گزشتہ سال اپنے عروج پہ پہنچنے والی می ٹو تحریک کوجس کی ابتدا موجودہ دہائی کے شروع میں افریقی سماجی کارکن ترانہ برکیا نے کی ، ایک سال پورا ہوگیا۔ اس تحریک کو اس وقت بے پناہ شہرت حاصل ہوئی جب ہالی ووڈ کے مشہور پروڈیوسر ڈائریکٹر اور میرا میکس پروڈکشن کے بانی ہاروے وائنسٹین پہ یکے بعد دیگرے ایک دو نہیں اسی سے زائد خواتین نے جنسی ہراسانی کا الزام لگایا ۔ جس مرد پہ اتنی کثرت سے معروف اور حسین خواتین الزام لگائیں ، اسے بدنامی کی فکر سے زیادہ الزام کی خوشی ہوتی ہے۔ان تمام خواتین کا کہنا تھا کہ انہیں اس مرد بے لگام نے ان کے کیرئیر کی ابتدا میں فلم انڈسٹری کی مشہور اصطلاح کاسٹنگ کاوچ کا نشانہ بنایا۔ یہ اعتراف لیکن کوئی نہیں کررہی کہ اسی کاسٹنگ کاوچ سے گزر کر ان میں سے ہر خاتون اپنے کیریئر کے عروج پہ پہنچی اور دولت شہرت اور گلیمر کی دنیا کا ستارہ بن کر دمکنے لگی۔احسان شناسی مشکل کام ہے تو کم سے کم موصوف کی وعدہ پروری کا اعتراف تو بنتا تھا لیکن ہوا یہ کہ ہاروے وائنسٹین جن کے کریڈٹ پہ کئی مشہور فلمیں تھیں، جنسی ہراسانی کے مقدمات بھگت رہے ہیں ۔یہ سلسلہ شروع ہونے کی دیر تھی کہ دنیا بھر سے متاثرہ خواتین نے اپنے اپنے متعلقہ مجرمان کے خلاف آواز اٹھانی شروع کردی اور میڈیا پہ گویا طوفان آگیا۔ معلوم ہوتا تھا دنیا کی کوئی عورت اپنے دس فٹ قطر میں موجود کسی مرد کی دست برد سے محفوظ نہیں ہے۔اب اس سال پھر یہ لہر چل پڑی ہے ۔ روز کوئی نہ کوئی عفیفہ دنیا کے کسی نہ کسی کونے سے نمودار ہوکر بظاہر عزت دار مرد پہ، جنسی ہراسانی کا الزام دھر دیتی ہے۔ صدر ٹرمپ سے لے کر جو اس قسم کے انسان ہیں کہ ان پہ لگا ہر الزام سچ معلوم ہوتا ہے ۔امریکہ کے نو منتخب چیف جسٹس بریٹ کاوانوف جو واقعتا ایک عزت دار شخص ہیں بھی محفوظ نہ رہے اور اپنی نامزدگی کے دوران جنسی ہراسانی کے الزامات کا سامنا کرتے رہے ۔ ان پہ ایک معزز خاتون پروفیسر کرسچن بلاسی فورڈ نے جنسی ہراسانی کا الزام لگایا جو اس وقت کی بات تھی جب آتش جوان نہیں تقریبا لڑکا سا تھا اور خاتون کا کلاس فیلو تھا۔ادھر ہمارے پڑوس بھارت میں تو لائن لگی ہوئی ہے جہاں می ٹو مہم بڑے جوش و خروش سے جاری ہے ۔ بھارتی فلم اور ٹیلی وژن انڈسٹری تو ایک طرف، صحافت اور سیاست کے معززین کو پگڑی یا جو کچھ بھی وہ پہنتے ہیں،بچانی مشکل ہوگئی ہے۔ معروف صحافی اور وزیر مملکت برائے امور خارجہ ایم جے اکبر اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے ہیں ۔ ان پہ بیس سے زائد خواتین صحافیوں نے جنسی ہراسانی کے الزام لگائے جن میں سے ایک پہ انہوں نے ہتک عزت کا دعوی بھی کررکھا تھا ۔یہ الزامات ان کے صحافتی کیریئر کے اس دور سے تعلق رکھتے ہیں جب وہ دہلی اور کلکتہ میں بالترتیب ایشین ایج اور ٹیلی گراف کے مدیر تھے۔ان کے استعفیٰ کے بعد بی جے پی کی وفاقی حکومت میں صرف ایک مسلمان وزیر مختار عباس باقی رہ جائیں گے ۔ دیکھئے وہ کب می ٹو کی اندھی لاٹھی سے ہانکے جاتے ہیں ۔ عالمی سیاست میں کسی مخصوص شخصیت کے خلاف کسی مخصوص ایجنڈے کی تکمیل کی خاطر جنسی ہراسانی کا ہتھیار استعمال کرنا یا صحافت، فلم انڈسٹری یاتجارت کے کسی شعبے میں کسی شخص کو نشانہ بنانے کے لئے اس کارڈ کا استعمال کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اس حقیقت کا انکار لیکن ناانصافی ہوگی کہ عورت یا مرد اس جرم کا شکار ہوتے ہی نہیں یا ہر بار وہ برابر کے قصوروار ہوتے ہیں۔