کمال کی بے لوث شخصیات تھیں بڑی اللہ والی ہستیاں تھیں انہیں دیکھ کر واقعی رب یاد آتا تھا۔ بے نیازی گویا ان کی شخصیت کا طرہ امتیاز تھا۔ ان کی دوستی او ر دشمنی خالصتا اللہ سبحانہ و تعالیٰ کیلئے ہوا کر تی تھی۔ تسخیر کائنات کے گر کوئی ان سے سیکھے۔ شیخ الحدیث و التفسیر مولانا محمد چراغ رحمۃاللہ علیہ ایسی ہی شخصیات میں سے ایک تھے۔ اپنی طرح ایک منفرد انسان تھے انہوں نے بر صغیر کی عظیم دینی درسگاہوں دارالعلوم مظاہر العلوم سہارنپور اور دارالعلوم دیوبند میں زانوائے تلمذ تہ کئے۔ حصول علم کے بعد درس و تدریس کے شعبہ سے منسلک ہو گئے اور 1936ء میں گوجرانوالہ میں جامعہ عربیہ کا سنگ بنیاد رکھا۔ درس نظامی اور شعبہ حفظ سے درس و تدریس کا آغاز کیا وہ اپنے عقیدہ کو نہ چھوڑنے اور کسی کے عقیدہ کو نہ چھڑنے کے اصول پر زندگی بھر کاربند رہے جس کی وجہ سے ایک خاص سکول آف تھاٹ سے تعلق ہونے کے باوجود ان کا حلقہ احباب متنوع شخصیات سے بھرا ہوا تھاوہ دلوں پر راج کرنے والی شخصیت تھے ایک طالب علم کی حیثیت سے ان کی شخصیت کا قریب سے مشاہدہ کیا شفقت و محبت کا پیکر تھے ۔ ماہ شوال المکرم میں1982 ء میں جامعہ عربیہ کے تدریسی سال کی افتتاحی تقریب میں والد محترم کے ہمراہ شرکت کی سعادت حاصل ہوئی اس تقریب میں ملک بھر سے سیکڑوں طلباء اور ان کے والدین شریک تھے ۔ جامعہ عربیہ کی جامع مسجد میں منعقد ہونے والی اس تقریب میں ہر مکتبہ فکر کی اہم شخصیات جلوہ افروز تھیں ۔ مولانا محمد چراغ رحمۃ اللہ علیہ کے دائیں بائیں چوٹی کے علماء تشریف فرما تھے ان میں سے ہر شخصیت اپنی ذات میں ایک انجمن تھی مفتی سیاح الدین کاکا خیل ، مولانا گلزار احمد مظاہری، مولانا معین الدین خٹک، علامہ عنایت اللہ گجراتی، مولانا منظور احمد چنیوٹی، مولانا حافظ محمد گوندلوی اور مفتی جعفر حسین کی دینی و ملی خدمات کا بھلا کون معترف نہیں سب نے اپنی شرکت سے اس اہم اور پر و قار تقریب کو رونق بخشی ہوئی تھی۔ جس سے نہ صرف نئے آنے والے طلباء کی حوصلہ افزائی ہو رہی تھی بلکہ اتحاد امت کا عملی درس بھی دیا جارہا تھا ، علماء کے چہروں پر سادگی اور بے باکی کا عنصر نمایاں تھا، تقریب میں قال و قال رسول اللہ کی صدائیں بلند ہوئیں اور سب نے قرآن و حدیث کے حصول علم اپنے گھر بار کو چھوڑنے والوں کو خوش آمدید کہا اور دینی مدرسہ کے طالب علم کی قدر و منزلت اور مقام بیان کی کسی نے حکومت کی کاسہ لیسی کی اور نہ ہی مذمت ، تقریب کے اختتام پر مولانا انور قاسمی صاحبزادہ مولانا محمد چراغ ناظم اعلیٰ جامعہ عربیہ نے اعلان کیا کہ اب شیخ الحدیث والتفسیر مولانا محمد چراغ صاحب بخاری شریف کی پہلی حدیث پڑھیں گے ۔تقریب میں شریک تمام طلباء خصوصا اور دیگر شرکاء بھی حدیث کو مولانا کے ساتھ ساتھ دہرائیں۔ اس طرح آج سے اس تقریب کے تمام شرکا کو مولانا کی شاگردی کاشرف حاصل ہوجائے گا ۔مولانا نے بخاری شریف کی پہلی حدیث پڑھی اور تمام شرکاء نے ان کے ساتھ حدیث کو دہرایا۔ مولانا نے چند الفاظ میں بخاری شریف کی پہلی حدیث کا درس بھی دیا ان کا درس اس قدر جامع اور مختصر تھا کہ گو یا دریا کو کوزے میں بند کردیا گیا تھا اور الفاظ میں اتنی چاشنی تھی کہ تمام شرکاء کے چہروں پر تشنگی کے آثار نمایاں تھے مولانا چراغ اور ان کے صاحبزادے مولانا انور قاسمی اس دنیا سے رخصت ہو گئے لیکن جامعہ عربیہ میں قال قال رسول اللہ کی صدائیں آج بھی بلند ہورہی ہیں اور ملک کے طول وعرض اور بیرون ملک میں جامعہ عربیہ سے تدریس کا سلسلہ مکمل کرنے والے طلباء کی تعداد سیکڑوں نہیں ہزاروں تک پہنچ چکی ہے اور ہر سال اس چشمہ سے فیض ہونے کیلئے تشنگان علم کی بڑی تعداد اپنی پیاس بجھانے کیلئے جامعہ کا رخ کرتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ دینی مدارس نے ملک کے غریب اور لوئر مڈل کلاس طبقہ کے چشم و چراغ میں علم کی شمع روشن کرنے میں اہم کردار ادا کیا کم وسائل کے باوجود دینی مدارس کے طلباء نے صرف درس نظامی یا وفاق المدارس کے امتحانات میں ہی نہیں بلکہ تعلیمی بورڈز اور ملک کی نامور یونیورسٹیز اہم پوزیشن حاصل کرکے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا کر یہ ثابت کیا کہ ذرا نم ہوتو یہ مٹی بڑی ذرخیز ہے ساقی۔دینی مدارس کے طلباء سی ایس ایس اور پی سی ایس کے امتحانات میں بھی کسی طرح کسی سے پیچھے نہیں رہے تاہم اس سب کچھ کے باوجود دینی مدارس حکومت کی توجہ حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔ ہماری حکومت اور دارے مروجہ نظام تعلیم پر نہ ہونے کے برابر بجٹ مختص کرتے ہیں لیکن بد قسمتی سے دینی مدارس کیلئے کوئی بجٹ مختص ہی نہیں کیا جاتا۔ اسکے باوجود دینی مدارس کا شاندار نتائج دینا نہ صرف حیران کن ہے بلکہ دینی مدارس کیخلاف باتیں کرنے والوں کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے دینی مدارس سے اپنی تدریس کا سلسلہ مکمل کرنے فن خطابت سے بھی خوب آشنا ہوتے ہیں اور اعلیٰ پایہ کی تحریر لکھنے کا طریقہ بھی انہیں آتا ہے۔ مجھے چند روز قبل سید نوید احمد فاضل جامعہ عربیہ و خطیب یوکے اسلامک مشن کی کتاب تذکیرات کے مطالعہ کا اتفاق ہوا جس میں انھوں نے کتاب سے پیدا ہونے والی دوری کو ختم کرنے کوشش کی ہے ۔پہلے طویل تحریر لکھنے اور پڑھنے کا رواج تھا، ناول افسانے اور کہانیاں ان طرز تحریر کی اہم مثال ہیں۔اب سائنس اور ٹیکنالوجی نے اس طرزِ عمل کو مکمل طور پر بدل کر رکھ دیا ہے جس کی وجہ سے مطالعہ کتب کی عادت روز بروز دم توڑ تی جا رہی ہے۔ ناول، افسا نے اور کہا نیاں پڑھنے کی بجائے انسان شارٹ کٹ کے چکر میں پڑا ہوا ہے جسکی وجہ سے رجحان مختصر مگر جامع تحریروں کی طرف ہو گیا ہے۔ سید نوید احمد شاہ کی کتاب تذکیرات اسی طرز فکر کو مد نظر رکھ کر لکھی گئی ہے مختلف کتابوں سے ماخوذ اہم اور نصیحت آموز50 عنوانات کو بڑے عمدہ، آسان ،مختصر مگر جامع پیرائے میں بیان کیا گیا ہے ان واقعات کا مطالعہ ایک انسان میں عمل کا جذبہ ابھارنے کیلئے بہترین ہے۔ مختلف عنوانات کے تحت قرآنی آیات اور احادیث و سیرت کے حوالوں نے ا ن واقعات کی قدر و قیمت اور بڑھا دی ہے240 صفحات پر مشتمل یہ کتاب جامعہ عربیہ گوجرانولہ کے شعبہ مطبوعات نے شائع کی ہے۔ اگرچہ علماء کرام کو ایک سے دوسری ڈگر پر لانا مشکل کام ہے تاہم سید نوید احمد شاہ نے یہ کام کر دکھایا ہے۔ لمبی تمہیداور اپنے ہی انداز میں بات کرنے کے عادی علماء کو اختصار کی طرف لانا ایک مشکل کام ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں، سید نوید کی کتاب میں استاد محترم مولانا چراغ کے جامع ومختصر طرز کلام اور مولانا وحید الدین خان کے جدید طرز تحریر کی جھلک نمایاں ہے اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ کتاب علماء میں جدید طرز متعارف کرانے میں سنگ میل ثابت ہو۔ (آمین)