوام متحدہ نے مسئلہ کشمیر کو بھارتی اور عالمی مفادات کے مطابق حل کرنا چاہا تو چین سلامتی کونسل کا بنیادی رکن ہونے کی وجہ سے ویٹو کر دیتا تھا۔یعنی چین نے عالمی طاقتوں‘ اداروں کو مسئلہ کشمیر کے من چاہے‘ غیر منصفانہ حل کو روکے رکھا اب بھارت برطانیہ اسرائیل امریکہ اور روس نے 26ستمبر 1992ء کو جی 20کی بنیاد رکھی اور آج بھاری مودی جی 20کے سربراہ کے طور پر 20تا 22مئی 2023ء کو سرینگر میں عالمی سربراہوں کے اجلاس میزبانی کر رہا ہے اگر پاکستان مذکورہ اجلاس میں شرکت کرتا ہے تو وہ بھارت کی کشمیر پالیسی کا تابع مہمل بن کر رہ جائے گا۔پاکستان کی مزاحمت پاکستان کی نظریاتی اور جغرافیائی یکجہتی اور سلامتی کی ضامن ہے۔