اگر یادوں کے دریچوں میں جھانک کر دیکھا جائے ہمیں محترم قاضی حسین احمد کی ملک میں مثبت سیاسی پیش رفت کیلئے بھر پور جدوجہد نظر آئے گی وہ کبھی بھی اپنی مثبت سیاسی کاوشوں کے سلسلہ میں وصول ہونے والے منفی نتیجہ سے مایوس نہیں ہوئے تھے بلکہ ایسی صورتحال میں ایک نئے ولولہ اور جذبہ کے ساتھ آگے بڑھتے کبھی کسی چیز کو ذاتی انا کا مسئلہ نہبناتے وہ ایک درخت کی طرح کسی کو اپنے سایہ سے محروم نہ کرتے ہمیں بھی یہ بات معلوم ہونی چا ہیے کہ درخت اپنے سایہ سے خود مستفید نہیں ہوسکتا بلکہ اس کے سایہ سے دوسرے ہی فائدہ اٹھاتے ہیں۔ آج میدان سیاست میں بھی اسی جذبہ اور ولولہ کی ضرورت ہے ، ذاتیات کو پس پشت ڈالنا اور نتائج کی پروا کئے بغیر ملک و قوم کی بہتری کیلئے مسلسل جدوجہد کرنا ہوگی پھر کہیں مثبت پیش رفت ممکن ہو سکے گی۔ 1990ء میں ہونے والے عام انتخابات کے نتیجہ میں میاں نواز شریف پہلی بار وزارت عظمی کی کرسی تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے تھے یہ ایک حقیقت ہے کہ یہ قاضی حسین احمد کی انتھک شبانہ روز محنت کا ثمر تھاکہ جماعت اسلامی ایک نئے سیاسی اتحاد کا حصہ بنی تھی کیونکہ جماعت اسلامی میں نواز شریف اور عوامی نیشنل پارٹی کے ساتھ بیٹھنے کی کوئی گنجائش نہیں تھی اس اتحاد کی ایک طرف جماعت اسلامی میں اسلامی جمعیت طلبہ کے سابق ارکان کا وہ طاقتور گروپ بھر پور مخالفت کر رہا تھا جنھوں نے اپنی آنکھوں سے اسلامی جمعیت طلبہ کے بہادر سپوت اسلامیہ کالج سول لائن لاہور کے طالب علم نواز خان کی مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن ایک گروپ کے ہاتھوں شھادت کو دیکھا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے نواز خان شہید کے جنازہ میں اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکنان کا جم غفیر امڈ آیا تھا اور جنازہ گاہ میں تل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔ نماز جنازہ کے بعدجب نواز خان شہید کے چہرے کا دیدار کرایا گیا اس موقع پراسلامی جمعیت طلبہ کے کارکن اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے فضا میں نعرہ تکبیر۔ اللہ اکبر کے ساتھ ساتھ ایک اور نعرہ بھی بلند ہورہا تھا وہ تھانواز خان کے بدلے نواز شریف، امیر العظیم( موجودہ سیکریٹری جنرل جماعت اسلامی) نے آگے بڑھ نوجوانوں کے جذبات کو ٹھنڈا کیا اور انھوں نے کارکنان کو یقین دلایا کہ ہم نواز خان شہید کے قتل کی قانونی جنگ لڑیں گے اور اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک نواز خان شہید کے قاتلوں کو کیفر کردار تک نہ پہنچا لیں ،ان دنوں میاں نواز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب تھے اس طرح کے بے شمار واقعات صوبہ بھر میں پیش آئے تھے، اس اتحاد کی مخالفت دوسری طرف اسلامی جمعیت طلبہ کے وہ سابق ارکان کر رہے تھے جن کے پیارے جہاد افغانستان میں شہید یا زخمی ہوئے تھے وہ کسی صورت عوامی نیشنل پارٹی کی قیادت کے ساتھ ملنے کو تیار نہیں تھے تاہم قاضی صاحب نے ایک بڑے مقصد کیلئے اس نہ ممکن کو ممکن بنایا۔ قاضی صاحب نے یہ سب کچھ اپنے یا جماعتی مفاد کیلئے نہیں کیا تھا بلکہ ان کا یہ خیال تھا کہ جماعت اسلامی دیگر مذہبی جماعتوں کے ساتھ مل کرمیاں نواز شریف کی قیادت میں مملکت خداداد میں نظریہ پاکستان کے حقیقی نفاذ کو ممکن بنا سکے گی کیونکہ اس وقت میاں نواز شریف بھی اپنے آپ کو سابق صدر جنرل ضیاء الحق شہید کا روحانی وارث قرار دیتے تھے اور ان کی سیاسی میراث کو آگے بڑھانا ا پنی زندگی کا مشن سمجھتے تھے۔ اسلامی جمہوری اتحاد کی تشکیل کے بعد جماعت اسلامی کو اپنے کارکنان کے ایک گروپ کی طرف سے بھر پور مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا جس کا نتیجہ جماعت اسلامی کے اتحادی سیاست سے بیزاری کی صورت میں نکلا ۔ پہلی باروزارت عظمیٰ کی کرسی پر بیٹھتے ہی میاں نواز شریف کی ترجیحات بدل گئیں اب جماعت اسلامی سمیت تمام مذہبی اتحادی جما عتیں انہیں بوجھ محسوس ہو نے لگیں اور انہوں ان کے مطالبات سے بیزاری کا مظاہر ہ کیا کیونکہ میاں صاحب کا ٹارگٹ آئندہ عام انتخابات میں ہر صورت اپنی ''سولو فلائٹ'' کو ممکن بنانا تھاتاہم قاضی حسین احمد نے اپنی جدوجہد مثبت پیش رفت کی سمت جاری رکھی اور میاں صاحب سے ہر ملاقات میںاسلامی جمہوری اتحادکے منشور کے نٖفاذ کے مطالبہ کو دہرایا۔ قاضی حسین احمد کے بار بار مطالبات کے نتیجہ میں انہیں شدید نتائج کا سامنا کرنا پڑا، ان پر الزامات لگائے گئے ،ایک روز موقر اخبارات کے فرنٹ بیج پر جماعت اسلامی ٹائون شپ کے مبینہ ناظم کی طرف سے یہ اشتہار شائع ہوا جس کی شہ سرخی کچھ اس طرح تھی '' قاضی حسین احمد وزیر اعظم نواز شریف سے کشمیر فنڈز کے نام پر وصول کرنے والے 10کروڑ کا حساب دیں' ' یار لوگوں نے اس پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ قاضی صاحب کیخلاف جماعت اسلامی میں بھی ایسی فضا پیداکرنے کی کوشش کی جس سے حقائق کو مسخ کرکے مقاصد حاصل کئے جا سکیں اس موقع پر قاضی حسین احمد ہمت نہیں ہارے بلکہ جماعت اسلامی اور عوام میں اپنے موقف کو بھر پور انداز میں پیش کیا۔ جماعت اسلامی کی امارت سے استعفیٰ کے بعد قاضی صاحب باقاعدہ منصورہ، لاہور کو خیر باد کہہ کر پشاور منتقل ہو گئے اس موقع پر ایک معروف بزرگ صحافی شخصیت نے قاضی حسین احمد کے استعفیٰ بارے اپنے ایک کالم''استعفیٰ کے بغیر استعفیٰ'' کے عنوان سے لکھا جس میں قاضی صاحب کی خوب کلاس لی ،قاضی صاحب کیخلاف بھر پور پروپیگنڈا کے باوجود ارکان نے انہیں جماعت اسلامی کی امارت کیلئے دوبارہ امیر منتخب کیا اورجماعت اسلامی کے ارکان کی اکثریت نے قاضی حسین احمد پر بھر پور اعتماد کا اظہار کیا۔ عمران خان، پرویز الہی کے گھر پر چھاپہ ہو یا تحریک انصاف کے کارکنان کی گرفتاریاں ، اب اس سب کچھ کو برداشت کرنا ہوگا مثبت کوششوں کے منفی نتائج سے گھبرانے کی نہیں بلکہ قاضی صاحب کی طرح ایک نئے جذبہ اور ولولہ کے ساتھ آگے بڑھنے کی ضرورت ہے کیونکہ ہم کسی کی نیچر کو تبدیل نہیں کرسکتے ۔