کشمیرمدتوں سے سلگ رہا ہے اور اس کی خاکستر میں موجود چنگاری کس وقت شعلہ جوالا بنتی ہے ،اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔یہ بات طے ہے کہ جب تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوتا اس خطے میں امن کا خواب دیکھنا حماقت ہے۔لاکھوں شہیدوں کے خون کو کوئی بھی بھول نہیں سکتا اور یہ ممکن نہیں کہ ظلم بھی جاری رہے اور امن کی آرزو بھی کی جاتی رہے۔یہ امر دردناک ہے کہ آ زادکشمیر جسے بیس کیمپ کا درجہ ملا تھا،اُس پار کے مظلوموں کی مدد اور تعاون کی بجائے اقتدار کا ایسا اکھاڑہ بن چکا ہے کہ پون صدی گزرنے کے باوجودیہاں کی نام نہاد قیادت اپنے اپنے قبیلوں کے حقیر مفادات سے باہر نہیں نکلی ۔آزادکشمیر حکومت کا کردار اس قدر گھنائونااور خراب رہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر سے ہجرت کر کے آنے والوں اس کردار سے نہ صرف مایوس ہوئے ہیں بلکہ پیشتر اسی گنگا میں اشنان فرما رہے ہیں، جس میں ہماری قیادت پہلے سے غوطہ زن تھی۔ اس امر کی بھی ضرورت ہے کہ آزادکشمیر کی حکومت اپنا سٹائل تبدیل کر اورکشمیرکاز کے فروغ کے لیے جموں و کشمیر اور عالمی سطح پر اپنا کردار ادا کرے۔ماضی قریب میں تحریک آزادی کے پشتی بان اور عالمی ماہر اقتصادیات و سیاسیاست پروفیسر خورشید احمدنے کچھ ایسی تجاویز دی تھیں ،جن کی روشنی میں ایک مربوط لائحہ عمل کے ساتھ آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔عالمی سطح پر اس وقت کشمیر کے معاملے میں گرمجوشی نہیں پائی جاتی۔ اس کی وجہ بھی ہم ہیں۔یورپ، مشرق بعید، امریکا اور عرب دنیا میں بڑی تعداد میں کشمیری اور کشمیر کاز سے دلچسپی رکھنے والے موجود ہیں۔ انھیں منظم کیا جائے اور جس طرح فلسطینیوں نے اپنے کاز کے لیے پوری دنیا میں اپنے مراکز بنا کر عوام الناس کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے،اہل کشمیر کو بھی یہی راستہ اختیار کرنا ہو گا۔اسرائیل کی مصنوعات کے بائیکاٹ نے اسرائیل کو ہلا کر رکھ دیا ہے ۔ہمیں بھی بھارت کے معاشی اور سیاسی بائیکاٹ کی مہم پر بھی غور ہونا چاہیے۔ جنوبی افریقہ کی آزادی کی تحریک میں اس چیز کا کلیدی کردار تھا۔اقوام متحدہ کی قراردادوں، عالمی انسانی حقوق کے اداروں کی رپورٹوں، جنرل اسمبلی کی قراردادوں کی بنیاد پر یہ کوشش کی جائے کہ قانونی طور پر بھی کشمیر کا مقدمہ عالمی اداروں اور عالمی عدالت انصاف میں پیش کیا جائے۔سرکاری اور غیرسرکاری سطح پر ا نٹرنیشنل کانفرنس کی اپنی افادیت ہے لیکن اس سے بھی اہم یہ ہے کہ مختلف ملکوں کے سیاست دانوں،اراکین پارلیمنٹ سے براہِ راست ملاقات ہو اور دنیا کی مختلف پارلیمنٹس میں کشمیر پر قراردادیں پیش کرانے کی کوشش کی جانی چاہیے۔ اسی طرح ہیومن رائٹس آرگنائزیشنز سے رابطے کیے جائیں اور قراردادیں منظور کرانے کی کوشش ہونی چاہیے۔سب سے اہم میدان خود مقبوضہ کشمیر کے اندر ہے۔اس وقت تک وہاں کی قیادت بڑی بصیرت، بڑی ہمت، بڑی قوت اور کمال درجے کی ثابت قدمی کے ساتھ اس تحریک کو درست رُخ پر فعال اور متحرک رکھا ہے۔ لیکن بھارت کی ریشہ دوانیوں نے ہماری وہاں کی قیادت کے اندر کو مشکلات سے دوچار کر دیا ہے۔