7 اکتوبر کے بعد اسرائیل نے غزہ کی چھوٹی سی پٹی پر وحشیانہ طور پر جس طرح بمباری کی ہے اس سے اب تک تقریباً دس ہزار کے قریب گوشت پوست کے انسانوں کو لقمہ اجل بنا دیا گیا ہے جن میں عورتیں بچے بوڑھے معزور اور لاچار سب شامل ہیں جبکہ غالب امکان یہ بھی ہے کہ سینکڑوں افراد عمارتوں کے ملبے تلے بھی دبے ہوئے ہونگے چونکہ 25 کلو میٹر لمبی اور 8 کلومیٹر چوڑی غزہ کی پٹی کی تقریباً ساری عمارتوں کو یا تو مسمار کیا جاچکا ہے یا پھر نقصان پہنچ چکا ہے۔ خوراک ادویات بجلی پانی گیس کا مکمل انتظام وانصرام تباہ کردیا گیا ہے۔ اسرائیلی فوج یہ بھی دعویٰ کررہی ہے کہ غزہ شہر کا محاصرہ کرلیا گیا ہے اور وہ حماس کے ٹھکانوں کو ٹارگٹ کررہی ہے دوسری جانب امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن چوتھی بار اسرائیل پہنچ گئے ہیں۔ اقوام متحدہ میں عربوں کی جانب سے سیز فائر بندی کی قرارداد کے حق میں 121 ممالک کی ووٹوں سے کامیابی کے بعد امریکہ پر سفارتی سطح پر مشرق وسطیٰ کی پالیسی پر ناکامی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اقوام عالم کے کم و بیش تمام ممالک جہاں حماس کے حملے کی مزمت کررہے ہیں وہاں فوری طور پر جنگ بندی اور مزاکرات کا مطالبہ بھی کررہے ہیں۔ امریکہ واحد ملک ہے جو اسرائیل سے جنگ بندی کروا سکتا ہے لیکن افسوسناک امر ہے یہ ہے کہ امریکہ مشرق وسطیٰ میں جنگ بندی نہیں چاہتا ہے جبکہ یوکے یورپ اور خود امریکہ کے ایوانوں میں نہ صرف سیاست دان بری طرح تقسیم ہیں تو دوسری جانب عوامی سطح پر اسلام و فوبیا، نسلی اور مذہبی طور پر تعصب اور خلیج بڑھ رہی ہے۔ اس وقت پوری دنیا میں اضطراب بڑھ رہا ہے اور لاکھوں کی تعداد میں مسلمان ملکوں سمیت مغربی ممالک میں ہر رنگ و نسل اور مذہب کا باشندہ سراپا احتجاج ہے اور سیز فائر بندی کا مطالبہ کررہا ہے۔ یہ جنگ ایران تک جاسکتی ہے چونکہ جو کچھ اسرائیل کررہا ہے اس پر ایران خاموش تماشائی نہیں بن سکتا اگر ایران اس جنگ میں کود پڑا تو پھر روس چین بھی کھل کر اس جنگ میں تباہی پھیلانے میں کسی سے پیچھے نہیں رہیں گے۔ ماضی میںمشرق وسطیٰ میں امن کی واحد کرن سابق اسرائیلی وزیراعظم اسحاق رابین تھے جن کی آج 4 نومبر کو 28 ویں برسی منائی جارہی ہے جنہوں نے مشرق وسطیٰ میں دو الگ ریاستوں اور امن کی امید دلائی تھی اسی وجہ سے انہیں 4 نومبر 1995 میں الٹرا نیشنلسٹ یہودی ایگال امر نے گولیاں مار کر قتل کردیا تھا۔ اسحاق رابین نے بطور وزیراعظم فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کے سربراہ یاسر عرفات کے ساتھ مل کر اوسلو ایگریمنٹ کیا تھا۔ دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے نتن یاہو جو اس وقت وزیر اعظم ہیں انہوں نے اس معاہدے کی مخالفت کی تھی۔ یاد رہے کہ اسحاق رابین کو یاسر عرفات کے کپڑے پہنا کر ان کے ہتک آمیز پوسٹر اسرائیل میں آویزاں کیے گئے تھے جبکہ اس کے بعد حماس نے بھی اوسلو معاہدے کو تسلیم نہیں کیا تھا۔ اسحاق رابین کے قتل کے بعد حماس حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان کئی دفعہ امن معاہدے کے لئے بیشمار کوششیں کی گئیں لیکن نتیجہ برآمد نہیں ہوا اگر آپ مغرب میں رہتے ہوں تو یہاں یہ بات لوگوں کے ذہنوں میں رچ بس یا سرائیت کی جاچکی ہے کہ حماس اور حزب اللہ اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرنے اور امن کے لئے رضا مند دکھائی نہیں دیتیں ایسے میں برطانوی ہاوس آف لارڈز اور ہائوس کامنز میں بحث مباحثے جاری ہیں۔ سینئر لبرل ڈیموکریٹ سیاست دان لارڈ جان ایلڈرڈائس کا ایک بیان اور موقف اس نمائندے کو ملا ہے۔ لارڈ ایلڈرڈائس نے برطانوی حکومت اور آئرش عسکریت پسندوں کے درمیان گڈ فرائیڈے معاہدے میں نمایاں کردار ادا کیا تھا۔ ہاؤس آف لارڈز میں جان کا بہت احترام کیا جاتا ہے وہ کیا کہتے ہیں۔ذیل میں ان کے بیان کو شئیر کررہا ہوں۔ "میں نے 2000ء کی دہائی کے اوائل میں حماس (اور حزب اللہ) کے ساتھ بہت سی ملاقاتیں اور بات چیت کی تھی اور مجھے یقین ہے کہ اس وقت یقینی طور پر مذاکرات کی تیاری تھی جس میں حماس کے بانی چارٹر میں اسرائیل کو لاحق خطرے کو دور کرنے کے بارے میں قیادت کی سطح پر بھی شامل تھا۔ تاہم امریکہ، برطانیہ اور اسرائیلی حکومتیں مذاکرات میں دلچسپی نہیں رکھتی تھیں۔ انہوں نے فلسطینی عوام کی خواہشات کے جائز اظہار کو مسترد کر دیا اور صرف فتح چاہتے تھے۔ تب سے لے کر اب تک بین الاقوامی قانون کو صریحاً نظر انداز کرتے ہوئے فلسطینی سرزمین پر قبضے کو بڑھانے اور اسے مستقل کرنے اور 2 ریاستی حل کو ناممکن بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی گئی ہے۔ اسرائیل کو امن، خوشحالی اور سلامتی کے ساتھ وجود میں آنے اور قبضہ کرنے کا ناقابل تردید حق حاصل ہے، لیکن کون سا اسرائیل؟ کیا اسرائیل کی بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ سرحدیں؟ ہاں ضرور بڑھتی ہوئی بستیوں، مستقل قبضے، اور حکومت اور آباد کاروں کا اسرائیل جو فلسطینیوں کو ان کی زمین سے باہر نکالنا چاہتے ہیں؟ نہیں، یہ حق نہیں ہے۔ یہ قانون کی خلاف ورزی ہے. کیا ہم اس مقام سے گزر چکے ہیں جہاں مذاکرات ممکن ہیں؟ یہ ٹھیک ہو سکتا ہے 7 اکتوبر کو جس حد تک غیر انسانی اور شیطانی نفرت کا مظاہرہ کیا گیا ہے اور غزہ پر مسلسل گولہ باری، بشمول ان کے چرچ میں پناہ لینے والے عیسائیوں کا قتل یہ بتاتا ہے کہ ایسا ہی ہوسکتا ہے اگر واقعی ایسا ہے (اور میں نے پوری طرح سے امید نہیں چھوڑی ہے) تو نہ ختم ہونے والی جنگ ہوگی اور یہ صرف مقدس سرزمین تک محدود نہیں رہے گی۔ میں یہ اس لیے کہتا ہوں اس لیے نہیں کہ میں اسے منظور کرتا ہوں، یا یقین رکھتا ہوں کہ یہ اس تشدد، اور خاص طور پر 7 اکتوبر کی خوفناک ہولناکیوں کا جواز یا بہانہ ہے۔ میں اس سب کا مکمل مخالف ہوں، یہی وجہ ہے کہ میں نے اپنی زندگی اس تنازع کو ختم کرنے میں صرف کی ہے۔ لیکن آپ نے مکمل طور پر جائز سوالات پوچھے ہیں اور پچھلی دو دہائیوں میں اس صورتحال پر کام کرنے کے بعد یہ ایک پیچیدہ صورتحال پر میرا انتہائی مختصر اور نامکمل جواب ہوگا"