اس وقت جب کہ بھارت میں مسجدیں شہید کی جا رہی ہیں اوربھارتی مسلمان بطور اقلیت اپنے حقوق سے محروم کئے جا رہے ہیں۔ دوسری طرف کشمیرکی مساجد کو انکائونٹر کی آڑ میں شہید کیاجا رہا ہے جبکہ مقبوضہ کشمیر کی 28 ایکڑ پرمحیط سب سے بڑی اورتاریخی جامع مسجد مسلسل فوجی محاصرے میں ہے اورگزشتہ 2 برسوں سے لگاتار مقفل ہے۔ پاکستان بھارت کی اس اسلام اورمسلمان دشمنی کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے چاردانگ عالم طشت از بام کررہا ہے ۔ تو ایسے میں کراچی کی چالیس سالہ طارق مسجد کو شہید کرانے کا آڈرجاری ہوا ہے ۔اس کامطلب یہ ہے کہ جب پاکستان بھارت کی اسلام اورمسلمان دشمنی کے خلاف عالمی فورموں پراپنی صدا مزید بلند کرے توبھارت طارق مسجد کا معاملہ سامنے لائے گا تو پھر کیا ہوگا۔ اس آڈرکے بعد کراچی کی طارق مسجد کو لے کر اس پر ایک نئی جنگ چھڑ گئی ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی اس مسئلے پر تحقیق شروع کردی ہے۔کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز نے بتایا ہے کہ اس مسئلے پر سوشل میڈیا پر بہت زیادہ شور ہو رہا ہے۔ لوگ سوالات بھی بھیج رہے ہیں اس لیے میں نے کونسل کے شعبہ تحقیق کو کہا ہے کہ وہ اس مسئلے پر تحقیق کریں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کے خیال میں،اس فیصلے پر عملدرآمد کرانا بہت مشکل ہو گا۔ اس کی سخت مزاحمت ہوگی اور مذہبی تنظیمیں اس کی بھر پور مخالفت کریں گی۔ اب مسجد انتظامیہ نے کہا ہے کہ مسجد کو گرا کر دکھائو۔ ڈاکٹر قبلہ کا کہنا تھا کہ جس مسجد کا کراچی میں حوالہ دیا جا رہا ہے اس مسجد میں صدر مملکت بھی نماز پڑھتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس مسجد کو تعمیرات کی اجازت کس نے دی؟ بجلی اور دوسری سہولیات کس نے فراہم کی؟ تو اس طرح کے سارے سوالات پر بات چیت ہونی چاہیے اور تحقیق ہونی چاہیے۔ حکومت پہلے دن سے یہ باورکروا رہی ہے کہ وہ اقلیتوں کے حقوق کی سب سے بڑی محافظ ہے اور اسے ثابت کرنے کیلئے کرتارپور میں سکھوں کیلئے بابا گرو نانک گوردوارہ کی تزئین و آرائش پر کروڑوں روپے بجٹ لگا دیا۔ اسلام آبادمیںسرکاری زمین پر مندر بنانے کی کوشش کی،اس کے ساتھ ساتھ1947ء میں جو مندر بے آباد ہو گئے تھے ، حکومت ان کو مکینوں سے خالی کروا کر انہیں دوبارہ مندروں کی شکل میں بحال کروانے اور انہیں مرحلہ وار ہندووں کے حوالے کر رہی ہے اس وقت ملک میں دو اقلیتی کمیشن کام کر رہے ہیں ایک اقلیتی کمیشن کے سربراہ شعیب سڈل ہیں دوسرا اقلیتی کمیشن وزارت مذہبی امورکے تحت قائم کیاگیا ہے ، اقلیتوں کے نام پرقبول اسلام ،جبری مذہب تبدیلی کے حوالے سے ایسے ایسے بل اورقانون لائے جارہے ہیں کہ جن کا اسلام اوراس ملک کی تہذیب ونظریاتی شناخت سے کوئی تعلق نہیں۔ کچھ عرصہ قبل کرک میں مندرکی تجاوزات کی وجہ سے مقامی افراد نے احتجاج کیاجو بعد ازاں مندر پرحملے کی صورت میں بدل گیا۔ عدالت نے فوری طور پر اس زمین پر دوبارہ مندر کو دوبارہ تعمیرکرنے کا حکم دیا ۔ سپریم کورٹ نے کراچی میں ایک پارک میں تعمیر کی گئی مدینہ مسجد کو مسمار کرنے سے روکنے سے متعلق وفاقی حکومت کی استدعا مسترد کر دی ہے ۔ جبکہ چیف جسٹس نے کہا کہ سندھ کی صوبائی حکومت چاہے تو مسجد کے لیے متبادل زمین دے دے۔ایک طرف عدالت نے مسجد گرانے کا حکم اس لئے دیا کہ سرکاری زمین پر بنی ہے۔ اب سرکار کو ہی مسجدکے لیے دوسری زمین دینے کا حکم دیاجا رہا ہے۔ کیا واقعی اب حالات ایسے ہوگئے ہیں کہ قانون اور مذہبی قیادت آمنے سامنے ہیں۔ اندرونی کہانی یہ ہے کہ مذہبی تنظیمیں بہت مشتعل نظر آتی ہیں۔ مذہبی تنظیموں نے خبردار کیا ہے کہ اگر فیصلے پر عملدرآمد ہوا تو ملک میں بہت خون خرابہ ہو سکتا ہے۔جمیعت علمائے اسلام کے رہنما ڈاکٹر راشد محمود سومرو کا ایک ویڈیو خطاب سوشل میڈیا پر گردش کر رہا ہے، جس میں وہ اس فیصلے کی شدت کے ساتھ مخالفت کر رہے ہیں۔ اسلام آباد کی لال مسجد سے منسلک شہدا فائونڈیشن نے بھی سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو مسترد کردیا ہے۔ اعتراضات یہ اٹھائے جا رہے ہیں کہ اگر گرانا ہے تو بنی گالہ کو گرائیں۔ اسلام آباد کے بڑے بڑے غیر قانونی پلازوں کو گرائیں، جن کو ریگو رائزڈ کیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں مسجد کی تعمیر سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی جس کی سربراہی چیف جسٹس نے کی جس میں کمشنر کراچی اقبال میمن اور ایڈمنسٹریٹر کراچی مرتضیٰ وہاب اور دیگر حکام عدالت میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے ایڈمنسٹریٹر کراچی سے پوچھا کہ انہوں نے غیر قانونی مسجدکے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی۔ جس پرانھوں نے جواب دیا کہ عدالت حکم دے گی تو کارروائی ہوگی۔ جواب دیتے ہوئے کہا کہ میں آپ لوگوں کو دیکھ کر حیران ہوں(اس طرح کا برتائو یہ آپ کا کام ہے پھر بھی آپ ہمارے (عدالت کے) حکم کا انتظار کرتے ہیں۔عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ایسی مساجد عبادت کی جگہیں نہیں ہیں بلکہ رہائش گاہیں ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ بجلی اور گیس کے بل نہیں ہیں اور یہ معاملہ عدالت کے علم میں لایا گیا ہے، ورنہ کراچی میں کئی اور غیر قانونی تعمیرات ہیں جن پر کوئی اعتراض کرنے والا نہیں۔ اقلیتوں کے حقوق اور جدید ریاست کے تقاضے اپنی جگہ لیکن ہمیں اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیبﷺ کی تعلیمات پر کار بند رہنا اور اپنی عاقبت سنوارنا ہے ۔واضح رہے کہ پاکستان ایک اسلامیہ جمہوریہ ریاست ہے، اس کے آئین میں صدر کا مسلمان ہونا لازم اور سرکاری مذہب اسلام ہے پاکستان دنیا کی واحد نیو کلیئر مسلم ریاست ہے۔ امریکہ و یورپ ہم سے کبھی خوش ہو سکتے ہیں نہ انتہا پسند تنگ نظر نریندر مودی۔