عام زندگی میں عورت جنسی ہراسانی کا شکار ہوتی ہے اور کئی بار وہ بالکل بے قصور ہوتی ہے۔ عورت کو ہراساں کرنا بہت آسان ہوتا ہے ۔ وہ مرد کے ایک فقرے یا محض ایک نگاہ غلط انداز سے خوفزدہ ہوجاتی ہے۔ یہ مگر ان خواتین کی بات ہے جو تمام احتیاطی تدابیراختیار کر کے اپنے گھروں سے ضرورتاً نکلتی ہیں پھر بھی ہراسانی کا شکار ہوتی ہیں اور بالکل ضروری نہیں کہ یہ آخری حدتک کسی بداخلاقی کا اظہار ہو،یہ محض ایک فقر ہ ہوسکتا ہے، ایک گندی نظر ہوسکتی ہے یا ایک برا لمس ہوسکتا ہے۔یہ کہنا بھی درست نہیں کہ صرف بے پردہ خواتین مردوں کی ہراسانی کا شکار ہوتی ہیں۔ یہ سانحہ باحجاب خواتین پہ بھی گزرتا ہے۔ حجاب عورت کو تحفظ کی ضمانت نہیں دیتا البتہ ایک اخلاقی برتری ضرور دیتا ہے۔ اسے اس جرم میں معاون نہیں بناتا گو یہ بھی کوئی فارمولا نہیں۔ اپنے کیریئر کے دوران جائے کار پہ میں نے بہت سی باحجاب خواتین کو محض ایک گز کپڑے کے تھان سے سر ڈھانکنے کے،اور کسی تکلف کا روادار نہیں دیکھا اور خود میں نے کبھی حجاب نہیں کیا لیکن میری سالانہ اپ ریزل اس لئے رک جایا کرتی تھی کہ میں مردوں کے ساتھ نائس نہیں تھی، ان کی تعریف کا مثبت جواب نہیں دیتی تھی اور شام گئے دفتری خو ش وقتی میں شریک نہیں ہوتی تھی۔صنعتی انقلاب نے عورت کو گھروں سے نکال کر معاش کی دوڑ میں جوت دیا تو اس کا نقصان بس یہ ہواکہ عورت کھیتوں سے نکل کر فیکٹریوں اور دفتروں میں آگئی۔ ہراساں تو وہ کھیتوں میں بھی ہوا کرتی تھی۔ دیہاتو ں میں مردو زن کے اختلاط کے مواقع غالبا شہروں سے بھی زیادہ ہیں بس وہ روایت اور ثقافت کے خوبصورت پردوں میں چھپے ہوئے ہیں۔ کیا عورت وہاں استحصال کا شکار نہیں ہوتی؟اور کیا خود مرد کسی بالادست لیکن بدنیت عورت سے محفوظ ہے؟ قصہ یوسف ہی اٹھا کر دیکھ لیجئے ۔ تار تار دامان یوسف آج بھی زلیخاوں کی دہائی دیتے ہیں جو کسی نہ کسی عزیز کی عزیز ہوا کرتی ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو بالادست ہے وہ بے لگام خواہشات کی تکمیل کے لئے آزاد ہے خواہ وہ مرد ہو یا عورت۔ اس وقت دنیا میں تقریبا ہر اہم منصب پہ مرد کی اجارہ داری ہے اس لئے وہ موقع اور فطرت سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔ یہ مرد کی فطرت ہی تو ہے جو ہاتھ میں جنبش نہ ہونے کے باوجود ساغر و مینا کو آگے دھرے رکھنے پہ مصر رہتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ہمارا معاشرہ گھٹن کا شکار ہے اس لئے عورت کا استحصال ہوتا ہے اور جنسی جرائم کثرت سے ہوتے ہیں۔ ہالی ووڈ آخری خبریں آنے تک نہ مسلمان ہوا ہے نہ افغانستان میں ہے، اس کے مرد و زن کس جنسی گھٹن کا شکار ہیں ۔بھارت تو آئینی طور پہ اتنا سیکولر ہوچکا ہے کہ اب ہم جنس پرستی پہ پابندی کا قانون جو جنسی آزادی سے متلطف ہونے والی انگریز سرکار نے بنایا تھا، مذہبی مودی سرکار نے ختم کردیا ہے ۔ معاشرتی طور پہ بھارت میں عورت کو پاکستان سے کہیں زیادہ صنفی آزادی حاصل ہے لیکن دہلی ریپ کیپیٹل کے طور پہ بدنام ہے۔آخر جنسی آزاد روی مردکی آگ بجھانے میں ناکام کیوں ہے ؟کیونکہ آگ کو پٹرول سے بجھایا ہی نہیں جاسکتا۔یہ سادہ سی بات ہے اور بات یہ بھی ہے کہ آج کی عورت کو معاشی آزادی اور کیرئیر درکار ہے اور مرد کو یہی عورت درکار ہے جس سے مطلب بھی پورا ہو اور جس کا معاشی بوجھ بھی نہ اٹھانا پڑے۔