برصغیرکی تاریخ میں غالب ؔاور میر تقی میرؔجیسے اب کبھی بھی پیدا نہیں ہونگے ادب اور شاعری کے یہ روشن ستارے قیامت تک اپنی گفتار اور شاعری کی وجہ سے زندہ رہیں ، استاد ذوق اور مرزا سودا بھی اپنی شاعری کے ذریعے بہت عرصہ ادب میں نمایاں رہے لیکن جوبات غالب ؔاور میرؔ کی شاعری میں ہے وہ ذوق ، سودا اور مومن خان مومن کو چھو کر بھی نہیں گزری لیکن افسوس کہ غالب ؔاور میر کو ؔاپنی حیات میں بے قدری،معاشی تنگ دستی اور دیگر مسائل نے اپنی گرفت میں لیے رکھا۔ بڑے لوگوں کے ساتھ یہی المیہ ہوتا ہے کیونکہ وہ زمانہ ساز ، خو د غرض منافق اور جھوٹے نہیں ہوتے اس لیے وہ زمانے کے ساتھ نہیں چل سکتے جبکہ ہر جھوٹا ، مکار، خود غرض اِس زمانے کی آنکھ کا تارا بنا رہتا ہے لیکن وہ عزت ، وقار اور مرتبے سے محروم رہتا ہے جبکہ سچا اور کھر اانسان وقتی طور پر مشکلات کا شکار ضرورہوتا ہے لیکن پھر طویل مدت لوگوں کے دلوں پر راج کرتا ہے ۔ برسوںپہلے 1996ئ؁میں جب میںلاہور میں روزنامہ آزاد کے ساتھ وابستہ تھا یہ اخبار کچھ عرصہ تک ساہیوال کے ایک پروفیسر عبدالرشید صاحب نے پوری آب وتاب کے ساتھ نکالا تھالیکن صرف دو سال کے عرصہ میں صحافت کا یہ پھول بھی مرجھا گیا تو اُس دور میں ہم چونکہ دن رات صحافت کے جنون کا شکار تھے پھر ایک دن ایسا ہوا کہ انار کلی کے ایک ہوٹل میں جا نکلے کیونکہ وہاں پر ہمارے دوست خلیفہ ریاض صاحب ڈیرہ غازی خان سے آکر ٹھہرا کرتے تھے اُن دنوں وہ لاہور آئے ہوئے تھے۔ لاہور تہذیب و تمدن کا مرکز ہے اور پھر وہ انار کلی بازار کہ جس کی دھوم پورے بر صغیر میں رہ چکی ہو اور وہ انار کلی کہ 1929ئ؁ میںجب پنڈت جواہر لعل نہرو لاہور آیا تو پورا انارکلی اپنے پورے جوبن پر تھا جواہر لعل نہرو کے والدین نے انار کلی میں ہی بھلہ شو کمپنی کے دفتر کی چھت پر چڑھ کر اپنے بیٹے کے جلوس پر چاندی کی اشرافیاں نچھاور کی تھیں ۔ خیر جب ہم ہوٹل خلیفہ ریاض صاحب سے ملنے جایا کرتے تھے اور پھر وہی پر مقیم اُستاد غلام حسین کتھک عرف مہاراج کتھک سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا مہاراج کتھک اُن دنوں کافی بوڑھے ہو چکے تھے لیکن دلی اور کلکتہ کی یادیں ابھی اُن میں پوری آن اور بان کے ساتھ زندہ تھیں۔ مہاراج غلام حسین اپنے اُستاد انڈین شیکسپئر آغا حشر کاشمیری کے بہت بڑے مداح تھے جو بہت بڑے ڈرامہ نگار تھے اور ساتھ ہی رمزیہ شاعری بھی غضب کی کیاکرتے تھے۔ اسٹیج ڈراموں سے اُنہوں نے پورے بر صغیر میں نام پیدا کیا جبکہ ایک زمانہ میں وہ عیسائیوں کے ساتھ منا ظرے بھی کیا کرتے تھے بلا کے ذہین اور حاضر جواب تھے آخری عمر میں مختار بائی کے ساتھ عشق کیا اور پھر بڑھاپے کے عشق نے اُن کی جان ہی لے لی تھیْ اُن کی قبر لاہور میانی صاحب میں ہے ۔ 