1953ء میں فیڈرل کورٹ کے چیف جسٹس محمد منیر نے انکوائری کمیشن رپورٹ میں لکھا تھا کہ علمائے کرام مسلمان کی تعریف پر ہی متفق نہیں ہیں۔ یہ دعوی غلط بھی تھا اور مغالطہ انگیز بھی، لیکن یہ جملہ کچھ یوں چل گیا کہ اسے اٹھانے والوں میں کسی کو کمیشن رپورٹ پڑھ کر اس دعوے کی صداقت جانچنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی، حالانکہ رپورٹ پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ جسٹس منیر نے غلط بیانی کی تھی کیونکہ ایک ہی حقیقت کو مختلف الفاظ میں بیان کرنے کو تعریف کا اختلاف نہیں کہا جاسکتا۔ بہرحال جسٹس منیر کا یہ گلہ 1974ء میں دور ہوگیا جب آج سے ٹھیک 49 سال قبل آج ہی کے دن (7 ستمبرکو ) پارلیمان نے دوسری آئینی ترمیم منظور کی اور مسلمان کی "متفقہ تعریف" متعین کرکے اسے آئین کی دفعہ 260 کا حصہ بنادیا۔ ایسا کرنے سے قبل خود کو احمدی کہلوانے والے دونوں گروہوں، قادیانی اور لاہوری، کے رہنماؤں کو بلا کر تفصیل سے ان کا موقف سنا گیا اور ان سے سوال پوچھے گئے۔چونکہ پارلیمان میں بات کرنے کا اختیار صرف رکنِ پارلیمان کو ہی حاصل ہے لیکن پارلیمانی کمیٹی میں کسی بھی شخص کو بلا کر اس کا موقف لیا جاسکتا ہے، اس لیے پہلے پوری پارلیمان کو "کمیٹی آف دا ہول ہاؤس" بنایا گیا اور پھر اس وقت کے اٹارنی جنرل جناب یحییٰ بختیار نے سوال اور جرح کی ذمہ داری اٹھائی، اور کیا خوب نبھائی! یہ پوری کارروائی شائع شدہ موجود ہے اور قانون کے ہر طالب علم کو میں یہ مشورہ دوں گا کہ ایک دفعہ ضرور یہ پوری کارروائی پڑھیں۔ اس میں نہ صرف آپ کو چند نہایت اہم سوالات کے جواب مل جائیں گے بلکہ بہت ساری الجھنیں بھی دور ہوجائیں گی۔ آپ دیکھ لیں گے کہ جرح کیسے کی جاتی ہے؟ یحییٰ بختیار نے جس طرح سوال کے بعد سوال اور استدراج کے ذریعے بالآخر ان سے وہ بات کہلوائی جس سے وہ گریزاں تھے ، اس میں قانون کے طالب علموں کے لیے سیکھنے کا بہت مواد ہے۔ مرزا غلام احمد قادیانی صاحب کی کسی بھی عبارت سے استدلال کرنے سے قبل وہ پہلے اس عبارت کا مسلمہ ہونا ثابت کرتے تھے۔ کارروائی پڑھنے کے بعد کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ دوسرے فریق کو اپنا موقف پیش کرنے کا موقع نہیں دیا گیا ، یا ان کا موقف توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا۔ یحییٰ بختیار صاحب وقفے میں بار بار علمائے کرام سے مخاطب ہوکر یہ استدعا کرتے ہیں کہ جلدی نہ کریں اور ان کو پورا وقت دیں۔ وہ یہ بھی کہتے نظر آتے ہیں کہ جو کچھ آپ ان سے سننا چاہتے ہیں میں اسی کی طرف ان کو لارہا ہوں لیکن یہ سب کچھ آہستہ آہستہ ہوگا۔ یقیناً سوالات جن علمائے کرام نے بناکر دیے تھے وہ بھی داد کے مستحق ہیں لیکن یہ بھی دیکھیے کہ ان سوالات کی ترتیب کس نے قائم کی اور پھر ان سوالات کے ذریعے بات اگلوائی کس نے ! یحییٰ بختیار کئی مواقع پر یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ جو فلاں سوالات آپ نے دیے تھے وہ ٹھیک نہیں تھے اور براہ کرام مجھے کمزور قسم کے دلائل یا غیرثابت شدہ امور نہ دیں۔ اس موضوع پر خود ان کا اپنا تفصیلی مطالعہ تھا اور باوجود بے انتہا مصروف ہونے کے انھوں نے پوری یکسوئی کے ساتھ یہ مقدمہ لڑا۔ ایک جگہ وہ اسمبلی کو میٹنگز کی تفصیل بتاتے ہیں جن کو نمٹا کر وہ اسمبلی میں آئے ہوتے ہیں اور اسمبلی کے بعد پھر چند اہم میٹنگز میں جارہے ہوتے ہیں۔ جگہ جگہ آپ یحییٰ بختیار کے ادبی ذوق کی داد دینے پر بھی خود کو مجبور پائیں گے ، بالخصوص جب وہ غالبؔ کا کوئی شعر پڑھیں۔اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر دے۔ چند سوالات یہ ہیں: کیا ریاست کے پاس مسلمان کی تعریف متعین کرنے کا اختیار ہے اور کیا ریاست کو اس معاملے میں پڑنا چاہیے؟ کیا قانون میں مسلمان کی تعریف شامل کرنے سے کسی کے حق کی خلاف ورزی ہوتی ہے ؟ کیا خود کو احمدی کہنے والے ان عام مسلمانوں کو کافر کہتے ہیں جو مرزا صاحب کو نبی نہیں مانتے؟ سر ظفر اللہ خان نے قائد ِ اعظم کی نمازِ جنازہ میں شرکت کیوں نہیں کی ؟ تقسیمِ ہند کے موقع پر احمدیوں کا طرزِ عمل کیا رہا اور انھوں نے عام مسلمانوں سے خود کو الگ کیوں شمار کروایا؟ کشمیر کے تنازعے میں احمدیوں کا کیا کردار رہا اور انھوں نے کس طرح کشمیری مسلمانوں کے خلاف کارروائی میں دوسرے فریق کا ساتھ دیا؟ احمدیوں کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کیا ہے ؟ لاہوری گروہ جب مرزا صاحب کو مجدد کہتا ہے، تو مجدد سے ان کی مراد کیا ہوتی ہے؟ احمدیوں کے دونوں گروہوں کا اصل تنازعہ مذہبی ہے یا سیاسی و مالیاتی امور پر اختلاف کا شاخسانہ ہے ؟ خود کو احمدی کہنے والے دونوں گروہوں کو پورا موقع دینے کے بعد ہی پارلیمان اس نتیجے پر پہنچی کہ یہ دونوں گروہ غیر مسلم ہیں اور یہ کہ آئین میں مسلمان کی تعریف شامل کرنی چاہیے۔ ایک اہم اعتراف یحییٰ بختیار نے قومی اسمبلی میں جرح کے دوران میں لاہوری گروپ کے سربراہ سے علی رؤوس الاشہاد کروایا کہ جب وہ مرزا صاحب کو مجدد کہتے ہیں تو ان کی مراد نبی ہی ہوتی ہے! اس کے بعد ہی عبد الحفیظ پیرزادہ جیسے بظاہر سیکولر وکیل کو، جو اس وقت وزیر قانون تھے، کہنا پڑا کہ ہمارا خیال تھا کہ لاہوری گروپ نسبتاً کمتر گمراہی میں مبتلا ہے لیکن ہم غلط تھے۔ یہ فیصلہ کرتے وقت علمائے کرام کی موجودگی میں حکومتی وزرا نے اسمبلی کے فلور پر کی گئی تقریروں میں کہا کہ بطور غیر مسلم قادیانیوں کو عام شہری حقوق میسر ہوں گے۔ غیرمسلم قرار دیے جانے کے باوجود جب قادیانی عام لوگوں کے سامنے خود کو مسلمان کے طور پر پیش کرتے رہے اور مسلمانوں کی مذہبی اصطلاحات بھی استعمال کرتے رہے، تو 1984ء میں ایک آرڈی نینس کے ذریعے تعزیراتِ پاکستان میں دفعات 298 بی اور سی کا اضافہ کرکے ان کے ایسے افعال کو قابلِ سزا جرم قرار دیا گیا۔ اس قانون کو بنیادی حقوق سے تصادم کی بنیاد پر سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا ، تو سپریم کورٹ کے لارجر بنچ نے قرار دیا کہ ایسا نہیں ہے کیونکہ یہ افعال دھوکادہی پر مبنی ہیں اور کوئی دستوری حق کسی کو دھوکے کی اجازت نہیں دیتا (ظہیر الدین بنام ریاست 1993ء )۔ پچھلے سال (2022ء میں) سپریم کورٹ نے ایک اور مقدمے (طاہر نقاش بنام ریاست) میں قرار دیا کہ یہ پابندی عوامی مقامات کیلیے ہے، البتہ اپنے گھروں اور عبادت گاہوں میں ان کو اپنے مذہب پر عمل کا حق ہے اور اس میں کوئی مداخلت نہیں کرے گا۔ یہی بات اس سے قبل وفاقی شرعی عدالت مجیب الرحمان بنام وفاقی حکومت (1985ء ) میں قرار دے چکی ہے۔ چنانچہ دستوری اور قانونی پوزیشن یہ ہے کہ قادیانی غیرمسلم شہری ہیں؛ وہ خود کو مسلمان کے طور پر پیش نہیں کرسکتے نہ ہی مسلمانوں کی اصطلاحات اپنے لیے استعمال کرسکتے ہیں؛ اس تحدید کے ساتھ دستور میں مذکور بنیادی حقوق ان کو دستیاب ہیں۔ ٭٭٭٭٭