9مئی جناح ہائوس لاہور میں شرپسندوں نے جو کچھ کیا‘اس کی شدید مذمت کرنی چاہیے‘فوجی تنصیبات و سرکاری املاک کو نقصان پہنچانا کسی صورت بھی قبول نہیں‘اس حادثے میں ملوث افراد کو قانون کے کٹہرے میں لاناہوگا تاکہ آئندہ کوئی ایسا قبیح عمل نہ کر سکے۔وہ ادارے جو اس حادثے کی تحقیقات کر رہے ہیں‘ انھیں چاہیے کہ حب الوطنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے شفاف تحقیقات کی روایت کو آگے بڑھائیں۔ بدقسمتی سے پاکستان پر جب بھی کڑا وقت آیا سیاسی جماعتوں نے انتقامی کاروائی کی۔تحریک انصاف تھی یا اب مسلم لیگ نون اور پی ڈی ایم کی دیگر جماعتیں،ان سب نے انتقامی سیاست کو فروغ دیا اور پاکستان کو اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے کہ ہر ذی شعور پاکستانی ذہنی اذیت سے دو چار ہے۔ایک طرف مہنگائی ‘بدعنوانی اور آئینی بحران اور دوسری جانب سیاست دانوں کی انا‘تکبر اور ضد،نہ کوئی عدلیہ کی سن رہا ہے اور نہ پارلیمان کی۔جو لوگ اس پر بات کر رہے ہیں‘وہ گھسیٹے جا رہے ہیں‘ اور جو بچ گئے ہیں وہ روپوش ہو چکے‘ان حالات میں کون ہے جو نیوٹرل ہو کر پاکستان کے لیے سوچے۔پاکستان کے عوام کے لیے بولے‘ان لوگوں کی آواز بنے جن کی آوازیں بند ہیں ۔ پاکستان کا ہر ذی شعور اس بات سے متفق ہے کہ نو مئی کو جو کچھ ہوا اور جنھوں نے کیا‘انھیں کسی صورت بھی معافی نہیں ملنی چاہیے ‘وہ شرپسند جنھوں نے امن خراب کرنے کی کوشش کی وہ سزا کے حق دار ہیں ۔ملزموں کو پکڑتے ہوئے‘سزائیں سناتے ہوئے ہمارے اداروںکو یہ بات ضرور ذہن نشین کرنی چاہیے کہ کہیں ایسا تو نہیں یہ سیاست دان اور شرپسند عناصر ہمیں اپنے ہی لوگوں کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔ ہمیں اس سارے معاملے کی تحقیقات کرتے ہوئے یہ بات ذہن میں رکھنی ہوگی کہ ہم کہیں انتقامی کارروائی کا شکار تو نہیں ہو گئے۔ پی ڈی ایم نے موجود ساری تباہی کا ذمہ دار تحریک انصاف کو ٹھہرا دیا اور تحریک انصاف اس کا ذمہ لینے کو تیار نہیں‘ بلکہ عمران خان نے جہاں اس سارے معاملے کی مذمت کی ‘وہاں شفاف تحقیقات کا بھی مطالبہ کیا۔ عدالت سے بھی گزارش کی کہ وہ نیوٹرل کمیٹی بنائے اور اس حادثے کی تہہ تک پہنچے کہ آخر یہ واقعہ کیسے ہوا اور کون لوگ ملوث تھے اور کہیں ایسا تو نہیں کہ دشمن عناصر نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ ساری کارروائی کی تاکہ ملبہ تحریک انصاف پرڈالاجا سکے۔ پی ڈی ایم ‘تحریک انصاف کو دہشت گرد جماعت قرار دینے کے لیے پورا زور لگا رہی ہے تاکہ اسے کالعدم کیا جا سکے۔پاکستان تحریک انصاف کو دیوار سے لگانے کے لیے درجنوں ہتھکنڈے آزمائے گئے‘جب کوئی حربہ بھی کارگر نہ ہو سکا تو پارٹی سے لوگوں کو توڑنا شروع کر دیا‘ہر مستعفی ہونے والا یہی کہہ رہا ہے کہ’’مجھ پر کسی کا دبائو نہیں‘میں نے ضمیر کی آواز پر یہ فیصلہ کیا‘‘،اب خدا جانے یہ لوگ ’’ضمیر کی آواز‘‘ کسے کہہ رہے ہیں۔ ویسے میرا یہ ماننا ہے کہ سیاست دانوں کے ضمیر کی آواز ہوا کا رخ دیکھ کر تبدیل ہوتی رہتی ہے ۔ پارٹی بدلنے والا ہر خانہ بدوش یہی کہتا ہے کہ گزشتہ پارٹی اور قائد نے ملک کا بیڑا غرق کر دیا‘لہٰذا میرے ’’ضمیر‘‘نے کہا اب نہیں‘اس لیے میں مستعفی ہو رہا ہوں۔ سادح لوح عوام اس کی باتوں کو تسلیم بھی کر لیتے ہیں اور یوں ایسے خانہ بدوشوں کی سیاسی دکان چلتی رہتی ہے۔ہر پانچ سال بعد یہ منڈیاں لگتی ہیں‘پارٹی سے ٹکٹ کے خواہش مند‘جب ٹکٹ نہیں ملتا تو اپنی وفاداریاں تبدیل کر لیتے ہیں یا پھرآزاد الیکشن لڑتے ہیں‘دونوں صورتوں میں دھوکا عوام ہی کو ملتا ہے۔ پی ڈی ایم نے تحریک انصاف کو جیسے دیوار سے لگانے کی منصوبہ بندی کی‘وہ اس قدر واضح ہو چکی کہ ہر ذی شعور اس بات سے واقف ہے کہ عمران خان اور اس کی پارٹی کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے‘قیاس آرائیاں کرنے والے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ یا عمران خان کو لمبے عرصے کے لیے جیل میں ڈال دیا جائے گا یا پھر اسے ملک چھوڑنے کا کہا جائے گا‘سیاسی دور اندیش تو یہ بھی کہتے ہیں کہ بھٹو کی بھی مثال دہرائی جا سکتی ہے۔ بہرحال جو بھی ہو اب یہ چھپانا بہت مشکل ہو چکا ۔پاکستان کے ساتھ گزشتہ پچھہتر سالوں میں جو کچھ ہوا‘ہر کردار سامنے آ چکا۔ معاملہ اب عمران خان تک نہیں رہا ۔ عمران خان کو جیل میں ڈالیں یا ملک بدر کریں‘جن لوگوں نے پاکستان کو تباہی سے دوچار کیا‘یہ عوام نہ انھیں کبھی بھولیں گے اور نہ ان کو معاف کریں گے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاست دان پرانی رنجشیں اور تکبر کوایک طرف رکھ کرمذاکرات کی میز پر بیٹھیں اور صرف پاکستان کے عوام کے بارے میں سوچیں۔ سیاست دانوں نے فیصلہ کرتے ہوئے ہمیشہ اپنے غصے اور ضد کو ترجیح دی‘میری گزارش ہے کہ اس دفعہ عوام کے بارے میں سوچیں‘شاید اس سے کوئی درمیانی راستہ نکل آئے۔ ٭٭٭٭٭