پاکستان بھر میں ان دنوں شدید گرمی پڑ رہی ہے اور تقریباً ملک کا ہر حصہ گرمی کی شدت سے دہک رہا ہے۔ میدانی علاقے ہوں یا بالائی علاقے ، کم و بیش سبھی جگہ ایک سا درجہ حرارت دکھنے میں آ رہا ہے۔ جون جولائی کے مہینے میں اس قدر شدید گرمی کا ہونا فطری سی بات ہے یا اسکی دیگر وجوہات بھی ہیں؟ یقیناً فطرت کے ساتھ دیگر عوامل بھی ہیں، جنہوں نے اس وقت موسم اور ماحول کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ دنیا بھر میں گلوبل وارمنگ سے تو سبھی آگاہ ہونگے جسکی بناء پر موسمیاتی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ لیکن پاکستان اور اس جیسے ترقی پذیر ممالک میں معاملہ زیادہ سنجیدہ اور خطرناک صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ فضا میں گرد وغبار، درختوں و جنگلات کی شدید قلت کے باعث چھاؤں اور سبزے میں کمی اور دھوپ کی تمازت میں اضافہ،صنعتی علاقوں میں زہریلے مواد کا اخراج،جابجا کچرے اور کوڑے کے ڈھیر،پلاسٹک کی بوتلوں اور تھیلیوں کا استعمال ،یہ تمام وجوہات مل کر دنیا کو اور خصوصاً ہمارے جیسے ملک کو ہلاکت اور بیماریوں کا گڑھ بنا چکی ہیں۔ لیکن یہاں سب سے اہم اور بنیادی وجہ سڑکوں پہ چلنے والی لاکھوں گاڑیاں بھی ہیں۔ ایسی گاڑیاں جن کے چلانے والے پڑھے لکھے ہوں یا ان پڑھ لیکن انکی ذہنی پسماندگی اور جہالت کا اندازہ اس بات سے ہو جاتا ہے کہ محض چند پیسے بچانے کی خاطر وہ خود کی اور دیگر لوگوں کی بیماریوں کا سبب بن رہے ہیں اور انہیں اسکا احساس تک نہیں۔ پاکستان میں اگر ٹریفک حادثات لوگوں کی اموات کی بڑی وجہ ہیں تو یہی گاڑیاں لوگوں کی ذہنی و جسمانی صحت کی دشمن بھی ہیں۔سڑکوں پہ بیک وقت گاڑیاں،بسیں ، موٹر سائیکل ، رکشہ اور ٹرک وغیرہ فضائی آلودگی میں خاطر خواہ اضافہ کر رہے ہیں۔ گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں فضا میں کاربن ڈائی آکسائڈ کی مقدار بڑھا رہا ہے اور اسی سبب سانس، دل، گردے اور پھیپھڑوں کی بیماریوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔آج سے تقریباً سو دو سو سال قبل انسانی معاشرے میں صرف لکڑی کے جلنے اور اس سے اٹھنے والے دھویں کا تصور تھا لیکن جیسے جیسے انسان نے ترقی کی ویسے ویسے کئی مشکلات و مصائب میں پھنستا چلا گیا۔اب فضا میں زہر پھیلاتے دھویں کی کئی اقسام ہیں جن میں پیٹرول، ڈیزل، مٹی کا تیل، لکڑی اور کوئلے کا دھواں، سی این جی کا دھواں اور سگریٹ کا دھواں وغیرہ شامل ہیں۔ان میں سے اکثریت کے جلنے سے ایسے زہریلے مادے کا اخراج ہوتا ہے جو نا صرف انسانوں بلکہ چرند پرند کے لیے بھی انتہائی نقصان دہ ہے۔ فضا میں کاربن ڈائی آکسائڈ کی مقدار بڑھنے سے سورج کی اوزون سطح بری طرح متاثر ہو چکی ہے۔ جس سے زمینی درجہ حرارت میں جان لیوا حد تک اضافہ ہو چکا ہے۔ نیز سورج کی اوزون تہہ تباہ ہونے کی وجہ سے دنیا بھر میں موسم شدید ہوتے جا رہے ہیں جیسے بے وقت کی بارشیں، سیلاب، طوفان، بے وقت سردی و گرمی اور قحط سالی شامل ہیں۔الغرض فضا میں کاربن ڈائی آکسائڈ کی بڑھتی مقدار نے انسانوں کے ساتھ ساتھ قدرتی نظام کوبھی درہم برہم کر دیا ہے۔ ٹریفک کے اس جان لیوا دھویں سے وہ لوگ سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں جو براہ راست اس ماحول میں ہر وقت یا زیادہ وقت کے لیے موجود ہوں جیسے ٹریفک پولیس، ڈرائیور حضرات یا ایسے کاروباری لوگ جنکی دکانیں اور ٹھیلے براہ راست سڑک کنارے موجود ہوں۔ انکے پھیپھڑے ، دل اور نظام تنفس، بینائی سب سے پہلے متاثر ہوتے ہیں اور اگر اس ماحول سے بچا نا جائے تو خدانخواستہ کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔ لہذا اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ دھواں چھوڑتی گاڑیوں ، بسوں ، رکشوں اور ٹرکوں پر بھاری جرمانہ اور سزا عائد کی جائے۔ دماغی خلیوں کو کمزور کرکے یاداشت کو متاثر کرنے والے یہ زہریلے دھویں ہر طرح سے انسانی تباہی کا سبب ہیں۔ ایسی گاڑیوں پہ پابندی لگنی چاہیے نیز فضائی آلودگی میں کمی کیلیے زیادہ سے زیادہ درختوں ، پودوں اور گرین بیلٹ کا اضافہ کیا جانا چاہیے تاکہ وہ علاقے یا شاہراہیں جہاں ٹریفک کا بہاؤ بہت زیادہ ہے وہاں سبزے اور ہریالی کی مدد سے مثبت اور مفید تبدیلی لائی جاسکے۔ زیادہ سے زیادہ درخت لگانے سے نا صرف خوبصورتی میں اضافہ ہو گا بلکہ درجہ حرارت میں بھی نمایاں کمی واقع ہوگی۔ دھواں چھوڑتی گاڑیوں اور درخت کاٹنے جیسے سنگین جرم پہ سخت سزائیں اور بھاری جرمانے عائد کرنے لازمی ہیں ورنہ اسی طرح انسان اپنی لالچ اور کم عقلی کی بنا پر اپنا اور دوسروں کا نقصان کرتا جا جائے گا۔ نیز گاڑیوں میں آلہ صفائی" کیٹا لائٹک کنورٹر" لازمی نصب ہونا چاہیے۔ یورپ و امریکہ جیسے ممالک میں ہر گاڑی، بس، موٹر سائیکل وغیرہ میں یہ آلہ صفائی ضرور نصب کیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ وہاں ہزاروں گاڑیوں کے ہوتے ہوئے فضا اس قدر آلودہ دکھائی نہیں دیتی جیسی پاکستان میں ہوتی ہے۔ اس آلے کی تنصیب کا بنیادی مقصد ایندھن جلنے سے پیدا ہونے والی خطرناک اور زہریلی گیسوں اور کیمیائی مادوں کی صفائی ہے۔اگرچہ یہ آلہ بہت مہنگا ہے اور نئی آنے والی اکثر گاڑیوں میں نصب ہوتا ہے لیکن ایک بار اس میں کوئی خرابی آ جائے تو لوگ اسے ٹھیک کروانے کی بجائے اتروا دیتے ہیں کیونکہ اسکی صفائی اور دیکھ بھال پربھی کافی خرچہ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ لیکن جان ہے تو جہان ہے ، اگر ہم بے کار کی چیزوں پر ہزاروں خرچ کر سکتے ہیں تو اپنی اور دوسروں کی صحت پر خرچ کرنا ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ اپنی اور اپنے پیاروں کی صحت کے ساتھ ساتھ فضائی آلودگی میں کمی کرنا ہمارا قومی فریضہ ہے لیکن بات صرف ترجیحات کی ہے۔ اگر ہمارے لیے ہماری صحت، صحت مند فضا اور ماحول اہم ہیں تو بحثیت مجموعی ہمیں مندرجہ بالا تمام امتوں پر لازمی عمل کرنا ہوگا۔ نیز حکومت کی جانب سے بھی ایسا منظم و مربوط ٹریفک کا نظام بنایا جائے جس سے دھواں چھوڑتی گاڑیوں کی جانچ پڑتال کی جاسکے اور ان پر پابندی عائد کی جا سکے۔ اگر ٹریفک کے نظام میں ہی چند تبدیلیاں کر دی جائیں تو فضائی آلودگی اور موسم کی شدت میں نمایاں کمی واقع ہو سکتی ہے۔ نیز دیگر عوامل جیسے شجرکاری، صفائی ستھرائی اور پلاسٹک میٹریل کے استعمال پر مکمل پابندی سے باقی کے فوائد بھی حاصل کیے جا سکتے ہیں۔