1935ئ؁ میں آغا حشر کاشمیری فوتگئے فوت ہو گئے ۔ مہاراج غلام حسین کتھک نے ایک پاکستانی فلم سرگم میں بھی کام کیا تھا یہ فلم عدنان سمیع اور زیبا بختیار نے بنائی تھی کیونکہ یہ دونوں فنکار اُستاد غلام حسین کتھک کے شاگرد تھے ۔ اس لیے اُنہوں نے مہاراج غلام حسین کتھک کو اپنی ذاتی فلم سر گم میں کام کرایا تھا ۔ شیخ امجد حسین ایڈووکیٹ جو اُن دنوں پہلے کالج میں زیر تعلیم تھے وہ بھی مہاراج غلام حسین کتھک اور خواجہ حسان کے ساتھ حضرت علامہ اقبال کے نواسے میاں صلاح الدین سے ملنے جایا کرتے تھے۔ شیخ امجد حسین ایڈووکیٹ لاہور سے بے حد پیار کرتے ہیں اور لاہور کی ثقافت اور روایات کے سچے امین ہیں۔ لاہور کے عشق میں ہر وقت ڈوبے رہتے ہیں اسی طرح سے ہمارے ڈیرہ غازی خان کی ایک اور آخری نشانی اُستاد مستری حمید جو ناز سینما کے مالک تھے گذشتہ دنوں ایک سو برس کی عمر میں انتقال کر گئے ہیں اُن کو میں نے خود 1998ئ؁ میں لاہور لکشمی چوک پر درجنوں مرتبہ دیکھا اورملاہوں وہ بھی یہی کہتے تھے کہ لاہور آکر جو سکون ملتا ہے وہ کہیں اور نہیں ملتا۔ لاہور کی ایک اور خوب صورت شخصیت خواجہ جاوید صحاف صاحب کی ہے کہ جو مولانا سید عبدالقادر آزاد سابق خطیب بادشاہی مسجد کے مرید خاص اور اُن کے فرزند موجودہ خطیب بادشاہی مسجد اور چیئرمین روایت ہلال کمیٹی مولانا سید عبدالخبیر آزاد کے پروانے ہیں۔ خواجہ جاوید صحاف صاحب بھی لاہور کے تمام قدیم دروازں اورانار کلی کی چلتی پھرتی تاریخ ہیں کبھی اُن کے بارے میں بھی اظہار خیال کریں گے توایسے لوگ دراصل ہماری تاریخ اور روایات کے اصل امین ہیں۔ افسوس کہ ہم نے اپنی روایات اور تاریخ کو پس پشت ڈال دیا ہے ہم صرف مادیت پرستی میں مست ہیں جولوگ قابل تقلید تھے ہم نے اُن کو یکسر فراموش کر دیا ہے شہرت اور دنیا داری کے چکر میں ہم نے اپنا سب کچھ کھو دیا ہے اس لیے تو ہم نے اپنی ترقی کے دروازے اپنے آپ پر بند کر دیئے ہیں۔ وگرنہ قدرت نے ہمیں کتنا خوب صورت ملک دیا ہے اور دنیا کی تمام نعمتیں ہمیں عطا کی ہیں لیکن ہم اپنا سب کچھ گنوا رہے ہیں۔ ہم صرف اِس وقت راکھ کا ڈھیر بن چکے ہیں سیاست کو ہم نے گالی بنا دیا ہے ہمارے تمام ادارے روز بروز سیاست کا شکارہو کر تباہ ہوتے جا رہے ہیں کیونکہ جب ادارے میں بھی سیاست آجاتی ہے تو پھر ادارے بھی سیاسی ہوس کا شکار ہو کر تباہ ہوجاتے ہیں جیسے حضرت غالب ؔاور میر ؔکے زمانے میں دلی اور دیگر ہندوستان تباہ ہوا تھا لیکن اُن کے بعد تو داغ ، حالی اور اقبال نے پھر بھی بر صغیر کی لاج رکھ لی تھی لیکن اب تو کچھ نہیں بچا ۔