اب اس بات کی اشدضرورت ہے کہ کشمیرمیں ایک نئی قیادت اس طرح اُبھرے کہ وہ تحریکی سوچ اور صحیح فکر رکھنے والے افراد پر مشتمل ہو۔ وہ قیادت سید علی گیلانی کی طرح ایمان کی پختگی، تاریخ کے گہرے شعور، بے پناہ جرا ت اور حکمت و تدبر کی حامل ہو۔ جذباتی ردعمل سے بچ کر چلنے والی دُوراندیش قیادت ہو۔ ان حالات میں مقبوضہ کشمیر میںنچلی سطح تک ایسی تحریک کو منظم کرنے کی ضرورت ہے، جو عوامی ہو، جمہوری ہو، مربوط ہو اور منزل و مقصد کا صحیح فہم رکھتی ہو۔ یہی ایشو مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔بھارت اقوام متحدہ کو خاطر میں نہیں لاتا چونکہ اس کے پیچھے امریکا کی اندھی حمایت موجود ہے۔غزہ مین حالیہ دنوں میں سب نے دیکھ لیا کہ امریکا مسلم دشمنی میں کہاںتک جا سکتا ہے۔اس کے باوجود پوری دنیا سے لعن طعن بھی امریکا کے حصے میں آئی ہے۔بھارت چاہتا ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کوکشمیری بھول جائیں، بھارت کے وعدوں کو بھی لوگ بھول جائیں، سلامتی کونسل کی قراردادوں کے برعکس کسی نام نہاد ثالثی سے بٹوارا کرکے معاملے کو رفت گزشت کر دیا جائے۔ پاکستان اور کشمیری عوام کے ساتھ اقوام متحدہ اور عالمی برادری نے وعدہ کیا کہ کشمیری عوام کی مرضی کے مطابق اسے طے کیا جائے گا۔ یہ کبھی بھارت کا اندرونی معاملہ نہیں تھا۔ اس کے بنیادی فریق بھارت، پاکستان اور کشمیری عوام ہیں اور اقوامِ متحدہ، عالمی برادری بھی اس میں برابر کی شریک اور حل کروانے کے لیے ذمہ دار ہے۔ اس نکتے کو ہمارے عالمی اقدام (Diplomatic Offences) کا حصہ ہوناچاہیے۔ عالمی سیاست میں مفادات کے کھیل کی روشنی میں جہاں ازبس ضروری ہے کہ بھارت پر عالمی دباؤ کو موثر بنایاجاناچاہیے جس کے لیے عالمی برادری کی سہولت کاری ، مداخلت اور دباؤ ضروری ہوگا،وہیں دوسری جانب ثالثی کے فریب میں پھنسنا مہلک ہوگا، جس سے ہرصورت میں بچنا لازمی ہے۔ حل ایک ہی ہے وہ یہ کہ کشمیر کے عوام کی راے دہی اور اقوام متحدہ کی نگرانی میں قراردادوں کے مطابق استصواب رائے۔یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ جہاں ناجائز قبضہ ہوگا، وہاں مزاحمت ہوگی۔ غاصبوں سے آزادی حاصل کرنے کا حق ایک بنیادی انسانی حق ہے، جسے اقوام متحدہ کا چارٹر بھی تسلیم کرتا ہے۔ اقوام متحدہ کے دو سوممبر ممالک میں سے ڈیڑھ سوسے زیادہ ملک اسی حق خود ارادیت کی بناپر آزاد ہوئے ہیں۔ ہمیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ آزادکشمیر فوج تو نہ بنائے لیکن پیراملٹری فورس کے بارے میں ضرور اقدام کرے۔ہم سیاسی اور میڈیا کے فورم تک پہنچ کر انھیں ہم آوازبنانا ہے، انھیں اُبھارنا اور متحرک کرنا ہے، انھیں سہولت فراہم کرنی ہے۔ تحقیق اور تحقیق کے نتیجے میں مختلف سطح پر ان چیزوں کی تیاری، میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے پوری دنیا تک پروجیکشن کرنا اور پہنچا ناایک بڑا ہی اہم کام ہے۔ یہ کام پاکستان اور دُنیابھر میں پھیلے کشمیری بھائیوں کے کرنے کا ہے۔یہ کام مقبوضہ کشمیر کے اندر سے کرنا مشکل ہے، لیکن اس کے لیے بیرونِ کشمیر سے منصوبہ بندی اور باقاعدگی سے کام کیا جانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