ہم کہ چہرے پہ نہ لائے کبھی ویرانی کو کیا یہ کافی نہیں ظالم تری حیرانی کو کار فرہاد سے یہ کم تو نہیں جو ہم نے آنکھ سے دل کی طرف موڑ دیا پانی کو کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے ،آخر میاں نواز شریف مینار پاکستان لوگوں کے ازدحام میں جلوہ گر ہو گئے ۔رندبخشے گئے قیامت کو شیخ کہتا رہا حساب حساب۔ بہرحال انہوں نے آنا تھا اور وہ آ گئے ، شاد عظیم آبادی کے اشعار یاد آئے کہ تمنائوں میں الجھایا گیا ہوں ،کھلونے دے کے بہلایا گیا ہوں۔ دل مضطر سے پوچھ اے رونق بزم ۔ میں خود آیا نہیں لایا گیا ہوں۔جو بھی ہے ہمیں نواز شریف کا ذوق شعر پسند ہے یہ الگ بات کہ وہ شعر کے ساتھ سلوک کیا کرتے ہیں۔ جلسے میں آنے سے بیشتر بھی ہیلی کاپٹر میں ان سے کسی نے کہا کہ آپ جب بھی ملک سنوارتے ہیں آپ کو باہر جانا پڑ جاتا ہے اس پر نواز شریف نے برجستہ عدم کا شعر پڑھا: شاید مجھے نکال کے پچھتا رہے ہیں آپ محفل میں اس خیال سے پھر آ گیا ہوں میں مجھے یاد آیا کہ یہ شعر قتیل شفائی کے گھر میں کسی نے عدم کے سامنے یوں پڑھا تھا شاید مجھے نکال کچھ کھا رہے ہیں آپ محفل میں اس خیال سے پھر آ گیا ہوں میں ۔جواب میں عدم نے قتیل کا شعر بدل دیا۔ہوتے ہوتے آس کا پنچھی دور افق میں ڈوب گیا ،روتے روتے بیٹھ گئی آواز قتیل شفائی کی۔تفنن بر طرف نواز شریف کی تقریر ہم نے بھی سنی اگرچہ جنوبی افریقہ اور انگلینڈ کا میچ تھا ۔بہت سی باتیں تو وہی تھیں جو ہمیں پہلے ہی حفظ تھیں خاص طور پر دھماکوں والی اور موٹر ویز کا تذکرہ اس کے علاوہ بجلی کا۔ وہ کچھ بل ساتھ بھی لائے ہوئے تھے کہ ان کے دور میں کتنے کم تھے اور اب تو لاکھ تک پہنچ چکے ہیں کیا کریں ہم تو شاعر ٹھہرے۔ انہوں نے ایک افتخار عارف کا شعر بھی غالباً پڑھا تھا: مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے وہ قرض اتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے کچھ اچھی باتیں بھی تھیں کہ وہ قوم کی خدمت کرنا چاہتے ہیں ظاہر یہ چوتھی مرتبہ ہو گا انہوں نے فرمایا کہ وہ انتقام کی تمنا نہیں رکھتے بجلی ڈالر وہ سستا کریں گے یہ بات اس لئے اہم تھی کہ سابقہ وزیر اعظم نے انتقامی سیاست میں قیمتی وقت ضائع کر دیا۔ اگر نواز شریف تعمیری کام کرتے ہیں اور خاص طور پر سچ مچ پٹرول اور بجلی سستی کرتے ہیں تو عوام کو اور کیا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ڈبل سپیڈ دکھانا ہو گی اور وہ وطن کو جنت بنائیں گے۔ ویسے اپنا وطن تو ہوتا ہی جنت ہے کہ آزادی ہے وگرنہ ہندوستان کو دیکھیں سمجھ میں آ جائے گا ایک مرتبہ پھر نواز شریف کے ذوق شعر پہ آتے ہیں انہوں نے غالب کا ایک شعر سنایا: غالب ہمیں نہ چھیڑ کہ پھر جوش اشک سے بیٹھے ہیں ہم تہیہ طوفاں کیے ہوئے مگر آغاز ہی میں انہوں نے ایک اور شعر پڑھا تھا جسے میں موزوں کر کر کے لکھ دیتا ہوں۔ کہاں سے چھیڑوں فسانہ کہاں تمام کروں وہ میری سمت جو دیکھیں تو میں سلام کروں انہوں نے کہا کہ بہت سالوں بعد ان کی عوام سے ملاقات ہو رہی ہے، کچھ جذباتی باتوں کا انہوں نے تذکرہ کیا کہ وہ گھر پہ آتے تھے تو ان کی والدہ اور بیگم ان کے لئے دروازے میں کھڑے ہوتے تھے ان دونوں کو انہوں نے سیاست میں کھو دیا اور تو اور وہ والدہ کے جناز میں بھی نہ آ سکے وہ تصویر بھی وائرل ہوئی جس میں مریم نواز اپنے باپ کے سینے کے ساتھ لگ کر اشک بار ہے یہ محبت وہی محسوس کر سکتے ہیں جن کے بیٹیاں یہ تو سچ ہے کہ ماں بیٹی کو صعوبتیں تو برداشت کرنا پڑیں۔ آپ انہیں نصرت بھٹو اور بے نظیر کے ساتھ چاہے نہ ملائیں مگر وہ ایک بیانیہ تو ان کا تھا وہ باپ بیٹے شہباز اور حمزہ پر تو حاوی ہیں۔ ہم اس بحث میں ہرگز نہیں پڑیں گے کہ کس کو کون لایا کہ آپ مجھ سے زیادہ جانتے یں اس میں کوئی تخصیص نہیں کوئی بھی دعویٰ کرنے کا حق نہیں رکھتا۔باقی انہوں نے وہ ساری اچھی باتیں کہیں جو ہر آنے والا کرتا ہے یا اسے کرنی چاہئیں کہ ریاستی ستونوں کو مل کر کام کرنا ہو گا بے روزگاری کا خاتمہ نظام انصاف کا بول بالا زراعت میں اصطلاحات برآمدات میں اضافہ وغیرہ وغیرہ آپ اسے منشور کہہ سکتے ہیں کہ ابھی تو انتخابات ہونے ہیں اور یہ دعوے قبل از وقت ہیں۔ ہم دعاگو ہیں کہ کسی طرح عوام کا دکھ درد دور ہو کم از کم آٹا تو نیچے آئے کہ بعض غریب تو کلو بھی نہیں پائو آٹا ہی خریدتے ہیں۔ جلسہ میں رش کافی تھی کہ میرے کہنے سے تو کم نہیں ہو جائے گا مجھے تو وہ زمانہ یاد آ گیا جب میاں صاحب پہلی مرتبہ سرزمین کے لئے راتوں رات اڑان بھر گئے تھے تب اگلے روز میں نے اپنے کالم کا عنوان لگایا تھا بخت کا سکندر اربوں سے عربوں تک۔وقت کیسے گزر جاتا ہے تب ہی غالب کے ایک مصرع کو میں نے گرہ لگائی تھی: یک بیک قید سے یہ تیرا رہا ہو جانا باور آیا ہمیں پانی کا ہوا ہو جانا یادش بخیر کہ جب نواز شریف صاحب نے جدہ سے ٹیلی فونک سپیج کی تھی تو دو اشعار پڑھے تھے: اے مرے دوست ذرا دیکھ میں ہارا تو نہیں میرا سر بھی تو پڑا ہے مری دستار کے ساتھ وقت خود ہی یہ بتائے گا کہ میں زندہ ہوں کب وہ مرتا ہے جو زندہ رہے کردار کے ساتھ تب مجھے معلوم ہوا کہ ان کی تقریر کون صاحب لکھتے ہیں۔اب کے بھی اس نے ہی لکھ کر دی ہو گی شعر کی اصلاح میاں صاحب خود ہی کر لیتے ہیں۔